مستنصر حسين تارڑ
-
”کرتار پور ایک سچا سودا؟“۔۔ہزارداستان/مستنصرحسین تارڑ
مجھے یاد ہے جب میں پہلی بار کرتار پور گیا تو کالا خطائی کے راستے کے دونوں جانب گندم کے…
مزید پڑھیں » -
’’گورے ادیب، کالے ادیب اور کاملہ شمسی‘‘۔۔ہزار داستان/مستنصر حسین تارڑ
ہمارے ادب میں تین قسم کے پاکستانی پائے جاتے ہیں، ایک وہ جو اپنی مادری زبانوں میں اس کے باوجود…
مزید پڑھیں » -
’’قومی بچت کے بابوں کی تعظیم کیجیے‘‘۔۔ہزار داستان/مستنصر حسین تارڑ
ویسے تو بڑھاپا ایسی بلائے ناگہانی ہے کہ اس کا شکار ہونے والے ہر شخص پر ترس آتا ہے لیکن…
مزید پڑھیں » -
’’بچے جتنے کچّے اتنے ہی میٹھے‘‘۔۔ہزار داستان/مستنصر حسین تارڑ
کیا نوجوان طالب علموں اور بچوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا جائز ہے؟ کیا انہیں کسی بھی…
مزید پڑھیں » -
’’ہراموش اور نانگا پربت کے جنگل روتے ہیں‘‘۔۔ہزار داستان/مستنصر حسین تارڑ
یہ جولائی 1975ء کا قصہ ہے جب سوئٹزر لینڈ کے دارالحکومت برن میں مجھے اطلاع ملی کہ میرا خالہ زاد…
مزید پڑھیں » -
’’تنہائی کے سو رُوپ ہیں‘‘۔۔ہزار داستان/مستنصر حسین تارڑ
تنہائی کے سو روپ ہیں۔ اس کا ایک روپ ایسا ہے جس میں انسان خود ایک اداسی گھولتا ہے اور…
مزید پڑھیں » -
’’کرکٹ کی ڈائن بقیہ کھیلوں کو کھا گئی‘‘(2)۔۔ہزار داستان/مستنصر حسین تارڑ
اس کے وجود سے لا علم رہتے ہیں اور اس ٹیلی ویژن سکرین کو گھورتے رہتے ہیں جس میں بارش…
مزید پڑھیں » -
’’کرکٹ کی ڈائن بقیہ کھیلوں کو کھا گئی‘‘۔۔ہزار داستان/مستنصر حسین تارڑ
سلمان نے نہایت اشتیاق سے اخبار کے پہلے صفحہ کی سرخیوں پر نظر دوڑائی اور ویٹر کو کہنے لگا اوئے…
مزید پڑھیں » -
’’شمال کے شیدائی‘ سودائی‘‘۔۔ہزار داستان/مستنصر حسین تارڑ
کم از کم میں تو اس حقیقت سے انکار کر کے کافر نہیں ہونا چاہتا کہ پاکستانی شمال ایک سحر…
مزید پڑھیں » -
’’عذرا کی واپسی‘‘۔۔ہزار داستان/مستنصر حسین تارڑ
گئے زمانوں میں دو قسم کی ’’واپسیاں‘‘ بہت مشہور ہوا کرتی تھیں بلکہ المشہور ہوا کرتی تھیں۔ ایک ٹارزن کی…
مزید پڑھیں »