ایم کیو ایم کے چئیرمین اور وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی نے کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’نہ جانے ہم کب ناراض ہو کر حکومت چھوڑ دیں‘۔ اگرچہ انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ ایم کیو ایم کیوں حکومت سے ناراض ہوسکتی ہے۔ البتہ یہ غیر متوقع تبصرہ ایسے ملکی ماحول میں سننے میں آیا ہے جب عبوری حکومت یاموجودہ حکومت کی بجائے پیپلز پارٹی کی قیادت میں نئی حکومت کے قیام پر قیاس آرائیاں ہورہی ہیں۔
اس دوران عمران خان نے اپنی ہی پارٹی کے لیڈروں پر سخت خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی مطالبہ منوائے بغیر مذاکرات کی پیش گوئی اور تعاون کی باتیں زیب نہیں دیتیں۔ گزشتہ روز اڈیالہ جیل میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے تحریک انصاف کے مطالبات منظور نہ کیے تو ملک میں سول نافرمانی کی تحریک شروع کی جائے گی۔ اسی قسم کا عندیہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے بھی دیا ہے۔ گو کہ سول نافرمانی کی تحریک کے بارے میں کوئی واضح لائحہ عمل سامنے نہیں آیالیکن اس قسم کی باتوں سے ملکی سیاسی ماحول میں بے یقینی میں اضافہ ضرور ہورہا ہے۔
مذاکرات کے امکان پر تحریک قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر اور پی ٹی آئی کے لیڈر اسد قیصر نے توجیہ کی ہے۔ حکومت سے کسی بھی قسم کے رابطہ کی تردید کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا ہے کہ ان کی پارٹی اس وقت تک مذاکرات پر راضی نہیں ہوگی جب تک عمران خان کو رہا نہیں کیا جاتا اور 9 مئی و26 نومبر کے سانحات کی تحقیقات سپریم کورٹ کے تین سینئر ججوں سے نہیں کرائی جاتیں۔ پارٹی کا مطالبہ ہے کہ کسی بھی عدالتی کمیشن میں سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین جج شامل کیا ہوں۔ ایک طرف عمران خان کی مذاکرات سے دوری کا اشارہ اور اس کی روشنی میں اسد قیصر کے مطالبات کی فہرست ہے تو دوسری طرف پارٹی کے چئیرمین بیرسٹر گوہر علی نے کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف مذاکرات کے لیے تیار ہے اور اس مقصد کے لیے وہ کوئی پیشگی شرائط عائد نہیں کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان تو ہمیشہ مذاکرات کے لیے تیار رہے ہیں۔ البتہ انہوں نے وضاحت کی کہ غیرمشروط مذاکرات کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پارٹی اپنے مطالبات سے دست بردار ہوگئی ہے۔ ہم بات چیت شروع ہونے پر اپنے مطالبات پیش کریں گے۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ مذاکرات کے بارے میں متنازعہ بیانات صرف تحریک انصاف ہی کی طرف سے سامنے نہیں آئے بلکہ حکومتی نمائیندے بھی اپوزیشن سے بات چیت کے متعلق کوئی واضح مؤقف سامنے نہیں لاسکے۔
پیپلز پارٹی کی ناراضی یا مایوسی بھی دن بدن نمایاں ہورہی ہے۔ ان حالات میں دیکھا جاسکتا ہے کہ صرف اپوزیشن یعنی تحریک انصاف ہی انتشار کا شکار نہیں ہے بلکہ حکومتی صفوں میں بھی دراڑیں دکھائی دینے لگی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور صدر آصف زرداری نے کبھی اس بات کوخفیہ نہیں رکھا کہ وہ بلاول بھٹو زرداری کو ملک کا وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم کیا وہ سیاسی طور سے اپنی پارٹی کی پوزیشن کو اتنا مستحکم سمجھتے ہیں کہ نئے انتخابات کے بغیر موجودہ حکومت کو پیپلز پارٹی کی حکومت سے تبدیل کرا لیں جس کی سربراہی ان کے صاحبزادے کررہے ہوں۔ اگر وہ اس مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں تو چہروں کی تبدیلی کے علاوہ ملک میں کیا تبدیل ہوگا؟
پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو حکومت قائم کرنے کے لیے اعتماد کا ووٹ دیا تھا اور اہم قانون سازی میں بھی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مکمل تعاون کیا ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے موقع پر تو یوں لگتا تھا کہ اس کی کامیابی کے لیے بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تمام تر سیاسی صلاحیتیں داؤ پر لگائی ہوئی ہیں۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی نے اہم آئینی عہدے تو حاصل کیے لیکن شہباز شریف کی خواہش کے باوجود پیپلز پارٹی حکومت میں شامل نہیں ہوئی۔ یوں پارٹی نے حکومت پر تنقید کا راستہ کھلا رکھا ۔ تاہم اس وقت ملکی سیاست میں تبدیلیوں کے بارے میں جو چہ میگوئیاں کی جارہی ہیں، ان میں نئے اشتراک بننے اور نئے نعروں یا الزامات کا امکان پوری طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر یہ تبدیلی موجودہ ایوان میں قائد ایوان تبدیل کرکے رونما ہوتی ہے تو سب سے اہم تو یہ دیکھنا ہوگا کہ بلاول بھٹو زرداری کو وزیر اعظم بنوانے کے لیے کون سی پارٹیاں ووٹ دیں گی۔ شہباز شریف پیپلز پارٹی کے تعاون سے وزیر اعظم بنے تھے۔ کیا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی کے امیدوار کو وزیر اعظم کے لیے ووٹ دے کر سیاسی فراخ دلی کا ثبوت دے سکے گی یا وہ اپنا راستہ علیحدہ کرکے، ان لوگوں کے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دے گی جو نئے ’سیٹ اپ‘ کا حصہ نہیں بنیں گے۔
اس بارے میں بات کرنے سے پہلے آج ہی حکومت خیبر پختون خواکے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف کے تازہ بیان پر غور کرنا مفید ہوگا۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’شہباز شریف کو ہٹانے اور بلاول زرداری کو لانے کے لئے ایوان صدر میں خفیہ ملاقاتیں ہورہی ہیں۔ بلاول زرداری شیروانی پہننے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں، باپ بیٹا دونوں وزارت عظمٰی کی کرسی کے لئے سرگرم ہیں‘۔ انہوں نے اس بیان میں یہ اضافہ بھی کیا ہے کہ ’ آصف علی زرداری اپنے بیٹے کو وزیراعظم بنانے کے خفیہ مشن پر ہیں۔ زرداری جعلی مینڈیٹ کے بجائے اصلی مینڈیٹ پر بیٹے کو وزیر اعظم بنائیں۔ شریف اور زرداری دونوں خاندان چوری شدہ مینڈیٹ پر کرسی کے مزے لے رہے ہیں‘۔
اس بیان سے یہ تو سمجھا جاسکتا ہے کہ اسلام آباد کے پس پردہ سیاسی ماحول میں جو بھی کھچڑی پکائی جارہی ہے، تحریک انصاف کسی نہ کسی طرح اس کا حصہ ہے ورنہ بیرسٹر سیف کو ایوان صدر کی ’خفیہ ملاقاتوں‘ کی خبر کیسے مل جاتی؟ اس کا ایک طلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ تحریک انصاف بھی ان ملاقاتوں میں شریک ہے اور نئے جوڑ توڑ میں زیادہ حصہ حاصل کرنے کے لیے ایسے بیانات سے دباؤ میں اضافہ کی کوشش کی گئی ہے۔ اگرچہ یہ بیان صریحاً بے بنیاد بھی ہوسکتا ہے اور پروپیگنڈا کے دیگر ہتھکنڈوں کی طرح ، اسے بھی شہباز شریف کی حکومت کو بدحواس کرنے اور کسی حد تک تحریک انصاف کو سپیس دینے پر مجبور کرنے کے لیے یہ شوشہ چھوڑا گیا ہو۔ نئے انتخابات کے بغیر موجودہ حکومت کو تبدیل کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کو تحریک انصاف کی براہ راست یا اس کے بڑے حصے کا تعاون درکار ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا ماضی دیکھتے ہوئے یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ان ہاؤس تبدیل کے کسی ممکنہ انتظام میں پیپلز پارٹی کی حمایت نہیں کرے گی۔ ایسے میں پیپلز پارٹی کے پاس تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی معاہدہ کرنے کا امکان ہی باقی رہ جاتا ہے۔
یوں بھی پیپلز پارٹی صرف مرکز میں حکومت سنبھال کر کوئی بڑا سیاسی مقصد حاصل نہیں کرسکتی ۔ پنجاب میں اگر بدستور مسلم لیگ (ن) کی حکومت رہتی ہے تو مرکز میں بلاول کی قیادت میں بننے والی حکومت کو مریم نواز کی حکومت سے ویسے ہی چیلنج کا سامنا رہے گا جیسا بے نظیر بھٹو کو 80 کی دہائی میں نواز شریف کی صورت میں درپیش تھا۔ آصف زرداری ایسا خطرہ مول نہیں لیں گے۔ اگر اس وقت بلاول بھٹو زرداری کو وزیر اعظم بنانے کے لیے کوئی پیش رفت ہوہی ہے تو ضرور پنجاب میں بھی مریم نواز کے اقتدار کو لپیٹنے کی کوشش کی جائے گی۔ مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے ہوتے امور مملکت چلانے میں کامیاب نہیں ہوگی۔
مرکز اور پنجاب میں بیک وقت تبدیلی لانے کے لیے صرف اسٹبلشمنٹ کی پروردہ ایم کیو ایم جیسی چھوٹی سیاسی جماعتوں کی قلابازی کافی نہیں ہوگی بلکہ اس کے لیے تحریک انصاف کو ساتھ ملانا پڑے گا۔ اس صورت میں مرکز کے علاوہ پنجاب میں بھی آسانی سے حکومت تبدیلی کا مقصدحاصل ہوسکے گا۔ تو کیا عمران خان سے ایسی سیاسی سوجھ بوجھ کی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ایک ’دشمن‘ کو زیر کرنے کے لیے دوسرے ’دشمن‘ سے ہتھ جوڑی کرلیں؟ عمران خان کے طرز سیاست میں تو ایسے رویہ کا امکان موجود نہیں ہے۔ لیکن عمران خان اس وقت جیل میں ہیں اور ان کے بعض قریبی ہمدرد یہ بتاتے رہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے لیڈر ہی انہیں رہا نہیں کرانا چاہتے۔ دوسرے پارٹی کے چئیرمین اس وقت بیرسٹر گوہر علی ہیں جو عمران خان کی وارننگ کے باوجود اعلان کررہے ہیں کہ سیاسی مذاکرات کسی پیشگی شرائط کے بغیر ہوں گے ۔ یہاں یہ پہلو ضرور نوٹ کرنا چاہئے کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ مذاکرات کس کےساتھ ممکن ہیں۔
اس کے علاوہ اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلہ بدستور معطل ہے۔ اس فیصلہ کی آئینی و قانونی حیثیت کا تعین شاید اب نیا آئینی بنچ کرے جس پر ایسے ججوں کا اثر و رسوخ نہیں ہوگا جنہوں نے عوامی ووٹ ملنے کی بنیاد پر مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دینے کا حکم دیا تھا۔ یوں بھی موجودہ صورت حال میں تحریک انصاف کی 80 سیٹوں میں سے 41 کو قانونی طور سے آزاد ارکان قرار دے کر سنی اتحاد کا رکن بتایا جارہا ہے کیوں کہ انہوں نے اس پارٹی میں شامل ہونے کا خود فیصلہ کیا تھا۔ کسی نئے سیاسی جوڑ توڑ کے لیے اس قسم کی موشگافیوں اور توڑ پھوڑ کے امکانات کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔
شہباز شریف کی حکومت صرف اسٹبلشمنٹ کے جذبہ خیرسگالی کی وجہ سے اقتدار میں ہے۔ کیوں کہ یہ سمجھا جارہا ہے کہ ان کی قیادت میں قائم حکومت معاشی طور سے ملک کو مستحکم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ البتہ اس سال مارچ میں حکومت سنبھالنے کے بعد اگرچہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے اور افراط زر میں کمی لانے میں تو کامیاب رہی ہے لیکن ملکی معیشت میں تیزی پیدا کرنے کے لیے بیرونی سرمایہ کاری نہیں آسکی۔ فروری میں منعقد ہونے والے انتخابات کی شفافیت اور موجودہ حکومت کی مقبولیت کے بارے میں شدید شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ اسٹبلشمنٹ کے بعض حلقے شہباز شریف کو اب اثاثے کی بجائے بوجھ سمجھنے لگے ہوں۔ اس لیے انہیں تبدیل کرکے کوئی نیا تجربہ ضروری سمجھا جارہا ہو۔ البتہ تحریک انصاف کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت کے بغیر کوئی نیا تجربہ کامیاب ہونے کا امکان نہیں ہے۔ تحریک انصاف کی حمایت سے بننے والی حکومت کی صورت میں انتخابی دھاندلی اور ریاستی جبر کے الزامات کا سلسلہ رک جائے گا اور ملک میں شاید کسی حد تک سیاسی ’استحکام‘ پیدا ہوسکے گا۔
اس انتظام میں سوائے اس کے کوئی خرابی نہیں ہوگی کہ ایسا کوئی بھی سیاسی منصوبہ اسٹبلشمنٹ ہی کے اشاروں و تعاون سے پایہ تکمیل تک پہنچے گا۔ اوراگر عسکری حلقے ابھی تک عمران خان کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں اور خود عمران خان موقع کی مناسبت سے سیاسی حکمت عملی اختیار کرنے پر راضی نہیں ہوتے تو تحریک انصاف مائنس ون کے فارمولے پر ہی نئے سیاسی انتظام کا حصہ بن سکے گی۔ ممکن ہے کہ شاید کہیں نہ کہیں پر ایک ہی نشانے سے دو شکار کرنے کی خواہش پروان چڑھ رہی ہو؟
( بشکریہ : کاروان ۔۔ناروے )
فیس بک کمینٹ