ایک زمانہ تھا کہ کاتبوں کے ہاتھوں لکھنے والوں اور لکھنے والوں کے ہاتھوں کاتبوں کی شامت آئی رہتی تھی۔ کاتب حضرات لکھتے وقت محرم کو ’’مجرم‘‘ اور مجرم کو ’’محرم‘‘ بنا دیتے تھے۔ ادھر لکھاری حضرات آئے روز کاتب کی غلطیوں کو بنیاد بنا کر اُن کا ریکارڈ لگاتے اور یوں اخباری صفحات پر خاصی رونق لگی رہتی۔ کاتبوں سے لکھتے وقت جو غلطیاں ہوتی تھیں ان میں سے کچھ تو ایسی تھیں کہ لکھنے اور چھاپنے والا دونوں باآسانی اندر ہو سکتے تھے لیکن پریس ڈپارٹمنٹ عفو و درگزر سے کام لیتا۔ پنجاب میں جو کاتب حضرات تھے ان میں سے زیادہ تر کا تعلق حافظ آباد اور اس کے گرد و نواح سے ہوتا تھا۔ اُن کا بچپن گائوں میں بھینسیں چراتے گزرتا۔ یہ حضرات دونوں گھٹنوں پر مسطر رکھے اور دیوار سے ٹیک لگائے سادہ روشنائی سے خبریں اور مضامین لکھتے۔ اس کے ساتھ گپ شاپ کا سلسلہ بھی جاری رہتا چنانچہ اُن دہری ’’ذمہ داریوں‘‘ کی وجہ سے لکھتے وقت ایسی ’’فحش‘‘ غلطی کرتے کہ پروف پڑھتے وقت پروف ریڈر کے کان کی لویں سرخ ہو جاتیں۔
یہاں ایک وضاحت ضروری ہے اور وہ یہ کہ اس نوع کی غلطیاں زیادہ تر ’’کاتبوں‘‘ سے ہوتی تھیں، خوش نویسوں سے نہیں گو سب کاتب خود کو خوش نویس ہی سمجھتے تھے لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہر کاتب کو خوش نویس نہیں کہا جا سکتا تھا۔ مجھے جن خوش نویسوں سے پالا پڑتا رہا وہ اپنے طویل تجربے کی بدولت صرف خوش نویس نہیں رہے تھے بلکہ وہ زبان و بیان کی باریکیوں کو بھی سمجھنے لگے تھے۔ ان میں سے کچھ تو خود عالم فاضل ہو گئے چنانچہ اگر کوئی لکھاری زبان و بیان کی غلطی کرتا تو یہ اس کی نشاندہی کرتے۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو اعتماد کی دولت سے کچھ اتنے مالا مال ہو جاتے کہ کسی مضمون میں ازخود تحریف یا اضافہ فرما دیتے اور مضمون نگار کو اس کا علم مضمون کی اشاعت کے بعد ہوتا۔ میں نے ایک برصغیر کے نامور خطاط اور نہایت قابلِ احترام شخصیت حافظ یوسف صاحب سے ’’فنون لطیفہ ایڈیشن‘‘ کیلئے ایک خصوصی مضمون حاصل کیا جو برصغیر کے صاحبِ اسلوب خطاط حضرات کے حوالے سے تھا۔ پروف ریڈر نے یہ مضمون پڑھ کر غلطیاں لگوا کر میرے سپرد کیا۔ میں نے سلسلے چیک کرنے کیلئے مضمون پر نظر ڈالنا شروع کی تو اس میں ممتاز خطاطوں کے ذکر میں دو نامانوس نام میری نظروں سے گزرے۔ ایک مولوی دین محمد اور دوسرا مولوی نور محمد، اگرچہ فن خطاطی کے حوالے سے میرا علم کچھ بہت زیادہ نہیں تھا تاہم یہ نام اس سے پہلے میں نے کبھی نہیں سنے تھے۔ چنانچہ میں نے اپنے خوش نویس دوست کو بلایا اور پوچھا کہ یہ مولوی دین محمد کون صاحب ہیں۔ اُنہوں نے کہا میرے والد صاحب ہیں جی اور یہ مولوی نور محمد، بولےمیرے تایا جی ہیں! میں نے کہا حافظ صاحب نے تو ان دونوں کا ذکر اپنے مضمون میں نہیں کیا، آپ نے یہ نام از خود کیوں مضمون میں شامل کر دیئے؟ بولے حافظ صاحب بھول گئے ہوں گے جی، میں ان سے بات کروں گا۔ آپ چلنے دیں جی! ان کی اس ’’فرینک نیس‘‘ پر میری ہنسی چھوٹ گئی۔
آج نہ کاتب ہیں نہ خوش نویس، ان کی جگہ کمپیوٹر نے لے لی ہے مگر غلطیاں اپنی جگہ موجود ہیں۔ یہ غلطیاں کمپیوٹر نہیں کرتا کمپوزر سے سرزد ہوتی ہیں۔ لطیفے اس میں بھی بہت ہیں مگر وہ پھر کبھی۔ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔ میں نے ایک اپنے عید کے حوالے سے لکھے گئے کالم میں عید ملنے کا ذکر کیا تھا اور لکھا تھا کہ پسلی توڑ معانقوں کا توڑ کرنے کیلئے میں نے کچھ موٹے موٹے لوگ تاک رکھے ہوتے تھے جن کے مخملی تکیوں جیسے جسموں سے عید ملتے ہوئے ہلکی سی ٹکور ہو جاتی تھی۔ کمپوزر نے موٹے موٹے تاک کر رکھے ہوتے تھے کو ’’سوئے سوئے لوگ تاک کر رکھے ہوتے تھے‘‘ بنا دیا مگر مجھے اس کا مزا آیا کیونکہ سوئے ہوئے لوگوں کے بارے میں مجھے یہ شعر یاد آ گیا تھا
جاگنے والے تیرا کیا کہنا
سونے والے کو کچھ خبر نہ ہوئی
غالباً کمپوزر کے ذہن میں بھی یہی حوالہ تھا۔
اب اللہ کو جان دینی ہے۔ سارا بوجھ کاتبوں اور کمپوزروں پر ڈالنا سراسر زیادتی ہے، خود لکھاری حضرات بھی اس کارِخیر میں ’’اپنا حصہ بقدر جثہ‘‘ ڈالتے ہیں۔ یہاں جثے سے مراد ان کی بدخطی کی جسامت ہے۔ جو لکھاری زمانے کے ساتھ چل رہے ہیں وہ تو اپنا کالم یا مضمون خود ٹائپ کرتے ہیں اور ان کی ہارڈ کاپی اخبار یا کسی بھی متعلقہ ادارے کو بھیج دیتے ہیں لیکن جو میرے جیسے قدامت پسند ہیں وہ اپنے ہاتھ کا لکھا بلکہ بدخطی کے حوالے سے پاؤں سے لکھا ہوا کالم ارسال کرتے ہیں چنانچہ کمپوزر بھی ایسی تحریریں کمپوز کرتے ہوئے صرف انگلیوں سے کام لیتے ہیں، دماغ سے نہیں۔ ویسے تو بدخطی میں ہمارے ہاں ایک سے ایک بڑھ کر ایک ’’جوہرِ قابل‘‘ موجود ہے مگر میرے بہترین دوستوں میں سے ڈاکٹر سلیم اختر مرحوم کو تو بدخطی میں ڈی لٹ کی ڈگری ملنی چاہئے تھی موصوف ایک دن ایک تحریر پڑھتے ہوئے بہت بدمزہ ہو رہے تھے اور کہہ رہے تھے یار میں بھی بہت بدخط ہوں لیکن یہ شخص تو مجھ سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ اس پر میں نے عرض کیا ’’برادر مکرم! یہ آپ ہی کی ایک پرانی تحریر ہے،یہ بات فوری طور پر میں نے آپ کو اس لئے بتا دی ہے کہ آپ اس ’’خطاط‘‘ کو بہت موٹی سی گالی دینے کے موڈ میں لگ رہے تھے‘‘ غالب نے بھی
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا!
والا شعر غالباً منکر نکیر کی نیت پر شک کی وجہ سے نہیں کہا تھا بلکہ اسے یہ خدشہ تھا کہ کہیں وہ بدخط نہ ہوں اور یوں وہ لکھیں کچھ اور پڑھا کچھ اور جائے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)