’’السلام علیکم!‘‘
وعلیکم السلام
’’جناب، آپ کی گھڑی پر ٹائم کیا ہوا ہے۔‘‘
’’ساڑھے گیارہ بجے ہیں۔‘‘
’’بہت خوب بہت خوب میں آپ کے اخلاق عالیہ سے بہت متاثر ہوا ہوں، ورنہ کئی لوگ ٹائم بتانا تو کجا سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتے۔ وہ اپنے چودھری صاحب ہیں نا۔
کون سے چودھری صاحب
اجی وہ جو سامنے والے گھر میں رہتے ہیں۔ سارے محلے میں انہوں نے گند مچایا ہوا ہے۔ اب آپ کو کیا بتاؤں، ہم بھی دھی بہنوں والے ہیں۔ اللہ معاف کرے اللہ معاف کرے۔
لیکن اس گفتگو میں آپ کو چودھری صاحب کیسے یاد آگئے۔
وہ جی میں آپ کو بتارہا تھا تاکہ کئی لوگ ٹائم بتانا تو کجا سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتے۔ ایک دن میں نے چودھری صاحب کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ چودھری صاحب باہر نکلے۔ میں نے ٹائم پوچھا توناراض ہوگئے ، میں تو ان کی طرف صرف ٹائم پوچھنے ہی گیاتھا، ہم بھی دھی بہنوں والے ہیں۔
بھلا اس میں ناراض ہونے کی کیا بات تھی۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ نے ابھی تک اپنا تعارف نہیں کروایا۔
اوہ! میرا نام ع غ ہے، آپ کا اسم شریف۔
مجھے ط ظ کہتے ہیں۔
آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی، آپ کس دفتر میں کام کرتے ہیں۔
میں واپڈا میں ملازم ہوں۔
بہت خوب خاصے پیسے مل جاتے ہوں گے۔
جی اللہ کا شکر ہے، گزارا چل رہا ہے۔
میرامطلب ہے کہ آپ کی تنخواہ خاصی معقول ہوگی۔
جی ہاں بچے پل رہے ہیں۔
تو گویا ستر اسی ہزار تو مل ہی جاتے ہوں گے۔
میں نے عرض کیا ہے ناجی کہ گزارا چل رہا ہے۔
صاحب لگتا ہے آپ تو برا مان گئے، یہ تو میں نے برسبیل تذکرہ پوچھ لیاتھا، ورنہ مجھے تو دوسروں کے ذاتی معاملات میں دخل دینے کی عادت ہی نہیں۔ ویسے آپ نے پتلون بہت اچھی پہنی ہوئی ہے کپڑا کیا بھائو لیا ہے۔
مجھے یہ کپڑا سسرال والوں نے دیا تھا، مجھے اس کی قیمت کا اندازہ نہیں۔
خیر مجھے تو ایسے معاملات میں دلچسپی ہی نہیں، کوئی کیا کھاتا ہے، کیا کرتا ہے، کیا پہنتا ہے، مجھے اس سے کیا ، ویسے آپ کے سسرال والے کیا کرتے ہیں۔
بھاڑ جھونکتے ہیں۔
کتنے پیسے ملتے ہوں گے۔
پوچھ کر بتاؤں گا لیکن اب آپ مجھے اجازت نہیں دیتے۔
صاحب!وہ بس تو ابھی آئی نہیں۔
میں پیدل چلا جاؤں گا، یہاں اسٹاپ پر کئی دوسرے لوگ بھی کھڑے ہیں۔ آپ اپنے ذوق تجسس اور اختراطرازی کے لئے ان سے رابطہ قائم کریں۔
لگتا ہے آپ پھر برا مان گئے ہیں، حالانکہ میں تو کسی کے معاملات میں دخل اندازی کو بہت معیوب سمجھتا ہوں، خیر سے آپ کے بچے کتنے ہیں۔
جتنے بھی ہیں اللہ کے فضل و کرم سے نیک ہیں۔
آپ کو تو یوں ہی غلط فہمی ہوگئی ہے۔ میں بھی دھی بہنوں والا ہوں کسی کے بارے میںزبان کھولتے ہوئے خوف آتا ہے ویسے ٹائم کیا ہوا ہے۔
میں آپ کو ٹائم یہیں بتادیتا ہوں، وہ سامنے یونیورسٹی کا کلاک ہے نا! گیارہ بجے ہیں۔
اور اب آخرمیں مسقط میں مقیم خوبصورت شاعر قمر ریاض کی تازہ غزل کے چند اشعار
پھر حادثوں کی شام اتارا گیا مجھے
میں گم ہوا کہیں تو پکارا گیا مجھے
پھر جتنے لوگ تھے وہ مرے دل کا روگ تھے
پھر ان کے درمیان گزارا گیا مجھے
لایا گیا میں تیری نگاہوں کے سامنے
کیسے حسین حیلے سے مارا گیا مجھے
دو چار دن کا ہجر جو ہوتا تو خیر تھی
اس مرحلے سے روز گزارا گیا مجھے
جس اعتماد سے مجھے جیتا گیا قمرؔ
اور کتنے اطمینان سے ہارا گیا مجھے
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ