کچھ کلمات ہماری بول چال میں چپکے سے در آئے ہیں اور اب رفتہ رفتہ وہ ہماری گفتگو کا ضروری حصہ بن گئے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ وہ ہماری زبان پر کچھ اس طرح چڑھ گئے ہیں کہ اب اترنے کا نام نہیں لیتے مثلاً کسی سے ملتے وقت ’’مزاج بخیر‘‘ کا کلمہ فوری طور پر زبان پر آجاتا ہے۔ یہ سوال پوچھنے سے ہمار ا مقصد مخاطب کی واقعی خیر خیریت دریافت کرنا نہیں ہوتا، چنانچہ اس شخص کو خاصا سادہ لوح سمجھا جاتا ہے جو’’مزاج بخیر‘‘ کے جواب میں ا پنی صحت کے بارے میں تازہ ترین بلٹن سنانا شروع کردے اور یوں بھی کچھ مزاج پوچھنے والے ایسے ہوتے ہیں کہ بےچارہ عاشق
کچھ اس ادا سے یار نے پوچھا مرا مزاج
کہنا پڑا کہ شکر ہے پروردگار کا
والی صورتحال سے دوچار ہوجاتا ہے۔ بول چال کا ایک جملہ ’’آپ سے پھر ملاقات ہوگی‘‘ بھی خاصا عام ہے۔ یہ جملہ عموماً ان ملاقاتیوں سے کہا جاتا ہے جو سرراہ مل جاتے ہیں جن سے آپ کی زیادہ شناسائی نہیں ہوتی جو آپ کا ایڈریس نہیں جانتے اور ان سے دوبارہ ملاقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے بھی آپ انہیں اپنا ایڈریس نہیں بتاتے اور ’’میوچل انڈر اسٹینڈنگ‘‘ کا کمال یہ ہے کہ وہ صاحب نہ تو آپ کا ایڈریس پوچھتے ہیں اور نہ اپنا بتاتے ہیں۔سو اس جملے کا مطلب یہ ہوا کہ ’’صاحب! اب جان چھوڑئیے‘‘ اور یہ صورتحال دو طرفہ معانی دیتا ہے۔
اس سلسلے میں سب سے دلچسپ جملہ جو سننے میں آیا ہے وہ’’بسم اللہ کرو‘‘ والا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ ٹرین میں سفر کے دوران یا کسی ہوٹل میں چائے پیتے ہوئے آپ کے برابر بیٹھے ہوئے صاحب کھانا شروع کرنے سے پہلے صدیوں پرانی مہمان نوازی کی رسم کو نبھانے کے لئے آپ کو کھانے میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے’’بسم اللہ کرو‘‘ والا فقرہ کہتے ہیں۔ چونکہ ’’رہ گئی اذان روح بلالی نہ رہی‘‘ کے مصداق اس دعوت میں بھی نیت غائب ہوگئی ہے صرف رسم باقی رہ گئی ہے، چنانچہ’’مہمان‘‘ جواب میں کھانے پر پل پڑنے کی بجائے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے’’اللہ زیادہ دے‘‘ کے دعائیہ کلمات کہہ کر خاموش ہوجاتا ہے اور’’میزبان‘‘ مطمئن ہو کر کھانے میں مصروف ہوجاتا ہے۔ یہ صورتحال ایسی ہے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ ایک فیصد رسک شامل ہے مگر کئی میزبان یہ ایک فیصد رسک لینے پر بھی تیار نہیں ہوتے، اسی طرح کے ایک میزبان نے دریا کے کنارے کھانے کی پوٹلی کھولی اور ابھی کھانے کو ہی تھا کہ اس کی نظر دریا کے دوسرے کنارے ایک سقے پر جاپڑی جو اپنا مشکیزہ گلے میں لٹکائے گنگناتا ہوا چلا جارہا تھا۔ اس دانا میزبان نے سوچا کہ آج دعوت دینے میں ایک فیصد رسک بھی شامل نہیں ہے لہٰذا اس ثواب سے محروم نہیں رہنا چاہئے، چنانچہ اس نے پوری قوت سے اسے آواز دی اور کہا’’آؤ جی بسم اللہ کرو‘‘ سقے نے یہ آواز سنی اور پھر اس کی نظر کھانے کی پوٹلی پر پڑی تو اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤگلے میں سے مشکیزہ اتارا اس میں ہوا بھری اور دریا کے دوسرے کنارے اپنے میزبان کے پاس پہنچ کر کھانے میں شریک ہوگیا۔ کھانا کھاتے ہوئے اس نے میزبان کا اترا ہوا چہرہ دیکھا تو پوچھا کہ’’ آپ اس قدر خاموش کیوں ہیں؟‘‘ میزبان نے جواب دیا’’سوچ رہا ہوں بزرگوں نے ٹھیک کہا ہے کہ انسان کو اپنی کتی زبان قابو میں رکھنی میں چاہئے‘‘۔
مگر یہ کتی زبان قابو میں نہیں رہتی اور روزمرہ کی بول چال کے جملے زبان پر آکر ہی رہتے ہیں۔ اکثر اوقات تو یہ بےضرر ثابت ہوتے ہیں مگر کبھی کبھار ان جملوں کی نشست و برخاست بدل جانے سے خاصی تکلیف دہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مثلاً آپ کیا کام کرتے ہیں، تنخواہ کتنی ہے؟ وغیرہ ایسے سوالات ہیں جنہیں روٹین کے سوالات کہا جاسکتا ہے، مگر یہی سوال کئی بار ایسی صورتحال اختیار کرلیتے ہیں کہ روٹین کے جوابات موصول نہیں ہوتے، مثلاً ایک سردار جی نے محفل میں اپنے بائیں جانب بیٹھی خاتون سے گفتگو کا سلسلہ شروع کرنے کے لئے پوچھا’’خاتون آپ کی شادی ہوئی ہے‘‘۔
خاتون نے جواب دیا’’نہیں‘‘
سردار جی نے کہا’’خوب، کتنے بچے ہیں؟‘‘
اس پر جو ردعمل ہوگا وہ ظاہر ہے، اس پر سردار جی نے گھبرا کر اپنے بائیں جانب بیٹھی خاتون کو دیکھا اور اپنے سوال کی ترتیب درست کرتے ہوئے پوچھا’’خاتون آپ شادی شدہ ہیں؟‘‘
اس نے جواب دیا’’نہیں‘‘
سردار جی نے پوچھا کتنے بچے ہیں؟‘‘
سوثابت ہوا کہ اس کتی زبان کو قابو میں رکھنا چاہئے بصورت دیگر لوگ مشکیزے میں ہوا بھر کردریا کے دوسرے کنارے پہنچ جاتے ہیں اور کھانے میں شریک ہوجاتے ہیں اور اس کتی زبان کو قابو میں رکھنا چاہئے۔ بصورت دیگر اچھے بھلے انسان کا انجام سردار جی والا ہوتا ہے، وہی انجام جو میں نے نہیں بتایا۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ