ادب میں ایک نیا رجحان یہ بھی آیا ہے کہ شاعروں کی زندگی ہی میں کلیات کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ پہلے کلیات بعد از وفات شائع کی جاتی تھیں۔ ہمارے ایک دوست شاعر و نقاد پروفیسر انور جمال نے اسی رجحان کے لیے ”جاری کلیات“ کی ترکیب ایجاد کی ہے۔ یعنی اب تک جو شائع ہو چکا وہ ایک جگہ اکٹھا کر دیا جائے اور باقی جو نیا تخلیق ہو، وہ بعدازاں شامل کیا جاتا رہے۔ اسی نئے رجحان کے تحت معروف شاعر اشفاق حسین نے اپنی کلیات ”لو ہم نے دامن جھاڑ دیا“ کے عنوان سے شائع کی ہے۔ تقریباً آٹھ سو صفحات پر مشتمل ان کی اس کلیات میں اب تک شائع ہونے والے تمام مجموعہ ہائے کلام شامل ہیں۔ غزل، نظم، رعبائیات اور قطعات پر مشتمل یہ کتاب گویا ان کی عمر بھر کی تخلیقی ریاضت کا اثاثہ ہے۔ اسے رائٹرز فاؤنڈیشن پاکستان نے بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔ اس کا انتساب معروف شاعر شعیب بن عزیز کے نام ہے، جو اشفاق حسین کے بقول اس کلیات کے محرک ہیں اور انہوں نے اس کے مسودے کو عرق ریزی سے پڑھا ہے۔
اشفاق حسین 44سال پہلے کراچی سے کینیڈا منتقل ہو گئے تھے، تاہم ان کا دل آج بھی پاکستان کے لیے دھڑکتا ہے۔ وہ پاکستان آکر جو آسودگی محسوس کرتے ہیں، اس کا انہوں نے بارہا اظہار کیا ہے، ویسے تو ان کی شخصیت اردو دنیا کے ہر گوشے میں پہچانی جاتی ہے تاہم انہوں نے کینیڈا کو اپنا مرکز بنا کر وہاں اردو ادب کی جو بستی آباد کر رکھی ہے وہ اب دنیا بھر میں ادب کا بڑا حوالہ بن گئی ہے۔ اشفاق حسین ایک سیلف میڈ انسان ہیں، اپنی بنیاد سے مضبوطی کے ساتھ جڑے ہوئے، جو لوگ ان سے آج واقف ہوئے ہیں، وہ شاید یہی سمجھیں گے کہ اشفاق حسین سونے کا چمچہ لے کرپیدا ہوئے اور اب ایک متمول شخص کے طور پر اپنی شاعری کا شوق پورا کررہے ہیں لیکن جو انہیں جانتے ہیں انہیں علم ہے اشفاق حسین نے زمین سے اٹھ کر آسمان کی طرف سفر کیا ہے۔ ان کی شاعری کے اصل تناظر کو صرف اسی صورت میں سمجھا جا سکتا ہے جب آپ یہ مان جائیں کہ شاعر کی زندگی کے نشیب و فراز کیا رہے۔ اشفاق حسین نے بہت اچھا کیا کہ اس کلیات کے ”گہر ہونے تک“ کے عنوان سے اپنی روداد لکھ دی ہے، وہ چاہتے تو بیان کی گئی ماضی کی حقیقتوں کو چھپا بھی سکتے تھے، مگر شاید ایسا کرنے کی صورت میں یہ کلیات ادھوری رہ جاتیں اور اس میں موجود شاعری کا افق بھی کسی انجان اندھیرے میں ڈوبا رہتا ۔
وہ لکھتے ہیں ”جہاں تک میرا تعلق ہے تو میرا بچپن کراچی کی ایک کچی آبادی میں گزرا۔ پیلے سکولوں میں تعلیم حاصل کی، گندی گلیوں میں دھوپ کا ہاتھ تھامے ہوئے محلے کے لڑکوں کے ساتھ ننگے پاؤں بھاگنا دوڑنا اور گھر والوں کے ساتھ روکھی سوکھی کھا کر اطمینان کی چادر اوڑھ کر میں نے چین سے رات بھر سونا اور خوش رہنا سیکھا“۔
جو لوگ انہیں جانے بغیر ان کی شاعری پڑھتے ہوں گے وہ اس پر ضرور حیران ہوئے ہوں گے اشفاق حسین کی شاعری میں زندگی کا اتنا تلخ سچ کیوں موجود ہے، صرف تلخ سچائی ہی نہیں بلکہ سماج کے ٹوٹنے بکھرنے کا نوحہ، جبر کی احساس میں اترتی ٹیسیں اور تضادات و منافقتوں سے جنم لینے والے المیے اس کی شاعری کو اپنے عہد کا منظرنامہ بنا دیتے ہیں۔ جب کسی شاعر کا کلیات سامنے آ جاتا ہے تو اس کے طرز احساس اور فکری نظام کو سمجھنے میں آسانی رہتی ہے۔ اشفاق حسین کی یہ فکری کائنات متنوع رنگوں سے سجی ہے۔ اس کے تحت الشعور میں ستر اور اسی کی دہائی کا وہ جبر ایک بڑی لہر کے طور پر موجود ہے،جس میں آمریت نے پنجے گاڑے اور اشفاق حسین جیسے آنکھوں میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے خواب سجانے والوں کو ایک بڑے کرب سے دوچار کر دیا۔ میں سمجھتا ہوں اشفاق حسین کینیڈا ہجرت کرکے اس کرب کی فضا سے جسمانی طور پر تو نکل گئے مگر ان کے اندر یہ سب کچھ موجود رہا۔ ان کی شاعری کا خمیر درحقیقت اسی سے اٹھا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایک آزاد اور خوبصورت فضا میں جاکے ان کے اندر محبت اور رومان کے شگوفے بھی پھوٹے، غزلوں میں ان کے رنگ بھی نمایاں ہوئے تاہم مجموعی طور پر ان کی شاعری کا افق ذاتی سے زیادہ آفاقی ہی رہا۔
اس کلیات میں تین شعبے ہیں، تین اصناف کو تقسیم کیا گیا ہے۔ غزل کا حصہ پڑھتے ہوئے اشفاق حسین کے گداز جذبوں سے آشنائی ہوئی ہے۔ اگرچہ موضوعات کی فراوانی ایک ہی غزل میں کہیں کومل اور کہیں تلخ جذبوں کا سامان بہم پہنچاتی ہے، تاہم ان کے قطعات اور رعبائیاں ان کے اندر کی اس ترقی پسندانہ سوچ کو زیادہ شدت سے نمایاں کرتی ہیں، جوبچپن ہی سے ان کی گھٹی میں حالات کی وجہ سے لاشعور کا حصہ بن گئی تھی۔
گھنا شجر تھا کوئی شاخ شاخ کاٹ گیا
تعصبات کی دلدل میں مجھ کو پاٹ گیا
۔۔۔۔۔
مری زباں تو نہ ہندو، نہ سکھ نہ مسلم تھی
مری زبان کو مذب کا زہر چاٹ گیا!
اپنے عہد کے ایک بڑے نقاد اور محقق ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے 1979ء میں ان کی شاعری کے بارے میں جو رائے دی تھی، وہ 45سال گزرنے کے باوجود آج بھی حرف حرف سچ ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ”اشفاق حسین کی شاعری کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک خیال اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ان کی شاعری اسی عہد سے تعلق رکھتی ہے کہ جوان کا اپنا عہد ہے جس میں انہوں نے آنکھ کھولی، پروان چڑھے اور شعور کو پہنچے ہیں، اس سرزمین کی کہانی ہے جس کی آب و ہوا، مٹی اور باغ و زاغ سے ان کے دل و دماغ نے جلاپائی ہے“…… تیس سال پہلے شائع ہونے والا ان کا مجموعہ ”ہم اجنبی ہیں“ دیار غیر میں رہ کر جس کیفیت سے گزرنے کا عکس تھا، آج ان کی کلیات پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے وہ ساری زندگی اس کیفیت سے نہیں نکلے، ان کی حیات کے سارے حوالے اسی خمیر سے اٹھے ہیں جن کی طرف فرمان فتح پوری نے اشارہ کیا ہے اور احساسات کا کینوس انہیں ایک جداگانہ شناخت بخشتا ہے:
بہت سوچا مگر سمجھا نہیں ہوں
میں کیا ہوں اور آخر کیا نہیں ہوں
۔۔۔۔۔
مجھے تم میرے موسم ہی میں پڑھنا
نصابِ نسل آئندہ نہیں ہوں
( بشکریہ : روزنامہ پاکستان )
فیس بک کمینٹ