حسبِ ضرورت مجھے آج آپ سے بے انتہا ضروری آئینی ترمیم کے بارے میں بات کرنی ہے۔ ہم سب جانتے تو سب کچھ ہیں مگر چھوٹی سی وضاحت ضروری ہے۔ اس کے بعد واضح ہوجائے گا کہ اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی ایک ایک سیٹ ووٹ دینے والوں کی امانت ہے۔ اسمبلیوں کی سیٹیں کسی بھی ایم این اے اور ایم پی اے کا سنگھا سن، تخت طائوسی یاراج گدی نہیں ہیں۔ اسمبلیوں کی ایک ایک سیٹ ووٹ دینے والوں کی چار پانچ برس کیلئے امانت ہے۔ اسمبلیوں کی مدّت پوری ہوجانے کے بعد آپ کو اسمبلی کی سیٹ خالی کرنی ہے۔ دوبارہ اسمبلی سیٹ پر براجمان ہونے کیلئے آپ کو پھر سے الیکشن میں حصّہ لینا پڑےگا اور ووٹ مانگنے کیلئے ہمارے پاس آنا پڑے گا۔ اسی موضوع پر آج مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔ مگر اس آئینی بات کرنے سے پہلے میں آپ سے ایک اور اہم بات کرنا چاہتاہوں۔ اسکے بعد ہم اپنے موضوع کی کاٹ کوٹ اور جراحی کرینگے۔
میں اپنے وزیراعظم شہباز شریف سے بہت متاثر ہوں۔ اپنے لباس کے معاملے میں ان کا معیار بہت اعلیٰ ہے، پھر وہ چاہے سوٹ پہنتے ہوں، کا مبی نیشن پہنتے ہوں، یابش شرٹ زیب تن کرتے ہوں، آپ داد دیئے بغیر رہ نہیں سکتے۔ لباس سے میچ کھاتے ہوئے ان کے شوز بھی ان کے اعلیٰ معیار کی غمازی کرتے ہیں۔ شرٹس اور ٹائیوں کی میچنگ میں بھی وہ اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اچھے لباس کی لاج رکھنے کے لئے اچھے جسم کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ مناسب قد کاٹھ، مناسب شخصیت، مناسب ڈیل ڈول اور اس پر اعلیٰ لباس آپ کی ذات کو ممتاز بنادیتاہے۔ کسی بھی موٹے، بھدےلمبے ،چوڑے، ناٹے، سوکھے، سڑیل پر دنیا کے نامور فیشن ڈیزائنرز کے بنائے ہوئے لباس کبھی بھی جچ نہیں سکتے۔ ذوالفقارعلی بھٹو بھی لباس کے معاملے میں اعلیٰ معیار رکھتے تھے۔ ایک صاحب دبلے پتلے اور سڑیل لگتے تھے۔ ان کا نام شاید شیر علی تھا، یا علی شیر تھا۔ یادداشت سے دھوکا کھا گیا ہوں۔ پاکستان کے وزیرِ خارجہ تھے۔ کسی بھی اعلیٰ سے اعلیٰ لباس میں وہ نہیں جچتے تھے۔ کمزور شخصیت سے وہ مار کھاگئے تھے۔
اب چونکہ میں وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف سے بے انتہا متاثر ہوں، اسلئے انکی گفتار کا ایک ایک لفظ میں بہت غور سے سنتا ہوں۔ نہ صرف ان کا بولا ہوا ایک ایک لفظ میں غور سے سنتاہوں، اُن سے سناہوا ایک ایک لفظ بمع تشریح کے اپنے دوستوں اور دشمنوں کو سناتاہوں۔ جب سے انہوں نے وزیر اعظم کی مسند سنبھالی ہے وہ ایک بات باربار دہراتے رہتے ہیں ۔ کہتے ہیںکہ ملک میں، یعنی اپنے وطن پاکستان میں اظہار کی مکمل آزادی ہے۔ یعنی جو بات آپ کے دل میں ہے وہ بات آپ زبان پر لاسکتے ہیں۔ کڑھنے اور ڈرنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کسی بھی گَھٹنا پر، واقعہ پر، حادثہ پر حکومت کے کسی فیصلے پر آپ دل کھول کر لکھ سکتے ہیں۔ بول سکتے ہیں بغیر کسی رکھ رکھاؤ کے اپنا موقف، اپنی رائے کا آزادی سے اظہار کرسکتے ہیں۔ آپ کو کسی سے ڈرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اس نوعیت کی زبانی کلامی ضمانتیں پچھلے دور کے حکمراں بھی دیا کرتے تھے۔ مگر ان کے قول اور فعل میں فرق ہوتا تھا۔ کسی بات پر اپ نے اپنی آرا کا اظہار کیا، وہیں کے وہیں آپ دھر لیے جاتے تھے۔ سمجھانے والے قید تنہائی میں آپ کو اظہار کی آزادی کے معنیٰ سمجھادیتے تھے۔ اس کے بعد آپ دونوں پیروں میں دو مختلف رنگ کے موزے پہن لیتے تھے، مگر آپ فرق محسوس نہیں کرسکتےتھے۔ مگر موجودہ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف دوسرے وزیر اعظموں سے مجھے مختلف لگتے ہیں۔ میں ان سے بہت متاثر ہوں۔ مجھے نہیں لگتا کہ ان کے بلند و بالا جمہوری دور میں دل کی بات زبان تک لے آنے والے کا دل بیدردی سے محض اسلئے توڑ دیا جاتا ہوگا جس طرح ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ وزیراعظم کی یقین دہانی کا اعتبار کرتے ہوئے دہشت گردوں سےمیں ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔ کچھ سمجھنا چاہتاہوں۔ ایک ہی نوعیت کی بہت سی باتیں ہیں، مگر فی الحال میں ایک ہی بات پوچھنا اور سمجھنا چاہتاہوں۔ ایک بات سمجھنے بوجھنے کیلئے میری تمام کوششیں نا کام ہوچکی ہیں۔ مجبوراً آپ کے توسط سے میں ان لوگوں سے اتنی بڑی بات سمجھنے کی سعی کرنا چاہتا ہوں۔ وزیراعظم کی طرف سے ہمیں یقین دلوایا گیاہے کہ ملک میں سوچنے سمجھنے بولنے کی مکمل آزادی ہے۔ کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ بات پوچھنے کے بعد میں پُر اسرار طور پر غائب نہیں ہوجاؤں گا۔ وزیراعظم کی بات پر مجھے اعتبار ہے۔ ملک میں سوچنے سمجھنے کی مکمل آزادی ہے۔ اظہار پر پابندی نہیں ہے۔ پس ماندہ لفظ آپ نے سنا ہوگا۔ پڑھائی لکھائی میں، میں پس ماندہ رہ گیا ہوں۔ بہت پیچھے رہ گیا ہوں ۔ مگر میرے دیرینہ دوست اور دشمن بہت پڑھے لکھے ہیں۔ ماسٹرز میں گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ پی ایچ ڈی کرچکے ہیں ۔مگر وہ بھی نہ میری بات سمجھ سکے اور نہ مجھے کچھ سمجھا سکے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ پولیو کے قطرے بچوں کو پلانے والی ٹیم کو آپ دہشت گرد موت کے گھاٹ کیوں اتار دیتے ہو؟ ان کا قصور کیاہے؟ یہ بات میں سمجھنا چاہتاہوں۔ آپ کے جی میں آتا ہے تو آپ بلاکسی جھجک کے پولیو کے قطرے پلانے والوں کو ایک برسٹ مار کر ابدی نیند سلاد یتے ہو۔ ایک بات تو طے ہے کہ کھلم کھلا دادا گیری اور رہزنی سے آپ اسلام کا نام معتبر نہیں کرتے۔ میں تو ہوں نرا جاہل مگر میں نے پڑھے لکھے، ماسٹرزاور پی ایچ ڈی ڈگریاں رکھنے والوں سے پوچھا ہے۔ ان کا متفقہ فیصلہ ہے کہ لولی لنگڑی قوم پیدا کرنے کیلئے آپ نے جو دہشتگردی لگا رکھی ہے۔ وہ عقائد کے منافی ہے۔ اب آپ بتائیں کہ آپ کرنا کیا چاہتے ہیں؟
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ