پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اعظم خان سواتی کو فوجی افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے گرفتار کرلیا۔
اسلام آباد سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر (سی سی آر سی) کے ٹیکنیکل اسسٹنٹ انیس الرحمٰن کی مدعیت میں ریاست کی شکایت پر ایف آئی اے کی جانب سے اعظم سواتی کے خلاف فرسٹ انفارمیشن (ایف آئی آر) رپورٹ درج کی گئی ہے۔
سابق وفاقی وزیر کے خلاف مقدمہ پیکا 2016 کی دفعہ 131، 500، 501، 505 اور 109 تعزیرات پاکستان کی کے تحت درج کیا گیا ہے۔
اسلام آباد سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر (سی سی آر سی) کے ٹیکنیکل اسسٹنٹ انیس الرحمٰن کی مدعیت میں ریاست کی شکایت پر ایف آئی اے کی جانب سے اعظم سواتی کے خلاف فرسٹ انفارمیشن (ایف آئی آر) رپورٹ درج کی گئی ہے۔
ایف آئی آر میں تین ٹوئٹر اکاؤنٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی اور مذکورہ اکاؤنٹس نے غلط عزائم اور مذموم مقاصد کے ساتھ ریاستی اداروں، سینیئر حکومتی افسران سمیت جنرل قمر جاوید باجوا کے خلاف انتہائی جارحانہ انداز میں ٹوئٹر پر مہم کا آغاز کیا۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس طرح نام لے کر اور الزام عائد کرنے والی اشتعال انگیز ٹوئٹس ریاست کو نقصان پہنچانے کے لیے مسلح افواج کے افسران کے درمیان تفریق پیدا کرکے بغاوت کی شرارت ہے۔‘
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اشتعال انگیز ٹوئٹس پر تبصرے کرکے ملزمان نے فوجی افسران کو ان کی ذمہ داریوں اور وفاداری سے بہکانے کی کوشش کی اور اعظم سواتی کی طرف سے یہ بار بار کوشش کی جا رہی تھی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ 26 نومبر کو اعظم سواتی نے ایک ٹوئٹ شیئر کی تھی جس میں لکھا تھا کہ وہ سینیئر فوجی افسر کے خلاف ہر محاذ پر جائیں گے جبکہ 19 نومبر کو ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹوئٹ میں لکھا گیا کہ ملک کی تباہی کے ذمہ دار جرنیل ہیں جس پر اعظم سواتی نے جواب دیا کہ ’شکریہ۔‘
ایف آئی آر کے مطابق 24 نومبر کو ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ کی ٹوئٹ میں لکھا گیا تھا کہ ’تبدیلی کا آغاز اداروں سے کرپٹ جرنیلوں کا گند صاف کرنے سے ہونا چاہیے تھا،‘ جس پر بھی اعظم سواتی نے جواب دیا کہ ’شکریہ‘۔
ایف آئی آر میں مزید لکھا گیا ہے کہ 24 نومبر کو ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ نے ایک متنازع ٹوئٹ کیا گیا جس پر اعظم سواتی نے انتہائی جارحانہ انداز میں جواب دیا۔
ایف آئی آر کے مطابق سینیٹر کے خلاف ماضی میں بھی اسی طرح کی شکایات درج کی گئی ہیں، مزید لکھا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے ریاست کے ستونوں کے درمیان بد نیتی کا خیال پیدا کرنے کی کوشش کر کے عام لوگوں اور مسلح افواج کے اہلکاروں کو اکسانے کی کوشش کی۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے غلط معلومات کی بنیاد پر رازداری کی خلاف وزری کی جو کسی افسر، سپاہی، سیلر یا ایئرمین کو میوٹنی یا اپنے فرائض میں کوتاہی پر اکسانے کی کوشش ہے، مزید کہا گیا ہے کہ ایسے بیانات سے عوام میں خوف پیدا ہونے کا بھی امکان ہے۔
’پارٹی رہنماؤں کی مذمت‘
پاکستان تحریک انصاف رہنماؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے سینیٹر اعظم خان سواتی کو دوبارہ گرفتار کیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ ’میں حیران ہوں کہ ہم کتنی تیزی سے نہ صرف بنانا ری پبلک بلکہ ایک فاشسٹ ریاست میں تبدیل ہو رہے ہیں۔
اعظم سواتی کی گرفتاری پر ردِعمل دیتے ہوئے عمران خان نے ٹوئٹر پر اپنے میں بیان میں کہا کہ ’سینیٹر اعظم سواتی کو حراست میں لے کر تشدد کرنے کے بعد ایک بلیک میلنگ ویڈیو ان کے خاندان کو بھیجی جانے والی تکلیف کو کوئی کیسے نہیں سمجھ سکتا۔‘
تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے اعظم سواتی کی مبینہ گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اعظم سواتی نے جس باوقار انداز میں خود کو آج گرفتار کے لیے پیش کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک اصول کے لیے لڑ رہے ہیں۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر سینیٹر اعظم خان سواتی کی گرفتاری پر بیان جاری کرتے ہوئے اسد عمر نے لکھا کہ ’آپ اعظم سواتی کے الفاظ کے انتخاب یا ان کے خیالات سے اختلاف کر سکتے ہیں، لیکن آپ ان سے اس بات پر اختلاف نہیں کر سکتے کہ جو کچھ بھی ہو قانون کے دائرے میں رہ کر کرنا چاہیے۔‘
سابق وفاقی وزیر اور تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے کہا ہمارے آزادی مارچ سے خطاب کرنے کے بعد ایف آئی اے نے سینیٹر اعظم سواتی کو دوبارہ گرفتار کیا کیونکہ تقریر میں انہوں نے کچھ سوالات کیے اور بتایا کہ ان کے اور ان کے خاندان کے ساتھ کیا ہوا۔
شیریں مزاری نے ٹوئٹر پر اعظم سواتی کی مبینہ گرفتاری کے حوالے سے ایک وڈیو جاری کرتے ہوئے گرفتاری کو فاشزم قرار دیا اور کہا کہ کیا ان کا یہ جرم ہے، کیا چیئرمین سینیٹ نے دوبارہ اس گرفتاری کی منظوری دی ہے۔؟
خیبرپختونخوا کے وزیر خزانہ تیمور خان جھگڑا نے گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہفتوں سے اعظم سواتی انصاف کے لیے ایک سے دوسری جگہ دوڑ رہی ہیں مگر ایک 74 سالہ شخص اب مزاحمت کی علامت ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اعظم خان سواتی کو 12 اور 13 اکتوبر کی درمیانی شب گرفتار کیا گیا تھا۔
سابق وفاقی وزیر کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف ٹوئٹ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم سیل نے گرفتار کیا تھا۔
ایف آئی اے کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے کے مطابق ’پی ٹی آئی کے سینیٹر کو آرمی چیف سمیت ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز اور دھمکی آمیز ٹوئٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا‘۔
16 اکتوبر کو بھی انہیں اسلام آباد ڈسٹرکٹ سیشن کورٹ کے ڈیوٹی مجسٹریٹ شعیب اختر کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں ان کا دوسری بار ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا گیا تھا، جب کہ اس سے قبل بھی عدالت نے ان کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔
پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے اعظم سواتی کی تقاریر، پریس کانفرنسز یا پروگرام نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی۔
پیمرا نے 26 نومبر کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے تمام ٹی وی چینلز کو ان کی تقاریر یا پریس کانفرنسز نشر کرنے سے روکا ہے۔
نوٹیفیکیشن کے مطابق آرڈر کے خلاف ورزی پر ٹی وی چینلز کا لائسنس بغیر شوکاز نوٹس معطل کر دیا جائے گا۔
نوٹیفیکیشن میں کہا گیا کہ اعظم سواتی نے 26 نومبرکو جلسے سے خطاب میں اداروں پر بغیر ثبوت کے بے بنیاد الزامات عائد کیے اور چینلز نے پیمرا آرڈر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کچھ سیکنڈ کے وقفے کے بغیر براہ راست تقریر نشر کی۔
نوٹیفیکیشن میں نشر ہونے والی تقریر کا متن بھی بتایا گیا۔
اس سے قبل رواں ماہ کے شروع میں پیمرا نے متنازع بیانات کی وجہ سے عمران خان کی تقاریر اور پریس کانفرنس دکھانے پر پابندی عائد کر دی تھی جسے بعد ازاں وفاقی حکومت نے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے منسوخ کر دیا تھا۔
عمران خان نے سینیٹر اعظم سواتی کی دوبارہ گرفتاری پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ جان کر دھچکا لگا کہ ’ہم کتنی تیزی سے نہ صرف بنانا بلکہ فاشسٹ ریاست بنتے جا رہے ہیں۔‘
اپنی ٹویٹ میں عمران خان کا کہنا تھا کہ سینیٹر اعطم سواتی پر حراست کے دوران تشدد اور انہیں بلیک میل کرنے کے لیے ان کی اور ان کی اہلیہ کی ویڈیو ان کے خاندان کو بھیجنے پر ان کا درد اور تکلیف کون نہیں سمجھ سکتا؟
عمران خان نے مزید کہا کہ ناانصافی پر سینیٹر اعظم سواتی کے غصے اور مایوسی کا جواز بنتا ہے خاص طور پر ان حالات میں کہ ان کے حق میں سینیٹروں نے اپیلیں کیں لیکن اس کے باوجود سپریم کورٹ کے دروازے ان کے لیے 15 روز سے بند ہیں۔
’اس لیے اعظم سواتی نے ٹویٹ کیا جس پر انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ اس ریاستی فاشزم کے خلاف ہر کسی کو آواز بلند کرنی ہو گی۔‘
فیس بک کمینٹ