اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے امریکہ میں مقیم پاکستانی صحافی احمد نورانی کے بھائیوں کی بازیابی کی درخواست پر سماعت کے دوران تھانہ نون کے ایس ایچ او کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی پولیس اسلام آباد کو 26 مارچ کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔سوموار کے روز احمد نورانی کی والدہ کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس انعام امین منہاس نے کی۔ایڈوکیٹ ایمان مزاری احمد نورانی کی والدہ اور بہن کے ہمراہ عدالت کے سامنے پیش ہوئی۔دوران سماعت جب احمد نورانی کی والدہ روسٹرم پر آئیں تو آبدیدہ ہو گئیں۔عدالت میں بات کرتے ہوئے انھوں نے سوال کیا کہ اگر ان کے بچوں کو کچھ ہو جاتا ہے تو کیا ہائی کورٹ ذمہ دار ہو گی؟
سماعت کے دوران تھانہ نون کے ایس ایچ او نے عدالت میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم تمام دستیاب ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے جیوفنسنگ کی ہے اور کال ڈیٹا ریکارڈز بھی منگوائے ہیں۔ایس ایچ او کا مزید کہنا تھا کہ احمد نورانی کے بھائیوں کے گھر کے قریب لگے کیمرے بھی چیک کروائے ہیں۔جسٹس انعام امین منہاس نے کہا ایس ایچ او سے کہا کہ آپ نے اپنی فائنڈنگ دینی تھی وہ نہیں دی۔اسلام آباد پولیس کا کہنا تھا کہ درخوست گذار کی جانب سے مقدمے کے اندراج کی درخواست نہیں آئی ہے۔
جسٹس منہاس نے کہا کہ ابھی پرچے کی بات نہیں کر رہے، ان کے پاس متبادل فورم موجود ہے۔درکواست گذار کی وکیل ایمان مزاری نے سوال کیا کہ پانچ دن سے اگر پولیس پرچہ درج نہیں کر رہی تو تفتیش کیسے کر رہی ہے؟جسٹس منہاس کا کہنا تھا کہ وہ آئی جی اسلام آباد کو طلب کر رہے ہیں، وہی تفتیش کروائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اختیار کے مطابق ہی آرڈر کر سکتے ہیں۔
ایڈوکیٹ ایمان مزاری نے کہا کہ اس کیس میں ڈائریکٹ الزام خفیہ اداروں پر ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ احمد نورانی کی سٹوری کی وجہ سے ان بھائیوں کو اٹھائے جانے کا الزام ہے۔
جسٹس منہاس نے کہا کہ وہ کوئی ایسا آرڈر پاس نہیں کریں گےجس پر عمل نا ہو۔عدالت نے کیس کی سماعت 26 مارچ تک ملتوی کردی۔
گذشتہ ہفتے پاکستانی صحافی احمد نورانی کے اہلخانہ نے دعویٰ کیا کہ اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر مبینہ طور پر ‘حملہ’ کر کے احمد کے دو بھائیوں کو اغوا کر لیا گیا ہے۔کئی برس سے امریکہ میں مقیم پاکستانی صحافی احمد نورانی نے بھی سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا ہے کہ ان کی ایک خبر پر ان کے خاندان کو نہ صرف ہراساں کیا گیا بلکہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔احمد نورانی کی والدہ کی جانب سے اپنے بیٹوں کی بازیابی کے لیے دائر پیٹیشن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ منگل کی رات ایک بج کر پانچ منٹ پر ان کے دو بیٹوں کو بظاہر ملک کے دو خفیہ اداروں کے نامعلوم اہلکاروں نے اغوا کر لیا ہے۔درخواست گزار کی جانب سے اس معاملے میں ان اداروں کے ملوث ہونے کے الزام کی آزادانہ تصدیق نہیں کی جا سکی۔درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’حراست میں لیے گئے دونوں افراد انجینیئرز ہیں اور ان کا اپنے بھائی احمد نورانی کی رپورٹنگ یا تحقیقاتی صحافت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘احمد نورانی کی والدہ امینہ بشیر کی جانب سے سیکریٹری دفاع، سیکرٹری داخلہ، انسپکٹر جنرل آف پولیس اور تھانہ نون کے ایس ایچ او کو فریق بنایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ صحافی کے دونوں بھائیوں کو فوری طور پر بازیاب کروا کر ہائی کورٹ میں پیش کیا جائے۔درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت فریقین کو حکم جاری کرے کہ وہ صحافی کے بھائیوں کو غیرقانونی حراست میں لینے والوں کی شناخت کریں اور ان کے خلاف تحقیقات کریں۔
( بشکریہ : بی بی سی )
فیس بک کمینٹ