جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان موجودہ کشیدگی نہیں تھی تو ادبی تقریبات میں دونوں ملکوں کے دانشور اور ادیب ایک دوسرے کی طرف آتے جاتے تھے۔ انہی دنوں میں مجھے بھی انڈیا کےبہت سے شہروں سے دعوت نامے موصول ہوئے اور یوں مجھے وہ شہر دیکھنے اور انڈیا کے بزرگ اور نوجوان ادیبوں سے ملاقات کا موقع بھی ملا۔ اسی طرح جب وہ پاکستان آتے تھے تو ان سے گپ شپ کا موقع ملتا رہتا تھا۔ اب بھی کبھی کبھار چند لوگوں کو یہ موقع مل جاتا ہے، چنانچہ گزشتہ ہفتے پاک و ہند کے ممتاز نقاد شمیم حنفی کراچی کی ادبی کانفرنس میں شرکت کے لئے پاکستان آئے تو لاہور سے گزر کر کراچی گئے۔ کراچی آرٹس کونسل کے احمد شاہ غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ لاجواب منتظم اور ادب پر گہری نظر! موجودہ حکومت اگر ادب کے فروغ میں سنجیدہ ہے تو اسے پاکستان کے تمام علمی اور ادبی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے احمد شاہ کی خدمات حاصل کرنا چاہئیں۔ احمد شاہ غیر متنازع شخصیت ہیں چنانچہ برس ہا برس سے کراچی آرٹس کونسل کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے سربراہ منتخب ہوتے رہے ہیں۔ بہرحال احمد شاہ کا شکریہ کہ ان کے طفیل لاہور میں شمیم حنفی سے ملاقات کا موقع مل گیا!
مجھے لگتا ہے میں اپنے اصل موضوع سے بھٹک گیا ہوں۔ میرا آج کا موضوع کے ایل نارنگ ساقی تھے۔ میں بتانا چاہ رہا تھا کہ انڈیا کے دور دراز شہروں میں جانے کے لئے دہلی لازمی جانا پڑتا تھا کیونکہ پی آئی اے کی فلائٹ صرف لاہور، کراچی اور دہلی کے درمیان تھی۔ لاہور میں قتیل شفائی مرحوم سے جب کبھی ملاقات ہوتی وہ نارنگ ساقی کی بہت تعریف کرتے اور کہتے جب بھی دہلی جائو نارنگ سے ضرور ملنا۔ تمہارا دل خوش ہو جائے گا اور پھر ایک دن غالب ؔاکیڈمی کی ایک تقریب میں نارنگ سے ملاقات ہو ہی گئی۔ وہ وہاں بطور سامع موجود تھے۔ وہ مجھے بہت تپاک سے ملے اور رات کے کھانے پر مدعو کیا۔ اس کے بعد پھر ان سے پے درپے ملاقاتیں ہوئیں۔ نارنگ نہ شاعر ہیں نہ نقاد اور نہ ہی افسانہ نگار…. لیکن اردو سے بے پناہ محبت کرتے ہیں بلکہ محبت کی بجائے عشق کا لفظ استعمال کرنا چاہئے۔ وہ ادیبوں سے مل کر خوش ہوتے ہیں اور ان کی مزے مزے کی باتیں چپکے چپکے اپنی ڈائری میں نوٹ کرتے رہتے ہیں اور پھر ان پر مشتمل کتاب مارکیٹ میں لے آتے ہیں جسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہےکہ انتہائی سنجیدہ ادیب دوستوں کی محفل میں کیسی کیسی پھلجھڑیاں چھوڑتے ہیں۔ اب ان کی ایک اور کتاب آنے کو ہے اور ہاں سراپا محبت اس شخص کی عمر اس وقت 82برس ہے مگر چاق و چوبند ہیں، بالکل غیر سیاسی ہیں۔ میں نے انہیں کبھی سیاست پر گفتگو کرتے نہیں دیکھا، ان کی دلچسپی اور محبت صرف ادب اور ادیب سے ہے۔ افسوس انہوں نے مجھے اپنی آنے والی کتاب کا مکمل مسودہ نہیں بھیجا بلکہ صرف دو تین صفحات اور ان ادیبوں کی فہرست ارسال کی ہے جن کے چٹکلے اس کتاب میں موجود ہیں البتہ اپنی آنے والی کتاب کا طویل دیباچہ ضرور ارسال کیا ہے جو پڑھنے کے قابل ہے اور یہ دیباچہ پڑھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ نارنگ تو اچھا خاصا ادیب ہے مگر اسے اس کا احساس ہی نہیں ہے۔
چلیں باتیں کافی ہو گئیں۔ اب ان تین صفحات میں سے وہ چند چٹکلے بھی پڑھ لیں جو نارنگ نے مجھے ارسال کئے ہیں، تاہم ان کے صحیح یا مبالغے کی ذمہ داری مجھ پر نہیں میرے دوست نارنگ پر ہے۔ میرا ذمہ توش پوش۔ اب آپ یہ چٹکلے پڑھیں اور مجھے اجازت دیں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب لاہور سے روزنامہ ’’امروز‘‘ کے اجرا کا شور بلند ہوا۔ چراغ حسن حسرت اس کے مدیر اعلیٰ مقرر ہوئے۔ پرچے کی تیاری زور شور سے شروع ہوئی۔ ’’زمیندار‘‘ کے مولانا اختر علی خاں ٹوہ لگانے کے لئے چراغ حسن حسرت کے پاس آتے اور بار بار ایک ہی سوال کرتے ’’تو مولانا آپ پرچہ نکال رہے ہیں؟‘‘ ایک دن پھر مولانا نے یہی سوال کیا ’’مولانا آپ پرچہ نکال رہے ہیں؟‘‘ اس پر حسرت نے بڑے اطمینان سے جواب دیا ’’مولانا پرچہ ہم نکال رہے ہیں دردِ زہ آپ کو ہو رہا ہے۔‘‘
آل انڈیا اردو ایڈیٹرز کانفرنس کا اجلاس 1975ء میں کلکتہ میں ہوا۔ اس وقت کے مرکزی وزیر اطلاعات ودیا چرن شکلا سے سبھی ایڈیٹرز کا تعارف کرایا گیا۔ جب حاجی انیس دہلوی کی باری آئی تو بتایا گیا ’’یہ فلمی ستارے کے مدیر انیس دہلوی ہیں۔‘‘ ’’کیا فلمی ستارے ایسے ہوتے ہیں؟‘‘ شکلا جی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ انیس دہلوی کب چوکنے والے تھے، مسکراتے ہوئے یہ شعر پڑھ دیا
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
ایک ادبی محفل میں جس میں بہت سے شعرا اور ادبا موجود تھے، حفیظ جالندھری کا یہ شعر پڑھا گیا؎
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
یہ شعر سن کر حفیظ بولے یہ کس کا شعر ہے؟ عطا الحق قاسمی بولے ’’جناب! یہ آپ کا ہی شعر ہے۔‘‘ اس پر حفیظ تلملا کر بولے ’’کھا کے کمیں‘‘ میں ایسی بدذوقی کا مظاہرہ کیسے کر سکتا ہوں میرے شعر میں تو یہ مصرع ’’دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف‘‘ ہے۔
مولانا حالیؔ سہارنپور جانے پر ایک رئیس زمیندار کے پاس ٹھہرے۔ گرمی کے دن تھے اور مولانا کمرے میں لیٹے ہوئے تھے۔ اسی وقت اتفاق سے ایک کسان آگیا۔ زمیندار نے اس سے کہا کہ ’’یہ بزرگ جو آرام کر رہے ہیں انہیں پنکھا کر‘‘ وہ بیچارہ پنکھا جھلنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے چپکے سے زمیندار صاحب سے پوچھا کہ ’’یہ بزرگ کون ہیں؟ میں نے ان کو پہلی مرتبہ یہاں دیکھا ہے‘‘۔ زمیندار نے جواب دیا ’’کم بخت، تو ان کو نہیں جانتا حالانکہ سارے ہندوستان میں ان کا شہرہ ہے۔ یہ مولوی حالی ہیں‘‘۔ اس پر غریب کسان نے بڑے تعجب سے کہا ’’جی کبھی ہالی بھی مولوی ہوئے ہیں؟‘‘ مولانا لیٹے تھے مگر جاگ رہے تھے۔ کسان کا یہ فقرہ سن کر پھڑک اٹھے اور زمیندار سے بولے ’’حضرت اس تخلص کی داد تو آج ملی ہے‘‘۔ (جاری ہے)
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ