یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں گریڈ بائیس کا افسر تھا، آدھا پاکستان میرے زیرِ انتظام تھا، ان دنوں ہر طرف میری دھومیں تھیں، میری خوبصورتی کی، میری خوش لباسی کی، میری نوٹنگ ڈرافٹنگ کی، حتیٰ کہ میری اکڑی ہوئی گردن دیکھ کر احباب مجھ سے پوچھتے تھے کہ ایسی کلف کہاں سے ملتی ہے جس سے گردن بھی اکڑائی جا سکے۔ ایک حاسد قسم کا افسر میرا کولیگ تھا جو گردن جھکا کر چلتا تھا اور ہر ایک سے ملائمت سے پیش آتا تھا، اسے میری یہ مقبولیت پسند نہیں تھی۔ اسکا کہنا تھا کہ گردن کے اکڑنے کا تعلق کلف سے نہیں کسی مسکولر پرابلم سے ہوتا ہے، چلیں دفع کریں اسے۔ میں آپ کو اپنے کروفر، رعب اور دبدبے کے بارے میں بتا رہا تھا۔ میری دہشت کا یہ عالم تھا کہ جب میں گھر سے باہر قدم رکھتا تو گھر سے باہر کام کرنیوالے نوکر چاکر سہم کر کونوں کھدروں میں چھپنے کی کوشش کرتے۔ اگر کوئی غلطی سے میرے قریب کھڑا رہ جاتا تو میں منہ سے ’’ہش‘‘ کی آواز نکالتا اور وہ سر پر پاؤں رکھ کر وہاں سے بھاگ کھڑا ہوتا۔ میرا ڈرائیور سفید وردی میں ملبوس سیاہ رنگ کی لگژری کار میں میرا بیگ رکھتا۔ میرے لئے کار کی بائیں جانب کا دروازہ کھولتا اور میرے اپنی نشست پر بیٹھ جانے کے بعد تیزی سے ڈرائیونگ سیٹ کی طرف جاتا اور کار پورچ میں سے آہستہ آہستہ نکلتی باہر سڑک پر آجاتی۔ مجھے اپنے چہرے کو بروقت درشت بنانا اور اس پر شدید غصے کے تاثرات ظاہر کرنا پڑتے تھے، یہ میرے رعب اور دبدبے کی ضرورت تھی کیونکہ چہرے پر مسکراہٹ یا نرمی ہو تو انسان گریڈ بائیس کا افسر نہیں لگتا بلکہ کوئی’’چوّل‘‘ سا آدمی لگتا ہے۔ میری گاڑی جونہی دفتر کی حدود میں داخل ہوتی تو سیکورٹی اسٹاف کے سیلوٹ بجنا شروع ہو جاتے۔ سیلوٹ کے دوران ان کے پاؤں کی دھمک میری طبعِ نازک پر گراں گزرتی تھی لیکن اچھا بھی لگتا تھا۔ سیلوٹ میں غفلت برتنے پر میں دو سیکورٹی گارڈز کو ڈِس مس بھی کرچکا تھا چنانچہ وہ اس ضمن میں اتنے کانشیس ہو گئے تھے کہ یہ دیکھے بغیر کہ میں گاڑی میں ہوں بھی کہ نہیں، سیلوٹ مارنا شروع کر دیتے اور مارتے چلے جاتے تھے۔ دفتر میں داخل ہونے کے آدھ گھنٹے کے اندر اندر میں تین چار ماتحتوں کو انٹر کام پر اندر بلا کر جھاڑیں ڈالتا اور بعض اوقات فائل اٹھا کر انکے منہ پر دے مارتا۔ یہ سب کچھ ضروری تھا کہ اس کے نتیجے میں وہ اپنے اپنے بلوں میں دبک کر بیٹھ جاتے اور اتنے ڈرے رہتے تھے کہ میرے حکم پر غیر قانونی کاموں کی سمری بنا کر میری میز پر رکھ دیتے تھے، اس کے بعد میرا کام قدرے آسان ہو جاتا تھا۔
انہی دنوں میری ملاقات ایک اللہ والے سے ہوئی مگر یہ عجب اللہ والا تھا۔ کہتا تھا سب سے بڑی عبادت اللہ کی مخلوق سے محبت اور انکی خدمت ہے، میں اسکی باتوں میں آ گیا، دراصل اسکے چہرے میں ایک عجب طرح کی کشش تھی، میں اس کی طرف کھینچا چلا جاتا تھا، چنانچہ میرے لئے ممکن نہ تھا کہ میں اسکے بتائے ہوئے رستے پر نہ چلوں، بس یہی وہ دن تھے جب میری زندگی نے ایک نیا موڑ لیا، میں نے کروفر کے بجائے سادگی کو اپنایا، انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھنے کے بجائے انہیں انسان ہی سمجھنا اور ان کی عزت کرنا شروع کر دی۔ قلب میں رونما ہونے والی اس تبدیلی کے بعد جب میں دفتر جانےکیلئے اپنے گھر سے باہر نکلتا تو میرے چہرے پر خشونت کے بجائے ملائمت ہوتی، نوکر چاکر جو مجھے دیکھ کر ادھر ادھر چھپنے کی کوشش کرتے تھے، مجھ میں یہ تبدیلی دیکھ کر حیران ہوئے اور اپنی جگہ پر دم بخود کھڑے کے کھڑے رہ جاتے، میں نے ایک دن پیار سے ایک ایک کا نام لے کر انہیں اپنے قریب بلایا اور کہا دیکھو ہم سب اللہ کے بندے ہیں اور ہم پر ایک دوسرے کی تکریم واجب ہے لہٰذا آئندہ مجھ سے خوفزدہ نہ ہونا، البتہ اگر ہو سکے تو میرے ماضی کے رویے کی معافی کیلئے اللہ سے دعا کرنا۔ اسکے بعد جب میں دفتر کی طرف روانہ ہونےکیلئے کار میں بیٹھنے لگا تو ڈرائیور حسبِ معمول پھولے ہوئے سانس کیساتھ دروازہ کھولنےکیلئے آگے بڑھا، میں نے ہنستے ہوئے کہا:کرم دین میں ابھی اتنا بوڑھا نہیں ہوا کہ کار کا دروازہ بھی نہ کھول سکوں۔ وہ ہکا بکا ہوکر میری طرف دیکھنے لگا، جب میری کار دفتر کی حدود میں د اخل ہوئی تو سیلوٹ بجنا شروع ہو گئے، میں نے کار رکوائی اور باہر نکل کر سیکورٹی گارڈز سے کہا:تم مجھے پروٹوکول دیتے ہو، تمہارا بہت بہت شکریہ! لیکن آئندہ مجھے یہ پروٹوکول اپنے دل میں دینا، تمہارے دل سے نکلنے والے سیلوٹ میری روح میں گداز پیدا کرینگے، تمہارے موجودہ سیلوٹ میرے ضمیر پر بوجھ بنتے جا رہے ہیں۔ (جاری ہے)
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ