اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سیاست بہت تیزی سے وراثت میں بدلتی جا رہی ہے اور عوام کی اکثریت اسے بھی کرپشن کی طرح کوئی مسئلہ بھی نہیں سمجھتی بلکہ ایک خاطرخواہ تعداد میں لوگ اس پر یوں خوش ہوتے ہیں جیسے بادشاہی نظام رکھنے والے ممالک کے عوام ولی عہد کے اعلان پہ جشن مناتے ہیں اور ولی عہد کے ساتھ بادشاہ سے بھی کہیں زیادہ انس رکھتے ہیں .
ہم جس خطے میں رہتے ہیں ذرا اس پہ نظر دوڑائیں اور وراثت کی سیاست کے حوالے سے دیکھیں تو برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کے سوا ہمیں یہ کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی ، افغانستان میں ثور انقلاب کے بعد بے شمار نشیب و فراز آئے جنگیں ہوئیں ، اقتدار کے لئے خونی رسہ کشی ہوئی لیکن وراثتی اقتدار کی ان چار دہائیوں میں ایک مثال بھی نہیں ملتی ، ایران میں شہنشاہیت کے خاتمے کے بعد مقید جمہوریت یا کنٹرولڈ ڈیموکریسی رہی ہے لیکن وہاں بھی موروثی اقتدار کی کوئی ایک مثال نہیں ، مشرق کی طرف چلے جائیں تو انڈونیشیا ، ملائشیا ، برما ، مالدیپ وغیرہ میں بھی ایسا کچھ نہیں ملے گا، چین میں کمیونزم اور کمیونوکیپٹلزم دونوں ادوار میں موروثی اقتدار کا کوئی تصور نہیں..
برصغیر میں مضبوط وراثتی سیاست کیا نوآبادیاتی نظام کی دین ہے ؟
برطانوی راج کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ برطانیہ نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے موروثی جاگیرداریاں اور ریاستیں بنائیں ، حالانکہ مغل بادشاہت میں بھی جاگیریں موروثی نہیں ہوتی تھیں جاگیر بادشاہ کی ملکیت ہوتی تھی وہ جاگیردار کی موت کے بعد واپس ہو جاتی تھی بادشاہ بعض اوقات جاگیر کا کچھ حصہ یا پوری جاگیر مرنے والے کے کسی بیٹے کو دے بھی دیتا تھا لیکن عموماً ایسا نہیں ہوتا تھا . بلوچ قبائل میں سردار کا انتخاب سفید ریشوں کی مجلس یا کونسل آف ایلڈرز کرتی تھی اور تمام فیصلے ان کی مشاورت سے ہوتے تھے، انگریزوں نے سرداری کو موروثی کیا اور سرداروں کو وظیفے اور لیویز کی ملازمتیں دیں ،
پٹھانوں میں بھی ملک کی طاقت جرگہ ہوا کرتا تھا جو جمہوری تھا اور جرگہ کثرت رائے سے جو فیصلہ دیتا تھا مَلک اس پہ عملدرآمد کا پابند ہوتا تھا. سو موروثی اقتدار اور سیاست نوآبادیاتی دور کی برکات میں سے ایک ہے ، باپ کے مرنے کے بعد جاگیر ، دولت اور تمام منقولہ اور غیرمنقولہ ملکیت کے ساتھ عہدہ اور سیاسی طاقت بھی اولاد کو منتقل ہونے لگی.
دیکھا جائے تو اس کا صلاحیت سے بھی کوئی لینا دینا نہیں اور نہ ہی تعلیم سے ، اگر ایسا ہوتا تو شاعر کا بیٹا شاعر ، مصور کا بیٹا مصور ، ریاضی دان کا بیٹا ریاضی دان اور تاریخ دان کا بیٹا تاریخ دان ہوتا ، مگر ایسی مثال سینکڑوں ہزاروں میں کوئی ایک آدھ ہی ملتی ہے . اگر صلاحیت موروثی ہوتی تو جاوید اقبال اور منیزہ فیض بہت بڑے شاعر ہوتے ، ڈاکٹر عبدالسلام کا کوئی بیٹا فزکس میں نوبل انعام لے چکا ہوتا.
محترم استاد اللہ بخش زخمی نےاس نکتے پر مجھ سے اختلاف کرتے ہوئے کہا اگر صلاحیت موروثی نہ ہوتی تو سیاسی خاندانوں کی طرح گانے بجانے والوں کے بھی گھرانے نہ ہوتے ، آبائواجداد کی موسیقی کی صلاحیت میراث میں آ سکتی ہے تو سیاست کیوں نہیں .. جبھی تو ہمارے ہاں گانے بجانے والوں کو میراثی کہتے ہیں…
آپ کیا کہتے ہیں ؟
فیس بک کمینٹ