میں جلسے جلوسوں میں کبھی بڑے شوق سے جایا کرتا تھا مگر اب گھٹنے اجازت نہیں دیتے، چنانچہ کئی برسوں سے میں کسی جلسے یا جلوس میں شرکت نہیں کر سکا۔ اِن دنوں یہ ’’ٹھرک‘‘ ٹی وی چینلز پر اُن کی کوریج دیکھ کر پورا کر لیتا ہوں۔
چنانچہ مجھ سے دوست پوچھتے ہیں کہ لاہور میں پی ڈی ایم کا جلسہ کیسا رہا، میں اُس کے جواب میں اُنہیں مختلف ٹی وی چینلز کی رپورٹ ایک رٹے ہوئے سبق کی طرح سنانے لگتا ہوں مگر آج دل میں خیال آیا کہ میں کیوں نہ جو نتیجہ مختلف چینلز دیکھ کر اخذ کیا، اُس کا خلاصہ اور اپنا تاثر بھی بیان کرتا چلوں۔
تو دوستو میرے خیال میں یہ جلسہ میری توقع سے کم کامیاب رہا، حاضری ٹھیک ٹھاک تھی مگر یہ اِس سے کہیں زیادہ ہو سکتی تھی، اِس کی کئی وجوہ بیان کی جا سکتی ہیں، ایک وجہ تو خواجہ آصف نے بیان کی ہے۔ وہ سیاسی آدمی ہیں چنانچہ اُن کی رائے بھی سیاسی نوعیت کی تھی۔ اُن کے خیال میں بعض ایم پی ایز اور ایم این ایز نے جلسے کی کامیابی کے لئے اتنی جانفشانی سے کام نہیں کیا، جس جانفشانی سے کرنا چاہئے تھا۔
اگر ایسا ہے تو ہر پارٹی میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں کہ اُن کی سوچ کے مطابق جلسہ کامیاب ہوا تو کسی کو کیا پتا چلنا ہے کہ کس نے اُس کامیابی میں کتنا کردار ادا کیا اور کس نے صرف دعائے خیر کی۔
ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جلسہ بہت تاخیر سے شروع ہوا اور سردی بلا کی تھی، چلیں ایک مفروضہ یہ بھی بیان کر دیتے ہیں کہ جلسے کی کامیابی کی صورت میں سارا کریڈٹ مسلم لیگ (ن) کو جائے گا۔
یہ شہر مسلم لیگ کے متوالوں کا ہے چنانچہ اِس بدگمانی سے کام لیا جا سکتا ہے کہ دوسری پارٹیوں کے کارکنوں نے اپنے فرض کی ادائیگی میں تھوڑی بہت سستی سے کام لیا ہو۔
تاہم یہ سب مفروضے ہیں جن میں سے کچھ میں تھوڑی بہت حقیقت اور کچھ میں مبالغہ آرائی پائی جاسکتی ہے، تاہم میری رائے بہت مختلف ہے، جسے رد بھی کیا جا سکتا ہے۔ میں ایک عوامی آدمی ہوں اور اپنی ہر حیثیت میں عوامی ہی رہا ہوں اور مختلف شعبوں میں میری کامیابی عوامی مشاہدے کی طاقت کی مرہونِ منت رہی ہے۔
بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے بیرونِ ملک جانے کے بعد سے مریم نواز ایک کرزما بن کر سامنے آئی ہیں، اُنہوں نے پورے ملک کے دورے کر کے عوام کے دلوں میں اپنے لئے جگہ بنا لی ہے۔ لوگ اُنہیں دیکھنا چاہتے ہیں، لوگ اُنہیں سننا چاہتے ہیں مگر اُنہوں نے لاہور کے جلسے سے قبل گلی گلی، محلے محلے جا کر جلسے کئے، جہاں لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کھنچی چلی آئی جو توقع سے بھی زیادہ تھی۔
اُنہیں دیکھنے اور سننے کی یہ خواہش جلسے سے پہلے ہی پوری ہو گئی اور یوں بہت سے لوگوں نے اِس کم پر ہی قناعت کی اور اپنے باقی محبوب لیڈروں کو ٹی وی چینلز پر دیکھا، اُن کی ولولہ انگیز تقاریر سنیں اور اپنے گھروں اور بازاروں میں جلسے کی کامیابی پر خوش ہوتے رہے۔
مسلم لیگ کا کارکن ویسے بھی جلسے جلوسوں اور شورے شرابے کی بجائے خاموشی سے پولنگ اسٹیشن جاتا ہے اور خاموشی سے مسلم لیگ کو ووٹ ڈال کر گھر آ جاتا ہے۔ جو لاہوریے جلسے میں بڑی تعداد میں پہنچے، وہ پکے سیاسی کارکن تھے، وہ گونگے ووٹر نہیں تھے، ہلّا گلّا کرنے والے ووٹر تھے۔ گوجرانوالہ کا مزاج مختلف ہے۔
پی ڈی ایم یہاں جلسہ کرکے دیکھے اور پھر خدا کی قدرت کا تماشا دیکھے۔ سارے تجزیہ نگار اپنی اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں، میں تجزیہ نگار نہیں ہوں صرف عوام ہوں، لہٰذا آپ کو پورا حق ہے کہ آپ میری اس رائے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں یا اس پر چند لمحوں کے لئے سوچ بیچار کریں۔
اِس جلسے کے حوالے سے ایک ذیلی بات بھی میرے ذہن میں آتی ہے، حکومت نے جلسے سے کچھ دن پہلے کورونا اور دہشت گردی کا اتنا خوف پھیلایا جیسے جو اِس جلسے میں گیا، وہ صحیح سلامت واپس نہیں آئے گا۔ میں اِس ہتھکنڈے کو زیادہ نمبر دینے کے لئے تیار نہیں ہوں مگر آپ دیکھ لیں کہ جلسے کے بعد کورونا کا ذکر اِس قدرشدومد سے سننے میں نہیں آیا بلکہ اِس کا ذکر ہی نہیں ہو رہا۔ لگتا ہے جیسے کورونا صرف لاہور کے جلسے میں پھیلنا تھا۔
اب یہ کورونا مستقبل میں پی ڈی ایم کے مختلف جلسوں سے پہلے ایک دفعہ پھر پورے شدومد سے ظہور پذیر ہو گا۔ حکومت نے بیچارے کورونے کو بھی ابن الوقت ثابت کر دیا ہے۔
اور آخر میں یہ کہ جو لوگ اس جلسے کو ناکام کہہ رہے ہیں اور اسے ’’جلسی‘‘ کا نام دے رہے ہیں، وہ دراصل کبوتر کی طرح بلی کو سامنے دیکھ کر اس خیال سے آنکھیں بند کر رہے ہیں کہ اب وہ عوامی ریلے سے محفوظ ہو گئے ہیں۔
جنابِ والا! لاہور کا جلسہ، ’’جلسی‘‘ نہیں، بڑا جلسہ تھا مگر اتنا بڑا نہیں جتنا بڑا ہونے کی توقع تھی۔ لاہوریوں نے آپ کے طعنے سن لئے ہیں اور وہ دل ہی دل میں ہنس رہے ہیں۔ آپ پلیز عوام کو ہنسنے کا موقع نہ دیں کیونکہ عوام کو خوش دیکھنا آپ کی پالیسیوں کے منافی ہے!
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ