’’صحافت‘‘ کے حوالے سے اگرخود کو ان دنوں کا ’’بطل حریت‘‘ ثابت کرنا ہے تو سینہ ٹھوک کر یوٹیوب پر بیٹھ جا ئیں اور گریبان پھاڑنے کا ڈرامہ رچاتے ہوئے دنیا کو بتائیں کہ پاکستان کی تاریخ میں ’’پہلی بار‘‘ پولیس نے ’’منتخب نمائندوں‘‘ کو گرفتار کرنے کے لئے پارلیمان کا گھیرائوکیا۔ جن معزز اراکین پارلیمان کی گرفتاری مقصود تھی انہوں نے اپنا ’’آئینی حق‘‘ استعمال کرتے ہوئے گزرے اتوار کے دن اسلام آباد کے نواحی سنگ جانی کے ایک میدان میں جہاں ’’مویشی منڈی‘‘ لگائی جاتی ہے ایک جلسے میں شرکت کی تھی۔ مذکورہ جلسے کی اجازت وفاقی حکومت نے بہت کاوشوں کے بعد فراہم کی۔ بالآخر ’’مجبور‘‘ اس وجہ سے ہوئی کیونکہ مذہبی انتہا پسندوں کے چند گروہ اگست 2024ء کے آخری دس دنوں میں ہر صورت اسلام آباد کے ’’ریڈ زون‘‘ میں درآنے کا ارادہ باندھے ہوئے تھے۔ ایک حساس ترین اور نہایت جذباتی معاملے کی بابت نظر بظاہر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے نے انہیں مشتعل بنادیا تھا۔ مذہب کی بنیاد پر ابھرے جذبات سے خوفزدہ حکومت کو مزید فکر اس وجہ سے بھی لاحق ہوگئی کہ تحریک انصاف بھی اسلام آباد میں 22اگست کے دن ایک جلسہ کرنا چاہ رہی تھی۔ مقامی انتظامیہ کے لئے جذبات سے مغلوب ہوئے ایک نہیں بلکہ دوگروہوں سے نبردآزما ہونا ممکن نہیں تھا۔ راتوں رات ٹلیاں کھڑکیں۔ ’’آزادی صحافت‘‘ کی موجودہ بہار میں پیشہ ور صحافی ہی نہیں بلکہ موبائل فون کا مالک تقریباََ ہر شہری خود کو رپورٹر تصور کرتا ہے۔ ہم ابھی تک روایتی یا سوشل میڈیا کی بدولت لیکن یہ جان ہی نہیں پائے ہیں کہ بالآخر ہماری ریاست وحکومت کے کس شخص نے یہ فیصلہ کیا کہ عمران خان کی ’’منت سماجت‘‘ کرتے ہوئے انہیں22اگست کا جلسہ موخر کرنے کو مائل کیا جائے۔
مجھ جیسے قلم گھسیٹ اپنی بے خبری کا اعتراف کرنے کی جرات سے قطعاََ محروم ہیں۔ فقط یہ جان کر ’’تجزیہ نگاری‘‘ میں مصروف ہوجاتے ہیں کہ 22اگست کے جلسے کے انعقاد سے چند ہی گھنٹے قبل اڈیالہ جیل راولپنڈی کا پھاٹک کھل گیا۔ تحریک انصاف کے ایک اہم رہ نما جو عمران حکومت کی برطرفی کے چند ہفتے بعد حکومتی عتاب کی زد میں آکر ملک میں ’’حقیقی آزادی‘‘ کے طلب گاروں کے لئے مشعلِ راہ بنے تھے اپنے قائد سے ملاقات کے لئے جیل میں داخل ہوئے۔ عمومی حالات میں وطن عزیز کی جیلوں میں مقید عام قیدیوں کے ملاقاتی ان سے دن کے دس بجے سے قبل ملاقات نہیں کرسکتے۔ قیدی نمبر804مگر ’’عام قیدی‘‘ نہیں۔ کرشمہ ساز ہیں۔ان کے مداحین عقیدت میں ان کے لئے ’’نک دا کوکا‘‘ جیسے نغمے تشکیل دیتے ہیں۔ بہرحال ان سے ملاقات کے لئے صبح کے سات بجے جیل کا پھاٹک کھل گیا۔ سواتی صاحب کو ان کے رہ نما نے جلسہ ملتوی کرنے کی ہدایت دی۔ جیل سے نکل کر سواتی صاحب نے ان کا پیغام لوگوں تک پہنچادیا تو مقامی انتظامیہ نے فی الفور تحریک انصا ف کو ستمبر 8کی شب سنگ جانی میں جلسے کی اجازت فراہم کردی۔ اس کے انعقاد کے لئے اگرچہ تحریک انصاف کو ایک معاہدے پر دستخط کرنا پڑے۔ اس معاہدے میں ’’ہدایت نامہ خاوند‘‘ کی طرح مذکورہ جلسے کے منتظمین کے لئے 41شرائط پر عمل پیرائی کو یقینی بنانا تھا۔ ذات کارپورٹر ہوتے ہوئے میں نے ان شرائط کو تین سے زیادہ مرتبہ نہایت توجہ سے پڑھا۔ ملکی سیاست وثقافت کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے مجھے ان پر عمل پیرائی ناممکن دکھائی دی۔ ہم مگر مفروضوں پر ایمان رکھنے والی سادہ لوح قوم ہیں۔ معاہدوں پر عملدرآمد کی ویسے بھی ہمیں عادت نہیں۔’’دائو‘‘ اور ’’جگاڑ‘‘ لگانا ہمارے ہاں قابل رشک ہنر شمار ہوتا ہے اور عوامی اجتماعات کے انعقاد کے حوالے سے تحریک انصاف ’’جگاڑ‘‘ لگانے کے ضمن میں اپنا کمال 2011ء سے ایک مرتبہ نہیں بلکہ سینکڑوں بار ثابت کرچکی ہے۔ اسلام آباد کی انتظامیہ اور اس کے ’’صاحبان‘‘ کو البتہ کامل یقین رہا کہ ستمبر 8کے روز تحریک انصاف جی حضوری کا چلن اختیار کرے گی۔
7 ستمبر کی شام مگر انتظامیہ ’’ہوش‘‘ میں لوٹتی نظر آئی۔ شاید خفیہ اداروں کی بھیجی رپورٹوں کی بنیاد پر اس نے طے کرلیا کہ سنگ جانی میں اجتماع کے بعد تحریک انصاف کے رہ نما وہاں موجود کارکنوں کو اسلام آباد پر دھاوا بولنے کو اْکسائیں گے۔ رات ساڑھے گیارہ بجے کے بعد ’’اچانک‘‘ اسلام آباد میں داخلے کے تقریباََ 29مقامات پر کنٹینر لگادئیے گئے۔ 8 ستمبر کی صبح ہوئی تو اتوار کی صبح عموماََ پائے کھانے کا عادی یہ قلم گھسیٹ اسلام آباد کے F-8سیکٹر سے ڈرائیور کے ہمراہ اپنی پسندیدہ دوکانوں کی جانب رواں ہوا تو محسوس ہوا کہ جس شہر میں 1975ء سے مقیم ہوں وہ کسی ممکنہ ’’یلغار‘‘ سے گھبرایا ہوا ہے۔ راستوں کی بندش نے شہر کو دہشت سے سمٹا ہوا دکھایا۔ اتوار کے ناشتے کی لذت محسوس ہی نہ کرپایا۔ اکتاکر اپنے کمرے میں محصور ہوگیا۔ ملکی سیاست کا دیرینہ شاہدہوتے ہوئے مگر یہ طے کرلیا کہ اسلام آباد میں داخل ہونے کے راستے بند کرتے ہوئے انتظامیہ نے تحریک انصاف کے جلسے کو ’’کامیاب‘‘ کروادیا ہے۔
شام میں جلسہ ہوا تو اس کے آغاز سے قبل سرکاری ترجمان وہاں موجود افراد کی تعداد کو کیمروں کے مختلف زاویوں سے دکھاکر طنز کا نشانہ بناتے رہے۔ یہ حقیقت یاد نہ رکھی کہ پانچ کروڑ کی آبادی کو چھونے کے قریب پہنچا ہمارا ایک صوبہ خیبرپختونخواہ ہے۔ اس کے پشاور،مردان،نوشہرہ، چارسدہ حتیٰ کہ سوات ایسے شہر بھی اب بنیادی طورپر نواز شریف کے دور ہی میں بنائی سڑکوں کے سبب اسلام آباد سے فقط دو یا تین گھنٹے کے فاصلے پر ہیں۔ راستوں سے رکاوٹیں ہٹاتی کرینوں کے ہمراہ خیبرپختونخواہ کا منتخب وزیر اعلیٰ سرکاری پروٹوکول کے ساتھ ایک قافلے کی قیادت کرتا ہوا اسلام آباد پہنچنا چاہے تو اسے روکنا وفاقی اور پنجاب پولیس اور مقامی انتظامیہ کے بس میں نہیں۔
نواز شریف کی تیسری حکومت کے دوران بھی وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے اسلام آباد میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔ موصوف ان دنوں کے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے ایچی سن کالج لاہور میں طالب علمی کے دوران قریب ترین دوست ہوا کرتے تھے۔ چودھری نثار نے مگر پرویز خٹک کی قیادت میں آئے قافلے کو آنسو گیس کی بھرمار سے روکنے کی کوشش کی۔ بالآخر ناکام رہے۔
اس دور کے واقعات یاد کریں تو پنجاب اور اسلام آباد کی انتظامیہ کو علی امین گنڈاپور کا شکرگزار ہونا چاہیے تھا کہ انہوں نے سنگ جانی کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ’’باغیانہ‘‘ لب ولہجہ اور الفاظ تو استعمال کئے مگر اسلام آبادپر دھاوا بولنے سے گریز کیا۔ وفاقی حکومت مگر اب خفاہوچکی ہے۔ تحریک انصاف کوسبق سکھانے کا ارادہ باندھ لیا ہے۔ یہ کالم ختم ہونے تک علی امین گنڈاپور بھی رات سے ’’مسنگ‘‘ بتائے جارہے تھے۔ اب مگر ’’بازیاب‘‘ ہوچکے ہیں۔مجھ سے توقع باندھی جارہی ہے کہ میں ایک ’’منتخب‘‘ وزیر اعلیٰ کے ساتھ ہوئے سلوک کی ڈٹ کر مذمت کروں۔ یہ کرنے کی جرات سے محروم ہوں تو’’آزاد صحافی‘‘ ہونے کا دعویٰ نہ کروں۔ وطن عزیز میں لیکن ’’آزاد صحافی‘‘ کثیر تعداد میں ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ 1950ء سے اب تک کسی ایک’’منتخب‘‘ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کی تذلیل وہ روک نہ پائے۔ ایک وزیر اعظم -ذوالفقار علی بھٹو- کی حکومت الٹاکر بعدازاں اسے پھانسی پر بھی لٹکادیا گیا تھا۔ ’’آزاد صحافی‘‘ اسے بھی روک نہیں پائے تھے۔ میں کس کھیت کی مولی ہوں۔
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ