عرب ممالک جس منصوبہ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اس میں غزہ کے شہریوں کو معاملات سے بے دخل کرنے کا اصول سر فہرست ہے۔ اس تجویز کے مطابق فلسطینیوں کے ماہرین پر مشتمل ایک گروپ مستقل جنگ بندی کے بعد غزہ میں انتظامی امور اور تعمیر نو کے معاملات کی نگرانی کرے گا جبکہ عرب ممالک غزہ کو دوبارہ آباد کرنے کے لیے آئیندہ پانچ سال کے عرصہ میں مالی وسائل فراہم کریں گے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کا خیال ہے کہ غزہ کی تعمیر نو کے منصوبہ پر 50 ارب ڈالر سے زائد صرف ہوں گے۔ یہ اخراجات صرف عرب ممالک ہی برداشت کرسکتے ہیں۔ سعودی عرب کی سربراہی میں عرب لیڈر اپنی اس مالی صلاحیت ہی کی بنیاد پر امریکی صدر ٹرمپ کو اس بات پر آمادہ کرنے کے لیے پر امید ہیں کہ وہ امریکی مداخلت پر اصرار کرنے کی بجائے، یہ معاملہ عرب ممالک کے حوالے کردیں ۔ وہ بھی وہی مقصد حاصل کریں گے جو ٹرمپ غزہ پر قبضہ کرکے اور وہاں کے شہریوں کو اس خطے سے نکال کر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اس دوران ایک طرف سعودی عرب غزہ کے بارے میں ٹرمپ کے بیانات پر شدید رد عمل ظاہر کرتا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی گزشتہ چند روز میں ریاض اور واشنگٹن کے درمیان نئی قربتیں دیکھی گئی ہیں۔ ریاض میں امریکی وفد نے روسی وفد سے ملاقات کی ہے اور یوکرین میں جنگ کے خاتمہ کے لیے سرگرمی کا آغاز کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ وہ جلد ہی روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ریاض میں ملیں گے۔ ان سرگرمیوں کی وجہ سے عالمی سفارت کاری میں سعودی عرب کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہوئی ہے اور سعودی میڈیا اسے نمایاں کرنے کی بھرپور کوشش بھی کررہا ہے۔ اس موقع پر کسی سعودی لیڈر یا میڈیا مبصرین کو غزہ کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے انسانیت سوز اور اشتعال انگیز بیانات یاد نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ جمعرات کو سعودی عرب کی سربراہی میں میامی کے مقام پر ایک سرمایہ کاری کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مہمان خصوصی تھے۔ گویا سعودی عرب اور امریکہ کی حکومتیں عالمی سفارت کاری اور مالی تعاون میں فروغ کے منصوبوں پر مل کر کام کرنے کا واضح اعلان کررہے ہیں اور خوش دلی سے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام رہے ہیں۔ یہ رویہ کسی ایسے ملک کا نہیں ہوسکتا جو ایک طرف امریکہ کے غزہ منصوبہ پر دکھی اور پریشان ہو لیکن دوسری طرف امریکہ کے عالمی ایجنڈے اور قومی سرمایہ کاری منصوبہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے پر آمادہ ہو۔
جمعہ کو ریاض میں ہونے والی سربراہی ملاقات میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، اردن کے شاہ عبداللہ دوئم، مصر کے صدر عبدلا لفتح السیسی، قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی، متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زیاد النیہان، کویت کے امیر شیخ میشال الاحمد الصباح اور بحرین کے ولی عہد سلمان بن حماد الخلیفہ شامل تھے۔ اس ملاقات میں غزہ سے حماس کے نمائیندے تو دور کی بات ہے، مغربی کنارے پر انتظام سنبھالنے والی فلسطینی اتھارٹی کو مدعو کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔ گویا واشنگٹن کے وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کے ساتھ مل کر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو منصوبہ فلسطینیوں یا عربوں کی رائے لیے بغیر طے کیااور اس کا اعلان کیا تھا، عرب لیڈر وں نے بھی اسی طریقے پر عمل کیا ہے۔
اس ملاقات کا کوئی اعلامیہ سامنے آئے بغیر بھی یہ واضح ہے کہ عرب لیڈروں نے امریکہ کے صدر کو دو نکاتی پیغام دینے کی کوشش کی ہے:
1: جو کام آپ کرنا چاہتے ہیں اسے ہمارے حوالے کردیں۔ ہم عرب کا لیبل لگا کر اس کام کو زیادہ خوش اسلوبی سے سرانجام دے سکتے ہیں۔ اس لیے آپ بلاوجہ کیوں اس مشکل میں گرفتار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھ لیں کہ ان سارے مصارف کو عرب ممالک نے ہی برداشت کرنا ہے، اس لیے غزہ پر ’حکومت‘ کرنے یا ملکیت پر ان کا حق فائق ہے۔ باقی جب غزہ کی تعمیر نو شروع ہوگی تو ’منافع‘ میں حصہ کے طور پر امریکی کمپنیوں کو بھی تعمیراتی ٹھیکے دیے جائیں گے تاکہ ہر کسی کو اس کا حق پہنچ سکے۔
2: حماس بلکہ فلسطینیوںکا اس پورے منصوبہ میں کوئی لینا دینا نہیں ہوگا۔ غزہ میں کوئی ایسی حکومت قائم کی جائے گی جو باقی عرب ممالک کی طرح شخصی حکمرانی کے اصول پر کام کرے گی ۔ اگر یہ تجاویز سب مان لیتے ہیں تو ابھی تو پانچ دس سال تعمیر اور آباد کاری کے کام میں صرف ہوجائیں گے جس دوران نام نہاد ٹیکنوکریٹ حکومت کے تحٹ عبوری نظام نافذ رہے گا۔ پانچ دس سال بعد اگر غزہ کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے ’انتخابات‘ کی نوبت آگئی تو اس وقت تک غزہ کے فلسطینیوں کے زخم مندمل ہوچکے ہوں گے۔ وہ نام نہاد خوشحالی کے مزے چکھ رہے ہوں گے اور ایک نسل تبدیل ہوچکی ہوگی۔ اس لیے نہ کسی کو حماس یاد رہے گی اور نہ ہی احتجاج کا طریقہ۔
متبادل عرب منصوبے اور ٹرمپ کے غزہ منصوبے میں صرف ایک فرق ہے۔ ٹرمپ غزہ پر قبضہ کرنے کی انتہاپسندانہ بات ضرور کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی غزہ کے شہریوں کو ہمسایہ ممالک میں اچھے گھر اور زندگی فراہم کرنے کا وعدہ بھی کرتے ہیں۔ اس کے برعکس عرب منصوبہ میں غزہ کے شہریوں کو علاقہ بدر کرنے کی بات نہیں کی گئی بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ وہاں کے باشندوں کونکالے بغیر غزہ کی تعمیر نو کی جاسکتی ہے۔ لیکن اس منصوبہ کی جو بھی تفصیلات سامنے آئی ہیں، اس میں شہریوں کو گھر فراہم کرنے اور آباد کرنے کا کوئی پہلو پیش نہیں کیا گیا ۔بلکہ غزہ کو ویسا ہی کمرشل علاقہ اور رئیل اسٹیٹ کے طور پر ترقی دینے کی بات کی گئی ہے جس کی بات ٹرمپ واضح اور دو ٹوک الفاظ میں کررہے ہیں۔ ابھی یہ بھی واضح نہیں ہے کہ عربوں کے کثیر سرمایے سے آباد کیے جانے والے غزہ میں املاک کی تقسیم ’سرمایہ کاری‘ کی شرح کے مطابق ہوگی یا اس کا فیصلہ امریکی حکومت پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ انصاف سے جسے جو چاہےعنایت کردے۔ یہ بات البتہ واضح ہے کہ عرب منصوبہ پر عمل درآمد کی صورت میں غزہ کے شہریوں کو پناہ گزین کیمپوں ہی میں جگہ ملے گی اور تعمیراتی منصوبوں میں حصہ داری کی بجائے انہیں مزدوری کا موقع دیا جائے گا۔
ٹرمپ غزہ جبری نقل مکانی سے خالی کراکے اسے ایک اعلیٰ رئیل اسٹیٹ میں تبدیل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ جبکہ اب عرب لیڈر انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان باشندوں پر ذبردستی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تعمیراتی منصوبوں پر عمل درآمد کے دوران ایک جگہ سے دوسری جگہ دھکیلے جانے کی صعوبتوں سے تنگ آکر نسل در نسل مصائب کا سامنا کرنے والے فلسطینی خود ہی معاشی امکانات کے لیے دوسرے ملکوں کا رخ کرنے لگیں گے۔ امیر عرب ممالک ایسے موقع پر نجی کمپنیوں کے ذریعے ان مجبور لوگوں کو اپنے ملکوں میں کا م کی پیش کش بھی کرسکتے ہیں۔ یوں یہ شہری خود ہی غزہ چھوڑنے اور آزادی کی جد و جہد سے توبہ کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
دیکھا جاسکتا ہے کہ اس دوران ٹرمپ کے غزہ پلان کو عرب ملکوں نے مسترد ضرور کیا تھا لیکن کہیں سے دو ریاستی حل کے مسلمہ اصول پر زور نہیں دیا گیا جس کے تحت اسرائیل کے ساتھ فلسطین کی ریاست بھی قائم ہوگی۔ کسی عرب دارالحکومت نے یہ سوال بھی نہیں اٹھایا کہ جس ملک یعنی اسرائیل نے ڈیڑھ سال کی وحشیانہ جنگ جوئی میں اس علاقے کو جان بوجھ کر تباہ کیا ہے، مستقبل میں اس کی بحالی، تعمیرو ترقی میں اس کا حصہ کیا ہوگا؟ عرب ممالک بس امریکہ سے دوستی و مہربانی کے خواہاں ہیں اور اس کے عوض کوئی بھی خدمت انجام دینے پر آمادہ ہیں۔ اب یہ خدمت غزہ کے لیے عرب پلان کے طور پر سامنے آنے والی ہے۔ خبروں کے مطابق اس منصوبہ کو چند دنوں میں حتمی شکل دینے کے بعد4 مارچ کو قاہرہ میں منعقد ہونے والے عرب لیگ کے اجلاس میں پیش کرکے اس پر ’عرب اتفاق رائے‘ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کے بعد اسرائیل اور امریکہ کی خوشنودی سے اس منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز ہوگا۔
منصوبہ کے مطابق غزہ کے معاملات میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ اسے اپنے ہتھیار تلف کرکے علاقہ چھوڑنا پڑے گا۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ عرب ممالک یہ مقصد کیسے حاصل کریں گے۔ یعنی حماس سے بات کیے بغیر اور غزہ کے مستقبل کے حوالے سے وہاں کے ’حکمران‘ گروہ کو ساتھ ملائے بغیر کیسے اسے معاملات سے دست بردار ہونے پر مجبور کیا جائے گا۔ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل کے خلاف دہشتگردی کی کارروائی اور اس کے بعد طویل مزاحمت کے دوران حماس ہی نہیں لبنان میں حزب اللہ اور تہران حکومت کافی حد تک فلسطینیوں کے معاملات میں بے دست و پا ہوچکی ہے۔ رہی سہی کسر شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے سے پوری ہوگئی۔ امریکہ و اسرائیل کے علاوہ عرب لیڈر بھی اس صورت حال کو غزہ اور فلسطینی علاقوں میں اپنی مرضی کا انتظام مسلط کرنے کے سنہری موقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
یہ امکان موجود ہے کہ درپردہ طور سے حماس کے نمایاں لیڈروں سے معاملات طے کرکے رہی سہی مزاحمت کو سمیٹنے پر آمادہ کرلیا جائے۔ اس کے بعد غزہ کے شہریوں میں خواہ کتنا ہی غصہ و غم ہو وہ حالات کے رحم و کرم پر ہی ہوں گے۔ تاہم دیکھنا ہوگا کہ اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے غزہ کو ’محفوظ‘ بنانے اور سکیورٹی کا انتظام سنبھالنے کا مقصد کیسے پورا ہوگااور اسرائیل کے علاوہ کون سی فوج غزہ کے شہریوں کا استحصال کرنے کے لیے متعین کی جائے گی۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ