قوموں کی ترقی میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے جو قومیں مسقل مزاج رویوں، اعلیٰ قیادت، باہمی اعتماد، عوامی جوش و جذبہ اور درست سمت کے تعین و تعاقب سے اپنا سفر آگے کی جانب رواں رکھتی ہیں۔ راہ میں آنے والے وقتی حادثات ان کی منزل سے دوری کا نہیں اس کی درستی کا سندیس لے کر آتے ہیں جنہیں مل بیٹھ کر خوش اسلوبی سے حل کر لیا جاتا ہے اور منزل کسی گام چوکتی نہیں۔ تاریخ کے پنَوں پر جہاں سرخ سیاہی سے قوموں کی تقدیر لکھی جاتی رہی وہاں تقدیر بنانے والوں کے اوصاف کا احاطہ بھی بیان کیا جاتا رہا تاکہ آنے والی نسلیں اور دیکھنے والے لوگ سبق حاصل کرتے ہوئے اپنی اپنی راہیں سدھارلیں۔یوں ہم نے دیکھا کہ وہ لوگ جوجستہ جستہ دستوں کی صورت اپنی بقا ء کی جنگ لڑنے کی بجائے مل کر ایک گروہ اور بصورتِ کامل ایک قوم بن کر ابھرے ان کی منزل بہت آسان اور قریب ہو گئی۔ دنیا کے نقشے پر بہت سے ایسے ممالک موجود ہیں جو صدیوں سے قوم بننے کی کوشش میں اپنا آپ گنوا رہے ہیں اور بہت سے ایسی قومیں ہیں جو آج بھی روایت کی امین اور مثال بن کر زندہ ہیں۔ وقت کے ساتھ ملک بنانا اتنی اہمیت کا حامل نہیں جتنا کہ وقت کے ساتھ ایک قوم بنانا اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ یہ حقیقت بھی سب جانتے ہیں کہ جو ملک بنانے میں مصروف رہے وہ آج اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اور جنہوں نے قوم بن کر ملک سنبھالے وہ دنیا کی حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
دیکھا جائے تو قوموں کی ترقی میں کردار اور ’’کردار‘‘ دونوں اہمیت رکھتے ہیں لیکن ان میں زیادہ اہمیت کس کی ہے، اس سوال کا جواب تلاش کر نے میں اگرچہ کسی زیادہ تردد کی ضرورت نہیں ۔ گذشتہ برس دیارِ غیر میں چند دوستوں کے ہمراہ جوتوں کی ایک دکان میں جانے کا اتفاق ہُوا ، شو کیس میں سجائے گئے جوتوں میں سے ایک پسند آیا تو انگریزی لباس میں ملبوس سیلز گرل نے مطلوبہ پسند کا دوسرا پاؤں لادکھایا ،معاملہ خریداری تک پہنچا تو سیلز گرل نے روایتی مسکراہٹ لبوں پر پھیلا سوال کیا کہ کیا ہمیں جوتا پسند آیا؟ عجب سوال تھا لیکن جواب ہاں میں ہی دیا۔ سیلز گرل نے ایک بار پھر سے استفسار کیا کہ کیا آپ اپنی خریداری سے مطمئن اور خوش ہیں ۔ سوال اور بھی عجیب تھا لیکن پھر سے جواب ہاں میں ہی دیا۔ جب تیسر ی بار بھی یہی جواب آیا تو سیلز گرل نے خود سے بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اس جوتے کا ایک پاؤں شوکیس میں لگے رہنے سے اپنی اصل رنگت کھو چکا ہے جو کہ روشنی کی وجہ سے دوسرے سے قریب تو دکھائی دے رہا ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے،لہٰذا آپ کو اصل طے شدہ قیمت میں رعایت دی جائے گی۔میں اور میرے ساتھ حیران تھے کہ کسی لڑکی ہے جو سب طے پاجانے کے بعد بھی خود سے اپنی شے کی حقیقت جس کا گاہک کو بھی ادراک نہیں نہ صرف بتا رہی ہے بلکہ اس کا ازالہ بھی چکا رہی ہے۔
وقتی طور پر سب کو لگا کہ شائد وہ بے وقوف ہے لیکن درحقیقت وہ ایک مضبوط کردار کی مالک لڑکی تھی جس نے وقتی منافع پر دائمی عزت کو ترجیح دی اور آج بھی اپنے ملک سے دور لوگوں کے لیے زندہ مثال بن کر قائم رہی۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ وہ کردار ہے کہ جو کسی بھی ملک کے افراد کی مضبوط اساس کی بنیاد ہوتا ہے اور اسی کردار کو لےکر قومیں بنا کرتی ہیں۔ آج ہم اپنے گرد و نواح پر نظر دوڑائیں تو آنکھیں پھیل جاتی ہیں ۔ ایک طرف ہمارے سامنے خود سے اپنی خامی بتانے اور اس کا ازالہ کرنے والوں کی مثال موجود ہے تو دوسری جانب زیادہ دور نہیں ابھی کل کی ہی بات ہے جب ہم سنگ جانی ٹول پلازہ پر سے گزر ے اور پچاس روپے کا نوٹ برائے ٹول ٹیکس ، کیبن میں بیٹھے نوجوان کے حوالے کیاجس نے دس کے نوٹوں میں لپٹا ہوا سکہ ہمارے کھڑکی سے باہر جھانکتے ہاتھ میں تھمادیا۔ ہم جلدی مارے دیکھنے کی بھی زحمت نہ کر پائے اور مڑے ہوئے نوٹوں کو ڈیش بورڈ پر رکھتے آگے بڑھ گئے۔ دن بھر کی مسافت کے بعد جب واپس چلے تو ایک بار پھر سے سنگ جانی ٹول پلازہ ہماری راہ میں حائل تھا ہم نے بھی حسبِ روایت ٹول ٹیکس ادا کرنے کے لیے ڈیش بورڈ پر رکھے وہی مڑے ہوئے دو نوٹ جن کے بیچ سکہ ابھی تک ویسے ہی موجود تھا، اٹھائے اور کیبن سے جھانکتے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھ کر آگے بڑھنے ہی والے تھے کہ آواز آئی:’’ سر! ٹھہریئے اس میں چار روپے کم ہیں‘‘۔ پتہ چلا صبح جاتے ہوئے ان موصوف نے ہمیں جو سکہ نوٹوں میں ڈال کر دیا تھا وہ سائز میں تو پانچ روپے کے ہی برابر تھا لیکن مالیت میں ایک روپے کا حامل نکلا۔ اب نہ تو ہم صدائے احتجاج ہی بلند کر سکتے تھے اور نہ ہی ٹیکس کی چھوٹ کا مطالبہ ہی کر سکتے تھے۔ ہاں! البتہ ایسے خوبصورت ’’کردار‘‘ پر تالیاں ضرور بجا سکتے تھے۔
آج ہمارے آس پاس بہت سے ’’کردار‘‘ یوں فنکاریاں دکھاتے پھرتے ہیں جیسے اس بزم کے سیاہ و سفید کے مالک یہی لوگ ہیں ۔ جی ہاں! میری مراد بھی ترقی کے اس کھیل میں آگے چلنے والوں یعنی سیاسی، سماجی اور ثقافتی کرداروں سے ہی ہے جہاں بہ حیثیتِ مجموعی یہ اپنا اپنا کردار ٹول پلازہ میں بیٹھے ہوئے بچے جیسا نبھا رہے ہیں۔کس کس ’’کردار‘‘ اور کس کردار کا ذکر کیا جائے یہاں تو آج تک خون سفید ہونے کا محاورہ سنتے آئے تھے کیا پتا تھا کہ سرخ خون میں بھی رنگ ملا کر ملاوٹ کی آخری حدوں کو چھوا جا رہا ہے۔ ضروت اس امر کی ہے کہ ہمیں یعنی سب ’’کرداروں‘‘ کو اپنے کردار کو سنبھالنے کی ضرورت ہے تاکہ ترقی خود ہماری راہ میں سر بسجود ہو جائے۔ ہمیں پہلے تو ایک حلقہ یا ایک جماعت کے کھیل سے نکل کر قوم کی صورت میں آگے چلنے کی ضرورت کو سب پر فوقیت دینا ہو گی اور تب ہمیں بہ حیثیت قوم اپنے رویوں میں سیلز گرل والے کردار کا عملی مظاہرہ لانے اور اپنے اندر سے ٹول پلازہ والے لڑکے کے کردار کو نوچ کر باہر پھینکنا پڑے گا تب کردار بمقابلہ ’’کردار‘‘ میں مثبت راہیں نکلیں گئیں۔