پاکستان کے بعد اب بھارت میں بھی قومی انتخابات مکمل ہوچکے ہیں۔ نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی نہ تو اپنی خواہش کے مطابق لوک سبھا میں چار سو سے زیادہ سیٹیں حاصل کر سکی ہے اور نہ ہی وہ ایوان میں تن تنہا اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اگرچہ نریندر مودی نے عوام کے بھروسے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تیسری بار وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالا ہے لیکن انہیں اس بار چھوٹی اتحادی پارٹیوں کے رحم و کرم پر حکومت کرنا پڑے گی جو اختلاف کی صورت میں ٹوٹ بھی سکتی ہے۔
اسی طرح تمام اندازوں، جائزوں اور توقعات کے برعکس کانگرس کی قیادت میں قائم ہونے والے سیاسی اتحاد ’انڈیا‘ نے توقع سے بڑھ کر کامیابی حاصل کی ہے۔ اگرچہ یہ اتحاد حکومت بنانے کے قابل نہیں ہوا لیکن لوک سبھا میں بھاری بھر کم موجودگی کی وجہ سے وہ ہر وقت حکمران جماعت کے لیے چیلنج بنا رہے گا اور اسے پہلے کی طرح من مانی کا موقع نہیں ملے گا۔ یہ انتخابات بظاہر نریندر مودی یا بھارتیہ جنتا پارٹی کی ناکامی تو نہیں ہیں کیوں کہ اکثریت حاصل نہ کرنے کے باوجود چند چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ مل کر بی جے پی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ لیکن یہ انتخابی نتائج بہر حال ہندو انتہا پسندی کی ناکامی ہیں اور بھارتی عوام کی طرف سے یہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں مذہب کی مداخلت نہیں چاہتے اور ملک کا سیکولر آئین تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
بھارتی انتخابات کو اگر ان دو پہلوؤں سے پرکھنے کی کوشش کی جائے تو یہ نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی شدید ناکامی ہے۔ دو ماہ کے انتخابی دورانیے میں نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں نے ہندو انتہاپسندی پر مبنی نعروں کو سیاسی مہم جوئی کی بنیاد بنایا۔ نریندر مودی کا خیال تھا کہ ہندو جذبات کو ابھار کر اور مسلمانوں کو ہندوستان کے بیشتر مسائل کا ذمہ دار قرار دے کر وہ ایسا انتہاپسندانہ جذباتی ماحول پیدا کر دیں گے جس میں ہندو ووٹر بلا جھجک صرف بھارتیہ جنتا پارٹی ہی کو ووٹ دے گا۔ اسی لیے انتخابی مہم کا آغاز کرنے سے پہلے ہی جنوری کے دوران میں ایودھیا میں رام مندر کا شاندار افتتاح کیا گیا اور اسے ہندوؤں کی فتح کے مترادف قرار دیا گیا کیوں کہ یہ مندر اسی جگہ پر تعمیر کیا گیا ہے جہاں مغل بادشاہ بابر کے زمانے میں تعمیر کی گئی بابری مسجد ساڑھے چار سو سال سے زیادہ مدت تک موجود رہی تھی۔ تاہم ہندو انتہا پسندوں نے 1992 میں ایک پرتشدد مظاہرہ کے ذریعے اسے شہید کر دیا تھا۔ البتہ بھارتی سپریم کورٹ نے طویل عدالتی جنگ کے بعد 2019 میں اس جگہ پر ہندوؤں کا دعویٰ درست مانتے ہوئے وہاں مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ مودی حکومت نے اسے ہندو مذہب و ثقافت کی کامیابی قرار دیتے ہوئے یہاں عالیشان رام مندر تعمیر کرایا اور اس سال جنوری میں دھوم دھام سے اس کا افتتاح کر کے اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا۔
البتہ نریندر مودی کے یہ تمام ہتھکنڈے اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی، سیاسی طور پر ان کے کام نہیں آ سکی۔ اور ان کی پارٹی لوک سبھا میں اکثریت سے محروم ہو گئی۔ تجزیہ نگار اس وقوعہ پر مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ البتہ بنیادی طور سے دو وجوہات اہم سمجھی جا رہی ہیں۔ ایک یہ کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے چار سو سے زیادہ سیٹیں جیتنے کے لیے مہم چلائی اور کامیابی کی صورت میں بھارت کے سیکولر آئین کو تبدیل کر کے ہندوستان کو ہندو دیش بنانے کا عہد کیا۔ دوئم: اگرچہ نریندر مودی کے دور حکومت میں بھارتی معیشت نے ترقی کی اور کورونا وبا کے باوجود وہاں پیداواری شرح 7 فیصد تک رہی لیکن عام طور سے قیاس کیا جا رہا ہے کہ یہ معاشی ترقی ملک کے غریب طبقات کو سہولت فراہم نہیں کر سکی۔ اور نہ ہی ان کے حالات کار بہتر ہو سکے۔ انتخابات سے پہلے اور دوران میں بھارت جانے والے غیر ملکی سیاحوں کا یہی کہنا ہے کہ عام شہری اپنی اقتصادی مشکلات کا ذکر کرتا ہے اور اس کا پیغام واضح ہے کہ بھارت کو ہندو ریاست بنانے سے زیادہ ضروری ہے کہ عام شہریوں کی سہولتوں میں اضافہ کیا جائے۔ یہ دو عوامل مل کر نریندر مودی کی سیاسی ہزیمت کا سبب بنے ہیں۔
تاہم اس بحث کا مقصد نریندر مودی کی حکمت عملی اور سیاسی مستقبل کا جائزہ لینے کی بجائے یہ دیکھنا ہے کہ کیسے ہندوستان کے ووٹروں نے بیلٹ پیپر کی طاقت سے ایک ایسی پارٹی کو راہ راست پر رہنے کا پیغام دیا ہے جو اپنے تئیں نظام اور میڈیا پر قابض ہو کر باقی تمام سیاسی آوازوں کو دبا دینے کے مشن پر گامزن تھی۔ بھارتی انتخابی نتائج سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ عوامی شعور بہر حال درست ہوتا ہے اور اگر اسے مناسب اظہار کا منصفانہ موقع دیا جائے تو وہ ہمیشہ صحیح فیصلے کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے کسی بھی ملک میں مسائل کے حل کا راستہ دکھاتا ہے۔ اگر بھارتی ووٹر حالیہ انتخابات میں نریندر مودی کی ہندو انتہا پسندی کے خلاف ووٹ نہ دیتے تو بھارت میں فروغ پانے والی ہندو انتہاپسندی بے لگام ہوجاتی اور مختلف ہندو شدت پسند گروہ اقلیتی عقائد کے لوگوں کا جینا حرام کر دیتے۔ بھارت کے عوام نے اس صورت حال کی سنگینی کو نوٹ کیا اور نریندر مودی کی کامل جیت کا راستہ روک لیا۔
بھارت میں منعقد ہونے والے انتخابات کے بعد یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ الزامات سے بھرپور انتخابی مہم کے باوجود نتائج سامنے آنے کے بعد کسی طرف سے دھاندلی یا جعل سازی کی کوئی شکایت نہیں کی گئی۔ حالانکہ انتخابی مہم کے دوران میں الیکشن کمیشن کی جانبداری کے بارے میں اندیشے سامنے آئے تھے اور سیاسی مخالفین کو گرفتار کر کے سراسیمگی کا ماحول پیدا کیا گیا تھا۔ لیکن ملک کے ووٹر ان ہتھکنڈوں سے خوفزدہ نہیں ہوئے بلکہ اکثریت نے حکمران جماعت کو سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد سب پارٹیوں و گروہوں نے ان نتائج کو خوش دلی سے قبول کیا اور نریندر مودی اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر تیسری بار وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہو گئے۔
اس کے برعکس پاکستان میں بھی بھارتی انتخابات سے ذرا پہلے انتخابات منعقد ہوئے تھے۔ 8 فروری کو منعقد ہونے والے ان انتخابات سے کوئی بھی مطمئن نہیں ہے۔ حکومت سنبھالنے والی سیاسی پارٹیوں کے سوا کوئی ان انتخابات کو شفاف یا غیر جانبدارانہ نہیں مانتا۔ میڈیا اور سوشل مباحثوں میں دھاندلی اور نتائج تبدیل کرنے کی ایسی ایسی مثالیں دی جاتی ہیں کہ عام شخص سر پکڑ کر رہ جاتا ہے۔ یہ قیاس کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ۔ انتخابات سے پہلے اور بعد میں الیکشن کمیشن ہی نہیں بلکہ اعلیٰ عدالتوں پر بھی الزام تراشی کی گئی اور انتخابات کے بعد تو شکایات اور شکوؤں کے سارے بند ہی ٹوٹ گئے۔
ملک کی سب سے بڑی پارٹی کا اصرار ہے کہ یہ دھاندلی زدہ انتخابات تھے اور اس کی واضح اکثریت کو جان بوجھ کر اور دھاندلی کے ذریعے اقلیت میں تبدیل کیا گیا تاکہ اسے حکومت سازی اور اصلاحات کا موقع نہ ملے۔ اب ایک بڑا سیاسی گروہ اور اس کی ہاں میں ہاں ملانے والے متعدد چھوٹے دھڑے موجودہ حکومتی انتظام کو ناجائز اور جعلی قرار دے کر مسترد کرتے ہیں اور حکومت کی اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہیں۔ دوسری طرف شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت مشکل معاشی فیصلے کرنے میں مشغول ہے لیکن اپنے وجود پر اٹھنے والے سوالوں کا مناسب جواب دینے، دھاندلی کی تحقیقات کروانے یا انتخابی ٹریبونلز کا تنازعہ ختم کر کے روشنی کی کرن دکھانے کا کوئی اقدام کرنے سے گریز کر رہی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک میں مسلسل سیاسی بے یقینی اور عدم اعتماد کی کیفیت ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ کب تک یہ نظام کام کرے گا۔
اس کے برعکس بھارت میں نریندر مودی سیاسی شکست کے باوجود، حکومت بنانے اور ملک کی قیادت کرنے میں کامیاب ہیں اور کوئی ان کی اتھارٹی کو چیلنج نہیں کرتا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنایا گیا۔ دوسری طرف شدید اختلافات کے باوجود کسی سیاسی پارٹی نے انتخابات کو مشکوک بنانے کی کوشش نہیں کی۔ کیوں کہ وہاں کے سیاسی لیڈر جانتے ہیں کہ ملک میں پارلیمانی جمہوری نظام اسی صورت میں کام کرے گا اگر سب اس میں حصہ دار ہوں گے اور عوام کی رائے کا احترام کیا جائے گا۔ اس بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے سے ملک عدم استحکام کا شکار ہو گا اور معاشی ترقی کا خواب چکنا چور ہو سکتا ہے۔ ایسی افراتفری میں کثیر آبادی والے ملک کی حکومت کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا جس کا حتمی نقصان بھارت کے مفادات کو پہنچے گا۔ جبکہ ملک کا فائدہ مل جل کر نظام کو کامیاب بنانے میں ہی ہے۔ اس لیے بھارت کے لیڈر تمام تر تلخیوں کے باوجود اس ایک نکتہ پر متفق دکھائی دیتے ہیں۔ اسی لیے وہاں حکومت سازی کا تسلسل کوئی مسئلہ نہیں بنتا۔
اس کے برعکس پاکستان میں اول تو انتخابی نتائج ماننے کی روایت ہی قائم نہیں ہو سکی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک میں انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدارانہ طور سے منعقد کروانے کی کوئی مثبت اور صحت مند روایت قائم نہیں ہوئی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ کوئی انتخاب ہو، ہارنے والے دھاندلی کا شور مچاتے ہیں جبکہ جیتنے والے انہیں درست قرار دے کر بہر صورت اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے بداعتمادی اور بے یقینی کے ماحول میں حکومت کی صلاحیت اور اتھارٹی مسلسل شبہ کا شکار رہتی ہے۔ اس صورت حال میں اس عنصر نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے کہ ملک کے سیاسی گروہ باری باری اقتدار میں آنے کے لیے عوام پر اعتبار کرنے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی کو زیادہ قابل بھروسا سمجھتے ہیں۔ اب بھی شہباز شریف عہدے سے چمٹے رہنے کے لیے آرمی چیف کو خوش رکھنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جبکہ عمران خان انہیں بے توقیر کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے ’براہ راست مذاکرات‘ کی خواہش کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
بھارت کے تجربے سے سیکھا جاسکتا کہ اگر عوام کی رائے پر اعتبار کیا جائے اور شفاف انتخابی عمل میں انہیں فیصلے کرنے دیے جائیں تو وہ درست راستے کی طرف رہنمائی کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر انہیں ووٹ کا حق استعمال کرنے کا موقع ہی نہیں ملے گا اور اسے چوری کرنے کے ہتھکنڈے استعمال ہوں گے تو عوام کو دوش دینا جائز نہیں۔ اگر بھارت کے شہری ایک مشکل اور انتہائی پیچیدہ سیاسی ماحول میں درست نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں اور نریندر مودی کے پر کاٹنے اور سیکولر آئین کی حفاظت کے لیے ووٹ دے کر اپنے ملک کو بہتر راستے پر گامزن کر سکتے ہیں تو پاکستان کا ووٹر بھی یقیناً ایسا فیصلہ کرنے کی صلاحیت و شعور رکھتا ہے۔
پاکستان کو اس وقت جس بے یقینی اور پریشان حالی کا سامنا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ملکی نظام کے نام نہاد ’نگہبان‘ عوام کے شعور کو ماننے پر راضی نہیں ہیں جس کی وجہ سے ایک مشکل سے نجات پاتے ہوئے درجنوں نئی الجھنیں پیدا کرلی جاتی ہیں۔ دونوں ہمسایہ ملکوں میں انتخابات سے یہی سبق سامنے آتا ہے کہ عوام کی رائے کو مسترد کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ ان میں اضافہ ہوتا ہے۔
(بشکریہ:ہم سب )
فیس بک کمینٹ