(گزشتہ سے پیوستہ)
تبسم صاحب کا ابھی تھوڑا سا ذکر باقی ہے ،موصوف انتہائی شریف النفس، وضع دار اور بھولے بھالےتھے ۔ ان کے پندرہ روزہ مشاعروں میں بھی شریک ہوتا اور اپنے کلامِ بلاغت نظام سے سامعین کو محظوظ کرتا، اپنے بعد آنے والے شاعروں کو ان کے کلام پر اتنی ہی داد دیتا جتنی انہوں نے مجھے دی ہوتی تھی، وہاں ایک بزرگ بھی تشریف فرما تھے۔ ضعیف العمر، سفید داڑھی، سفید مونچھیں، سر پرغالب جیسی ٹوپی، آواز پاٹ دار، کلام میں کلاسیکی رنگ۔ ان کا اسم گرامی نواب حسام الدین فیروز تھا، یہ ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ وہ جمیل الدین عالی کے سسر تھے۔ جیسا کہ میں نے ابھی بتایا آواز بہت پاٹ دار تھی، ایک دن وہ کلام سنا رہے تھے۔
یہ اس کی حکایت ہے لبِ غیر پہ کیسی
ہٹ جا میرے آگے سے تیری ایسی کی تیسی
اس وقت ایک گھریلو ملازم جگ میں پانی لے کر آ رہا تھا، جب اس نے ایک زور دار آواز میں سنا:؎
ہٹ جا میرے آگے سے تیری ایسی کی تیسی
تو جگ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا
مجھے اس بزرگ کی وضع قطع، لباس اور کلام کے سبب ان کی شخصیت میں بہت کشش محسوس ہوئی اور ان سے ایڈریس اور اجازت لے کر ان کے دولت خانے پر حاضر ہوگیا۔ وہ ہمارے برابر والے ایچ بلاک میں رہتے تھے، بہت معمولی سا گھر جس کی بیرونی دیواروں پر ابھی سیمنٹ بھی نہیں ہوا تھا۔ ڈرائنگ روم میں گائو تکیہ لگاہوا ایک پلنگ۔ انہوں نے میرے لئے کرسی منگوانے کی خاطر گرجدار آواز دی ’’خیرو‘‘۔ مگر خیرو کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ دو تین بار آواز دینے کے بعد بولے پتہ نہیں کہاں مر گیا، آج کے خدام بھی زمانے کے رنگ میں رنگے گئے ہیں۔ حالانکہ ایسی بات نہ تھی، ان کے ہاں کوئی ملازم تھا ہی نہیں، ہوتا تو وہ آ کر آداب بجا لاتا، اس کے بعد انہوں نے اپنی کسی خیالی کنیز، فاطمہ کو دو تین بار پکارا، کوئی ہوتی تو آتی۔ یہ دیکھ کر میں نے عرض کی نواب صاحب آپ مجھے قدموں میں جگہ دیں، یہ میری حیثیت سے زیادہ عزت افزائی ہوگی۔پھر میں چارپائی کی پائنتی کی طرف بیٹھ گیا اور ان سے جی بھر کر کلام سن کر اور ان کے پائوں کو ہاتھ لگا کر باہر نکل آیا۔ یہ قابل احترام بزرگ تھے۔ طویل العمری کی وجہ سے وہ ابھی تک ماضی میں زندہ تھے۔ جمیل الدین عالی کا تعلق بھی نواب خاندان سے تھا، مگر وہ ماضی میں نہیں حال میں زندہ تھے۔ ہمارے ماڈل ٹائون کے سی بلاک میں ’’شہزادہ خیر الدین مغلیہ خاندان کے آخری چشم و چراغ‘‘ کی کوٹھی تھی اور انہوں نے اپنا یہ پورا تعارف اپنی نیم پلیٹ پر درج کیا ہوا تھا۔میں ایک بار اپنے ابا جی کے ساتھ ان کی دعوت پر ان کے ہاں گیا تھا اور ان کے سارے انداز مغلیہ خاندان کی آخری سے آخری پشت جیسے تھے۔
ماڈل ٹاؤن میں میرا ایک دوست منیِ بھائی بھی تھا مگر اس وقت میں نے صرف اس کا نام ہی سنا تھا اس سے دوستی کا آغاز تب ہوا جب میں ہیوسٹن گیا، وہ امیگرنٹ تھا مگر ماڈل ٹائون سے اسے محبت تھی، سو وہ اکثر آتا جاتارہتا۔ لیکن اس کا پہلا اور آخری عشق میاں نواز شریف سے تھا۔ایک دفعہ وہ پاکستان بلکہ ماڈل ٹائون آیا اور تین مہینے تک اس کی میاں صاحب سے ملاقات نہ ہوئی اور بیمارِ عشق کی حالت غیر ہوگئی،ایک دن میں وزیراعظم نواز شریف کی طرف گیا اور انہیں بتایا کہ منیِ بھائی تین ماہ سے آیا ہوا ہے اور آپ سے ملاقات نہ ہو سکنے کی وجہ سے اس کی حالت غیر ہو رہی ہے۔ یہ سن کر میاں صاحب نے مجھے کہا آپ منیِ بھائی سے میری بات کرائیں، میں نے نمبر ملا کر فون میاں صاحب کو پکڑا دیا۔ میاں صاحب نے اپنا نام بتائے بغیر منیِ بھائی سے کہا میں نے سنا ہے آپ پاکستان آئے ہوئے ہیں، اس نے کہا ہاں جی تین مہینے ہوگئے ہیں، میاں صاحب نے پوچھا آپ کی نواز شریف سے ملاقات ہوئی، منیِ بھائی نے جواب دیا میں تو جی ان کی شکل دیکھنے کے لئے ہزاروں میل کا سفر طے کرکے آیا ہوں۔ میاں صاحب بولے تو ابھی تک آپ کی ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا ، نہیں جناب!اس پر میاں صاحب نے کہا میں نواز شریف ہوں، آپ اور قاسمی صاحب کل دوپہر کا کھانا میری طرف کھائیں گے۔ میں نہیں جانتا اس وقت منیِ بھائی کی حالت کیا ہوئی ہوگی، بس اندازہ ہی لگا سکتا ہوں۔
اگلے روز میں دوپہر بارہ بجے کے قریب منیِ بھائی کے کرائے کے گھر گیا تو پتہ چلا کہ صبح اس کا ملازم اس کے لئے چائے لے کر کمرے میں آیا تو اس کی کھلی آنکھوں میں میاں صاحب کا انتظار تھا وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکا تھا۔ میاں صاحب تک یہ خبر پہنچی تو راوی بتاتا ہے کہ ان کی آنکھیں نم ہوگئیں اور پھر سیکرٹری سے کہا کہ وہ منیِ بھائی کے گھر فون کرکے میرے لئے ٹائم لیں فاتحہ خوانی کیلئے جانا ہے۔
میاں صاحب کا ذکر آیا ہے تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ میاں محمد شریف مرحوم و مغفور اور انکےبھائیوں کی کوٹھیاں ایچ بلاک میں ایک ہی قطار میں تھیں۔ میں نے میاں محمد شریف ، نواز شریف اور شہباز شریف کو دو ایک بار اپنی مسجد میں نماز پڑھتے دیکھا، یہ پورا خاندان ابا جی کا بہت عقیدت مند تھا۔ چنانچہ ابا جی کی وفات پر میاں محمد شریف مرحوم اور شہباز شریف نماز جنازہ میں شریک ہوئے جبکہ نواز شریف جو اس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب تھے، ایک میٹنگ کی وجہ سے بعد میں تعزیت کیلئے گھر آئے۔میں یہاں ایک اہم بات بتانے جا رہا ہوں کہ ابا جی فرنگی سامراج کے خلاف جدوجہد میں انگریز کی جیل کاٹ چکے تھے اور پاکستان ہجرت کے بعد آمروں کے خلاف اپنی تقریروں میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔ ایک دن ماڈل ٹائون کی اشرافیہ کے چند ارکان جمعہ کا خطبہ سننے کےبعد ابا جی سے کہنےلگے مولانا آپ سے ایک گزارش ہے کہ آپ ہمیں صرف نماز روزے وغیرہ کے بارے میں بتایا کریں براہ کرم سیاسی تقریر سے گریز کریں۔ ابا جی نے ان کی بات سن کر کہا، میں صبح ناشتے میں کشمیری چائے کا ایک کپ اور رس لیتا ہوں، دوپہر کو جو روکھی سوکھی ملے اللّٰہ کا شکر ادا کرکے کھا لیتا ہوں، مغرب کی نماز کے بعد بہت رغبت سے دال چاول کھاتا ہوں اور عشاء کی نماز پڑھ کر سو جاتا ہوں، جس دن میری ان ضروریات میں اضافہ ہوا اس دن آپ کے مشورے پر غور کروں گا۔ (جاری ہے)
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ