برادرم یاسر پیرزادہ کی طرح درویش نے بھی ارادہ باندھا تھا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے فرمودات کو نظر انداز ہی کیا جائے۔ ہمارا ملک بہت سے پیچیدہ سیاسی اور معاشی مسائل سے دوچار ہے۔ آئین میں ترمیم بظاہر پارلیمنٹ کا اختیار ہے لیکن ہمارے تاریخی تناظر بالخصوص حالیہ سیاسی بندوبست میں مجوزہ آئینی ترمیم مختلف آئینی اداروں میں توازن بحال کرنے کی کوشش ہی نہیں، سیاسی قیادت کے تدبر کا امتحان بھی ہے۔ یہ ایک اتحادی حکومت ہے جسے پارلیمنٹ میں متنازع مگر طاقتور حزب اختلاف کا سامنا ہے۔ پارلیمنٹ سے باہر بھی عوامی سطح پر سیاسی بے چینی بہرصورت موجود ہے۔ معیشت میں کچھ بہتری کے آثار نمودار ہوئے ہیں لیکن سیاسی استحکام کے بغیر معاشی ترقی میں تسلسل کی ضمانت دینا آسان نہیں۔ ایسے میں قومی اسمبلی اور ایوان بالا میں دو تہائی اکثریت سے اس طرح آئینی ترمیم منظور کروانا کہ اس میں ریاستی زور آوری کا تاثر پیدا نہ ہو، کارِ دارد معلوم ہوتا ہے۔ ان حالات میں نامعلوم کس عبقری نے مذہبی خطیب ذاکر نائیک کو پاکستان کے طویل دورے کی دعوت دی ہے۔ ذاکر نائیک صاحب اب سے کچھ عرصہ قبل بھارت میں اپنی ٹیلی ویژن تقریروں کی مدد سے مقبول ہوئے تھے۔ مختلف مذاہب کی مقدس کتب اور تعلیمات میں تقابل کی مدد سے اپنے عقائد کی تبلیغ ذاکر نائیک صاحب کا تخصص ٹھہرا۔ میں اسے تقابل ادیان قرار دینے میں مشکل محسوس کرتا ہوں۔ تقابل ادیان ایک سنجیدہ علمی مشق ہے جس میں مختلف مذاہب کی تعلیمات اور تاریخی ارتقا کی مدد سے انسانی عقائد کے تنوع نیز مشترک نکات پر غور و فکر کیا جاتا ہے۔ تقابل ادیان کے مستند علما کے ہاں تمام مذاہب اور ان کے پیروکاروں کا احترام ایک بنیادی جزو رہا ہے۔ اس کے بالمقابل مناظرے کی صدیوں پرانی روایت بھی موجود ہے جس میں مذہبی درس گاہوں میں تعلیم پانے والے پیشوائوں کو مخالف مذہبی عقائد اور روایات کی تغلیط کے دائو پیچ سکھائے جاتے تھے۔ یورپ میں اصلاح مذہب کی تحریک کے دوران اس شعبے کو خاص اہمیت دی جاتی تھی۔ خود ہمارے خطے میں انیسویں صدی میں مسیحی پادریوں کی آمد نیز مذہبی طور پر غیر جانب دار نو آبادیاتی حکومت قائم ہونے کے بعد ہندو مسلم پیشوائوں میں مناظرے کی روایت نے زور پکڑا۔
روایتی طور پر ہندوستان میں مسلم عقائد کی تبلیغ کرنے والے صوفیائے کرام نے رواداری اور باہم احترام کی مدد سے اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔ اسی ہندوستان میں بھگت کبیر کی روایت بھی موجود رہی ہے۔ پنجاب میں سکھ اور مسلم علما میں رواداری کا یہ عالم رہا ہے کہ متعدد سکھ عبادت گاہوں کی تعمیر میں مسلم صوفیا شامل رہے ہیں۔ امرتسر کے گوردوارہ ہرمندر صاحب کی بنیاد میاں میر نے 1588ء میں رکھی تھی۔ سندھ میں امرکوٹ کے مندر نیز خیرپور اور بھٹ شاہ میں مسلم صوفیا کی درگاہیں مذہب و ملت کے امتیاز کے بغیر انسانی رواداری کا نشان رہی ہیں۔ اس کے برعکس مناظرے نے مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں تلخی اور مخاصمت کو جنم دیا۔ مولانا رزاق ملیح آبادی نے مولانا محی الدین ابوالکلام آزاد کی ابتدائی عمر کے جو سوانح لکھے ہیں ان میں مناظرے کی ثقافت کا سبق آموز نقشہ کھینچا گیا ہے۔ ذاکر نائیک صاحب کے طرز خطابت سے ایسا ہی نتیجہ نکلنا ناگزیر تھا۔ انہیں ہندوستان سے نکل کر ملائیشیا میں پناہ لینا پڑی۔ برطانیہ اور بنگلہ دیش سمیت خود ملائیشیا کی متعدد ریاستوں میں ان کے ٹیلی ویژن چینل پر پابندیاں عائد ہیں۔ ان پر کچھ مالی الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں جن کی غیر جانب دار تصدیق یا تردید ممکن نہیں۔ پاکستان میں ذاکر صاحب کے بہت سے مداح موجود ہیں لیکن انہوں نے پاکستان میں بہت سے ایسے موضوعات پر خیال آرائی کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مزاج میں خود سے اختلاف رائے رکھنے والوں کے لیے حساسیت کی کمی ہے اور غالباً وہ پاکستان کے معاشرتی تار و پود سے بھی کچھ زیادہ واقفیت نہیں رکھتے۔ راولپنڈی کی بچیوں سے لے کر خواتین اینکروں تک ذاکر نائیک صاحب نے جو بیانات دیے نیز عورت کی حکمرانی کے بارے میں جو رائے دی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ 59سالہ ذاکر نائیک شاید نہیں جانتے کہ وہ جس برس میں پیدا ہوئے تھے اس برس پاکستان کی ایک قابل احترام بزرگ خاتون ڈکٹیٹر کے مقابلے میں انتخاب لڑ رہی تھیں۔ ذاکر صاحب سے ایسے سیاسی شعور کی توقع اس لیے بھی محال ہے کہ انہوں نے پاکستان میں یہ بھی کہا کہ ’اگر ڈکٹیٹر قرآن اور حدیث پر عمل کرتا ہے تو آمریت میں کوئی قباحت نہیں‘۔ اب ذاکر نائیک کو کون بتائے کہ آمریت انسانوں پر فرد واحد کی مطلق العنان حکمرانی کا نام ہے۔ آمر سے قرآن اور حدیث پر عمل کرنے کی توقع ہی سادہ لوحی ہے۔ پاکستان میں آمریت کی مزاحمت کی قابل فخر روایت موجود رہی ہے۔ پاکستان میں جمہوری نظام حکومت پر اتفاق پایا جاتا ہے۔ ذاکر نائیک آداب مہمانی کا یہ بنیادی اصول نہیں جانتے کہ میزبان ملک کے سیاسی بندوبست پر رائے زنی نہیں کی جاتی۔
ذاکر صاحب نے سندھ کے گورنر ہائوس میں فرمایا کہ ’پاکستان اسلام کے نام پر بنا۔ یہاں قرآن کا قانون ہونا چاہیے‘۔ ذاکر نائیک نہیں جانتے کہ پاکستان کا ایک تحریری آئین ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اس ملک میں قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ ذاکر نائیک بتائیں کہ پاکستان کا کونسا قانون قرآن و سنت کے منافی ہے؟ انہیں جاننا چاہیے کہ پاکستان کے دستور میں شق 25کے تحت تمام شہریوں کو مساوی درجہ دیا گیا ہے۔ اسی دستور کی شق 20میں ہر شہری کو عقیدے کی آزادی کا حق دیا گیا ہے۔ عقیدہ انفرادی ضمیر سے تعلق رکھتا ہے۔ انسانوں میں عقائد کا تنوع ناگزیر ہے۔ پاکستان کے دستور میں مختلف آئینی اداروں میں باہم جواب دہی نیز وفاقی اکائیوں کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ پاکستان میں مختلف سیاسی رائے رکھنے والے شہریوں میں باہم احترام کی روایت مضبوط ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی معلومات، اچھی یادداشت اور برجستہ مکالمے کی عکاس تو ہو سکتی ہیں لیکن مذہبی اور سیاسی امور میں ذاکر نائیک صاحب کا علم سند کا درجہ نہیں رکھتا۔ انہیں انسانوں کو اپنے دین کی دعوت دینے کا حق ہے لیکن انہیں پاکستان کے سیاسی، قانونی اور معاشرتی معاملات میں دخل اندازی سے گریز کرنا چاہئے۔
26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے سب سے بڑی گرہ یہ ہے کہ حکومت ایک ہفتہ بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ترمیم منظور کرانا چاہتی ہے جبکہ تحریک انصاف کی خواہش ہے کہ یہ ترمیم 27 اکتوبر کو جسٹس منصور علی شاہ کے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد منظور ہو تاکہ ایک ایسا جج سپریم کورٹ کا سربراہ بن جائے جن کے بارے میں گمان کیا جارہا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے ’حامی‘ ہیں۔ اس آئینی ترمیم میں ججوں کی عمر کے علاوہ چیف جسٹس کی تقرری کا موجودہ طریقہ کار تبدیل کرنے کا امکان ہے۔ اس وقت چیف جسٹس عمر پوری ہونے پر سبکدوش ہوجاتا ہے اور سب سے سینئر جج نیا چیف جسٹس بنتا ہے۔ حکومت کی نیک نیتی پر شبہ کی وجہ یہ بھی ہے کہ ابھی تک جسٹس منصور علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تقرری کا نوٹی فکیشن جاری نہیں ہؤا۔ حکومت کا خیال ہوگا کہ اگر آئینی ترمیم میں وزیر اعظم یا پارلیمانی کمیٹی کو نیا چیف جسٹس مقرر کرنے کا اختیار مل جائے تو وہ اپنا پسندیدہ جج اس عہدے پر تعینات کریں۔ حکومت کے اسی غیر واضح طریقہ کار اور خفیہ ایجنڈے کے حوالے سے شبہات کی وجہ سے سیاسی اختلاف بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔
ارکان پارلیمنٹ پر دباؤ کی خبروں پر بھی سیاسی رد عمل میں شدت کی یہی وجہ ہے کہ حکومت تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو اس ترمیم پر اپنی حمایت میں ووٹ دینے پر آمادہ کرنا چاہتی ہے۔ تاکہ جمیعت علمائے اسلام (ف) کے تعاون کے بغیر ہی ترمیم منظور کرا لی جائے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے آئینی شق 63 اے کی وضاحت پر نظر ثانی کی اپیل منظور ہونے کے بعد حکومت کے لیے یہ حمایت حاصل کرنا آسان ہوگیا ہے۔ لیکن دوسری طرف مولانا کو اگر اپنی اہمیت کم ہوتی دکھائی دے گی تو وہ حکومتی منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے۔ اتفاق رائے کے بعد گزشتہ شب مولانا کا تبدیل شدہ لب و لہجہ ان کے اسی غصہ کا اظہار ہے۔
عام طور سے قیاس کیا جاتا رہا ہے کہ حکومت ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کرکے موجودہ چیف جسٹس کو بدستور اس عہدے پر فائز دیکھنا چاہتی ہے۔ تاہم گزشتہ دنوں ہونے والی سیاسی کھینچا تانی سے یہ دکھائی دینے لگا ہے کہ حکومت شاید اس مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ قاضی فائز عیسیٰ شاید 26 اکتوبر کو ریٹائر ہوجائیں۔ سپریم کورٹ میں ان کے لیے الوداعی ریفرنس کا بھی اعلان کیا جاچکا ہے۔ اب حکومت کو نئی آئینی کورٹ یا بنچ کی ساخت اور نئے چیف جسٹس کی تقری کے حوالے سے اختیار حاصل کرنے کی جلدی ہے۔ اسی عجلت میں متعدد ایسے اقدامات دیکھنے میں آئے ہیں جس سے سارا کام خراب ہونے کا امکان پیدا ہوجاتا ہے۔ لگتا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم حکومت کے حلق کا کانٹا بن چکی ہے جو نہ نگلا جارہا ہے اور نہ ہی اگلنے کی نوبت آتی ہے۔ شہباز شریف کی حکومت اگر ایک بار پھر پارلیمنٹ کے موجودہ اجلاس سے آئینی ترمیم منظور کرانے میں ناکام رہی تو یہ حکومت کی وقعت اور اتھارٹی کے لیے شدید نقصان دہ ہوگا لیکن موجودہ حکومت نے اپنے لیے یہ حالات خود پیدا کئے ہیں۔ وہ اس بارے میں کسی دوسرے کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتی۔
اگر آئینی ترمیم کا مسودہ کسی مقدس دستاویز کی طرح خفیہ رکھنے کی بجائے عام مباحثہ کے لیے پیش کیا جاتا اور حکومتی ترجمان سپریم کورٹ کو زیر اثر لانے کے لیے غیر ضروری بیان بازی نہ کرتے تو شاید عدالتی اصلاحات کی ترمیم کسی بڑے اختلاف کے بغیرمنظور ہوسکتی تھی۔ البتہ اب یہ معاملہ بدستور معلق ہے اور اسی کے ساتھ حکومت کا وقار داؤ پر لگا ہے۔ یہ پہلی حکومت ہوگی جو پارلیمنٹ میں اکثریت کی حامل ہونے کے باوجود خود اپنی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے خفت و شرمندگی کا سامناکرے گی۔
(بشکریہ::روزنامہ جنگ)