گزشتہ دنوں شعبہ اردو زکریا یونیورسٹی کے اولڈ سٹوڈنٹس کی تقریب منعقد ہوئی۔ بہت سے دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ مظہر مہے، ملک مجید، شوکت نعیم، راشدہ قاضی، نبیلہ عصمت، مبینہ عصیم، ظفر زیدی، اور بہت سے سینئر اور جونئیر دوست ملے۔ ربع صدی گزرنے کے بعد وقت نے ہمارے چہروں ہر کئی نقوش چھوڑے ہیں جن کی تحریروں کو پڑھنے بیٹھیں تو ایک داستان مرتب ہو جائے۔ کچھ دوست شرکت نہیں کر سکے جن کو ہم دوستوں نے مل کر یاد کیا۔ یہ ایک یادگار تقریب تھی۔ اس تقریب میں آخری خطاب استاد محترم ڈاکٹر انوار احمد کا تھا۔ نجانے کیوں وہ اپنے خطاب میں کچھ کچھ اداس نظر آئے۔ میں نے انہیں کبھی مایوس نہیں دیکھا۔ وہ ہمیشہ اپنے شاگردوں کو خواب دیکھنے اور ان کی تعبیر تلاش کرنے کا درس دیتے رہے۔ وہ بلاشبہ ایک بے مثال استاد اور زندگی سے لبریز ثمر آور انسان ہیں۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ میری زندگی پر ان کی گفتگو اور موجودگی کا ہمیشہ اثر رہا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ آج میں تھوڑا بہت جو کچھ بھی ہوں اس میں ان کا بڑا نمایاں حصہ ہے۔ میرے پاس ان سے محبت نہ کر سکنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ میں غرض مند عقیدت کی بجائے ان سے پر خلوص محبت کا دعویٰ دار ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں ان سے اپنے طور پر غصے، ناراضی اور کچھ کچھ بدگمانی کا شکار رہا مگر یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ انہوں نے کبھی اپنی محبت خلوص اور دوستی میں فرق نہیں آنے دیا۔ پتہ نہیں کیوں میں نے ان سے پوچھے بغیر یہ اپنا حق سمجھ لیا ہے کہ میں تو ان سے خفا ہو سکتا ہوں مگر کسی کو ان کے بارے میں کچھ کہنے کا کوئی حق نہیں۔ یقیناً یہ مضحکہ خیز بات ہے مگر ہے۔ ایک لمحے کے لئے میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر انوار صاحب میری زندگی میں نہ آئے ہوتے تو میں کہاں ہوتا۔ اس کا جواب یہی ہے کہ میں یقیناً آج سے بہتر نہ ہوتا۔ میرے ساتھ قدرت نے عجیب ماجرا رکھا کہ میری محبت قطبین کا سفر کرنے کا جتن کرتی ہے۔ ایک طرف انوار صاحب اور خالد سعید ہیں تو دوسری طرف ڈاکٹر اکرم چودھری اور علمدار حسین بخاری ہیں۔ یا الہیٰ یہ ماجرا کیا ہے۔ استاد محترم کے بارے میں آج کل بہت لکھا جا رہا ہے۔ ایک بڑے انسان کی طرح انہیں بھی اسی المیے سے گزرنا پڑ رہا ہے کہ ان سے محبت رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ ان کی مخالفت میں لکھنے والے بھی ہیں اور شدت کے ساتھ ہیں۔ مگر دیکھنا صرف یہ ہے کہ ان کی مخالفت علمی سے زیادہ ذاتی اور شخصی تو نہیں؟ میری رائے میں یہ فیصلہ بھی ہو جائے گا اور اس لمحے کی گواہی بھی ان کے حق میں ٹھہرے گی۔ ڈاکٹر انوار احمد صاحب میں اپنے حوالے سے آپ کا ممنون ہوں۔
بہت بہت شکریہ استاد محترم
فیس بک کمینٹ