میرے ایک بزرگ دوست، جن سے کبھی سرِ راہے ملاقات ہو یا فون پر اُن سے گفتگو ہو تو میں اُن سے رسماً پوچھتا ہوں کیا حال ہے؟ میرا مقصد اُن کی خیریت دریافت کرنا نہیں ہوتا لیکن وہ ہمیشہ جواب میں یہی کہتے ’’پہلے سے بہتر ہوں‘‘، اِس پر مجھے اُن سے پوچھنا پڑتا ہے کہ پہلے آپ کو کیا تھا؟ جس پر وہ ایک تفصیلی ہیلتھ بلیٹن جاری کرتے ہیں اور اپنے حوالے سے ایسی ایسی بیماریوں کا انکشاف کرتے ہیں جن میں بیشتر کو صیغہ راز میں رکھنا شرفاء کے نزدیک احسن فعل ہے۔ ایک روز میں نے اُن سے فرمائش کی کہ وہ اپنی جوانی کے دور کی البم دکھائیں، وہ بہت خوش خوش اندر گئے اور البم اٹھا لائے۔ اُنہوں نے پہلا ورق اُلٹا اور بتایا کہ یہ اُن کی سولہ سال کی عمر کی تصویر ہے، جب اُنہیں پہلی دفعہ دمے کا دورہ پڑا تھا، تاہم یہ اُن کا اپنا انداز تھا کیونکہ ڈاکٹروں کے مطابق جلدی میں کوئی چیز نگلنے کی کوشش میں اُنہیں صرف اچھو ہوا تھا۔ اُن کی دوسری تصویر بیس برس کی عمر کی تھی۔ اُس میں وہ جوانِ رعنا لگ رہے تھے لیکن اُن کا کہنا تھا کہ وہ دیکھنے میں ایسے لگ رہے ہیں ورنہ آئینے میں روزانہ وہ خود کو بیمار محسوس کرتے تھے۔ پھر اُنہوں نے ایک تصویر دکھائی، یہ تصویر اُن کے پچیسویں سال کی یاد دلاتی تھی۔ اُس میں وہ بہت پلے ہوئے دکھائی دے رہے تھے مگر اُنہوں نے بتایا کہ اُس عمر میں اُن کے بازو پر ایک گلٹی نکلی جس کے متعلق اُنہیں یقین تھا کہ یہ کینسر ہے، یہ گلٹی آج بھی موجود ہے۔ ڈاکٹر آج بھی اُسے ایک بےضرر گلٹی قرار دیتے ہیں مگر موصوف آج بھی اپنی رائے پر قائم ہیں کہ یہ کینسر ہی ہے اور ایک دن یہ اُن کے لئے جان لیوا ثابت ہو گا۔ میں نے انہیں ایک گلوکارہ کا واقعہ سنایا جو اپنے کسی مہمان کو اپنے پرانے گانوں کی کیسٹ سنا رہی تھی اور ساتھ ساتھ تبصرہ بھی کرتی جا رہی تھی کہ یہ گانا اُس نے اُس وقت گایا جب اُس کا فلاں بچہ اُس کے پیٹ میں تھا اور یہ گانا اُس وقت میں جب فلاں بچی پیٹ میں تھی، جب گلوکارہ چار گانوں کے حوالے سے چار بچوں کے پیٹ میں ہونے کا احوال بیان کر چکی تو مہمان نے اگلا گانا سننے سے پیشتر گلوکارہ سے کہا ’’آپ براہِ کرم مجھے کوئی ایسا گانا سنائںیں جو آپ نے خالی پیٹ گایا ہو‘‘۔ یہ واقعہ سن کر بزرگ بہت ہنسے مگر میں نے ساتھ ہی عرض کیا کہ آپ بھی براہِ کرم مجھے اپنی جوانی کی کوئی ایسی تصویر دکھائیں جس کے ساتھ آپ کی کوئی خوشگوار یاد وابستہ ہو، یہ سن کر وہ اندر گئے اور اپنی شادی کی تصویر اُٹھا لائے حالانکہ میں نے اُن سے واضح طور پر کسی خوشگوار لمحے کی فرمائش کی تھی، جب میں اُن سے ہاتھ ملا کر رخصت ہونے لگا تو اُنہوں نے میری آمد کا شکریہ ادا کیا اور کہا تمہارے آنے سے میں خود کو پہلے سے بہتر محسوس کر رہا ہوں۔ میں نے قطعاً نہیں پوچھا کہ اِس سے پہلے آپ کیا محسوس کر رہے تھے کہ مجھے ذرا جلدی ایک جگہ پہنچنا تھا جبکہ اُن کے ہیلتھ بلیٹن کا دورانیہ ایک گھنٹہ سے کم نہیں ہوتا۔
یہ بزرگ کا احوال تو یونہی درمیان میں آ گیا، ورنہ تصویریں بہت کچھ بتاتی ہیں۔ تصویریں آپ کو ’’یاد ایامِ شرت فانی‘‘ کی کہانی سناتی ہیں۔ تصویریں آپ کو…
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی
والا شعر بھی یاد دلاتی ہیں۔ دراصل ماضی کی تصویریں حال سے منسلک ہوتی ہیں اور حال کی مستقبل سے اور یوں میرے نزدیک البم انسان کے استاد کا درجہ رکھتی ہے۔ خوشیوں اور غموں کے بارے میں صحیح فیصلوں اور غلط فیصلوں کے بارے صحت اور بیماریوں کے بارے میں اور زندگی سے متعلق ہر چیز کے بارے میں آپ کی اپروچ سب سے اہم چیز ہے۔ یہ اپروچ خوشگوار لمحموں کو افسردگی کی ناخوشگوار تصویروں میں بدل دیتی ہے۔ تصویریں زندگی کا سرمایہ بھی ہیں اور زندگی کا پچھتاوا بھی۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اپنے پاس کون سی تصویروں کا البم رکھنا چاہتے ہیں۔
اور اب آخر میں فواد حسن فواد کی تازہ غزل:
خبر یہ لے کے چلے جاؤبے خبر کے لئے
کہ ہم اُداس بہت ہیں تری نظر کے لئے
یہ زرد پتوں کا گرنا کوئی بات نہیں
کہ سانحے تو ابھی اور ہیں شجر کے لئے
وہ دیکھو وادیٔ کشمیر پھر سلگ اٹھی
پھر امتحان نیا ہے مرے شہر کے لئے
انہیں یہ عمر اندھیروں میں کاٹنی ہو گی
جو منتظر ہیں کسی اور چارہ گر کے لئے
غریب شہر تو ہر دم اسیر ہے اُس کا
جو چاہئے اُسے اپنی گزر بسر کے لئے
ہمارے شہر میں بونوں کی فصل اُگتی ہے
سو سرو قد ہوں میں سقراط کے زہر کے لئے
ملے گی طاقتِ پرواز تو فضاء سے تجھے
کیوں انتظار میں ہے اور بال و پر کے لئے
تراش لی ہیں نئی منزلیں تو پھر فواد
نیا سفینہ بناؤ، نئے سفر کے لئے
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ