جیسا کہ میرے قارئین جانتے ہیں، خوش باش عیش پوری اور غمگین سلیمانی کے ساتھ میری پرانی یاد ﷲ ہے۔ یہ دونوں عادات و خصائل کے لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ خوش باش عیش پوری کو ہر طرف ہرا ہی ہرا دکھائی دیتا ہے، اسے کسی دوسرے کی خوشی غمی سے کوئی غرض نہیں۔ وہ صرف اپنی زندگی گزارتا ہے۔ میں نے اسے جنازوں میں بھی لطیفے سناتے دیکھا ہے۔ اسے آخرت کی کوئی فکر نہیں اور وہ بابر کے مصرعہ
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
کی مجسم تصویر ہے جبکہ غمگین سلیمانی خوشی کی محفلوں میں بھی آہیں بھرتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دنیاوی زندگی کی کوئی حیثیت نہیں چنانچہ اس نے اپنی زندگی ہی میں اپنی قبر تیار کر رکھی ہے جس میں اتوار کے روز لیٹ کر وہ اخبارات کا مطالعہ کرتا ہے اور ایسی خبریں چن چن کر پڑھتا ہے جن میں کم از کم دس بیس لاشوں کی اطلاع دی گئی ہو۔
غمگین کا ذکر بعد میں پہلے خوش باش کا احوال کہ گزشتہ روز میری اس سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات کیا ہوئی، میں اس کے والد کی اچانک موت کی خبر سن کر تعزیت کے لئے اس کی طرف گیا تھا مگر اس کے انتہائی خوشگوار موڈ کے پیش نظر میں نے تعزیت کا رسک نہیں لیا۔ وہ تعزیت کے لئے آنے والوں کو قہقہوں کے درمیان بتا رہا تھا بہترین موت میرے ابا جی کی تھی جو اچانک ہوئی، جبکہ میرے امی نے دو سال بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر گزارے اور یوں اپنے علاوہ ہم سب کو بھی تکلیف میں مبتلا رکھا۔ آج اسپتال لے کر جانا ہے، آج فزیو تھراپسٹ کو بلانا ہے، آج یہ کرنا ہے، آج وہ کرنا ہے۔ ﷲ ﷲ کر کے وہ فوت ہوئیں اور ان کے ساتھ سارے خاندان کی جان بھی چھوٹی مگر اباجی، کیا بات ہے اباجی کی، صبح اٹھے پھجے کے پائے منگوائے، تلوں والے چار قلچوں کے ساتھ کھائے، تین گلاس لسی کے پیے، دو ہوائی فائر کئے اور ﷲ کو پیارے ہو گئے۔ کیا بات ہے ابا جی کی، اس پر تعزیت کے لئے آنے والوں نے بھرپور قہقہوں سے مرحوم کی روح کو خراجِ غمگین پیش کیا۔ خوش باش عیش پوری کا زندگی اور موت کا فلسفہ یہی ہے۔ وہ ہر جگہ قہقہے بکھیرتا نظر آتا ہے۔ وہ ملک بھر سے آنے والی دلخراش خبروں میں سے لطیفے تلاش کرتا ہے، اس کا کہنا ہے کہ حادثے اور سانحے تو ہوتے ہی رہتے ہیں انہیں دل پر نہیں لگانا چاہئے اور نہ ان سے کوئی سبق سیکھنا چاہئے۔ بس ہر طرح کے حالات میں اچھا وقت گزارنا ضروری ہے، خواہ اس کی بڑی سے بڑی قیمت ہی کیوں نہ ادا کرنا پڑے۔
دوسری طرف غمگین سلیمانی ہے۔ ہر وقت مایوس اور اداس، چہرہ کھچا ہوا، مسکراہٹ کا دور دور تک نام و نشان نہیں، تاریخ میں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر المناک واقعات نکالتا ہے اور گریہ زاری کرتا ہے۔ قوم کو ہر وقت لتر مارتا ہے۔ لوگوں نے اسے خوشی کی تقریبات میں بلانا چھوڑ دیا ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ ایک دوست کی سالگرہ کی تقریب میں کیک کاٹنے سے پہلے غمگین نے کہا کہ وہ اپنے دوست کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہے، سب نے تالیاں بجا کر اس کی اس خواہش کا خیرمقدم کیا۔ وہ خوش تھے کہ خوشی کے اس موقع پر غمگین کی زبان سے بھی وہ خوشگوار باتیں سنیں گے، جب تالیاں تھمیں تو غمگین نے کہا ’’میرا یہ دوست بہت بدنصیب ہے دوسال پہلے اس کے والد صاحب کا انتقال ہوا ایک سال بعد والدہ صاحبہ بھی انتقال کر گئیں، چھ ماہ پہلے ان کی پھوپھی صاحبہ چل بسیں۔ تین ماہ قبل ان کے پھپھڑ صاحب سائیکل پر جا رہے تھے کہ ان کی دھوتی سائیکل کے چین میں پھنس گئی اور وہ گر گئے، گرنے سے چوٹ آنے کے علاوہ انہیں دھوتی سے بھی ہاتھ دھونا پڑے اور یوں راہگیروں کو قہقہے لگانے کا موقع الگ سے ملا۔ ایک ماہ قبل خود میرا یہ دوست چلتے چلتے ایک دوسرے کھلے مین ہول میں سے باہر نکالا گیا۔ بہرحال ہیپی برتھ ڈے‘‘۔ اس پر حاضرین نے بھی زاروقطار روتے ہوئے ہیپی برتھ ڈے کا گیت گایا تاہم اس واقعہ کے بعد خوشی کی محفلوں میں ان کا داخلہ بند کر دیا گیا۔ ایک دفعہ موصوف نے خود اپنی بدنصیبی کا ایک دلخراش واقعہ سنایا جس کے مطابق جب وہ پیدا ہوا تو گھر میں ہر طرف خوشیاں منائی گئیں۔اس کے گھر کے صحن میں شہر کی مشہور ڈومنیاں اسے گود میں اٹھا کر بال نوں لوری دینی آں والا گیت گا رہی تھیں کہ اچانک صحن پر سے گزرتے ہوئے ایک کوے نے سب کو چھوڑ کر اس کے ناک پر بیٹ کر دی جس پر سب عورتیں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئیں۔ یہ پہلا دن تھا جب غمگین سلیمانی کے دل میں یہ خیال جا گزیں ہو گیا کہ دنیا دکھوں کا گہوارہ ہے۔ اگلے روز زبردست بارش ہوئی جس سے درختوں کے پتے دھل گئے اور موسم نہایت خوشگوار ہو گیا مگر غمگین کو یقین تھا کہ یہ بارش دراصل آسمان کے آنسو تھے جو اس کی ناک پر کوے کی بیٹ کرنے کے سانحہ کےسبب آسمان نے ٹپکائے تھے۔ تاہم عجیب بات یہ ہے کہ آج کل ان دو متضاد شخصیات یعنی خوش باش اور غمگین کے درمیان گاڑھی چھن رہی ہے۔ دونوں ہر جگہ اکٹھے نظر آتے ہیں، ایک دوسرے کی بلائیں لیتے ہیں ۔میں نے بھولے ڈنگر سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا ’’تسی وی بھولے بادشاہ ہو مہرجی، یہ دونوں ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔ میں نے پوچھا وہ کیسے، بولا ایک ہر وقت ہر سانحے کو قہقہوں میں اڑانے اور دوسرا ہر مثبت پہلو میں سے منفی پہلو تلاش کرنے میں لگا رہتا ہے، ایک بے وقوف ہنستا رہتا ہے اور دوسرا بے وقوف روتا رہتا ہے۔ یہ دونوں رویے قوم کو اس کی منزل سے دور لے جانے والے ہیں اور یوں دیکھا جائے تو یہ دونوں اصل میں ایک ہیں!
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ