ایرانی صدارتی انتخابات میں حسن روحانی کی کامیابی اور سید ابراہیم رئیسی کی شکست ایک نسبتاً لبرل ملا کی کامیابی اور نسبتاً سخت گیر ملا کی شکست نہیں بلکہ ایک بہت بڑا پیراڈائم شفٹ ہے ، ایران کے 62 فیصد ووٹرز نے حسن روحانی کو ووٹ دے کر ولایت فقیہ کے نظریے کو مسترد کر دیا ہے ، ولی فقیہ اور رہبر آیت اللہ علی خامنہ ای نے سید ابراہیم رئیسی کے حق میں محض جھکاؤ ہی نہیں دکھایا بلکہ باقاعدہ ان کے لئے ووٹ مانگے ، اجتماعات جمعہ ، بیانات اور تقاریر میں سید رئیسی کے حق میں انتخابی مہم چلائی … لیکن ایرانی عوام نے ان کے ادارے کو مسترد کر دیا.
ایرانی عوام جمہوریت پسند ہیں اور مکمل جمہوری نظام چاہتے ہیں اور ان کی جمہوری تحریک رضا شاہ کے والد رضا خان بلکہ اس سے بھی پہلے سے چل رہی ہے ، سید جمال الدین افغانی بھی اس تحریک کا حصہ رہے ہیں ، جمہوریت خواہوں کو پہلے روس نے کچلا پھر ڈاکٹر مصدق کے دور میں امریکہ نے ، 79 کےانقلاب کی جدوجہد میں بھی ترقی پسند جمہوری قوتیں صف اول میں تھیں ، انقلابی جدوجہد کے ایک بڑے روح و رواں ڈاکٹر علی شریعتی کی جدوجہد بھی تھیوکریسی کے لئے نہیں تھی …. حسن روحانی ایران کی تنہائی کے خاتمہ کی بات کرتے ہیں ، بین الاقوامی برادری سے جڑنا چاہتے ہیں اس لئے نوجوان ووٹر ان کے ساتھ ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر شوریٰ نگہبان انتخابی امیدواروں کو محدود نہ کرتی اور ہر شخص کو انتخاب میں حصہ لینے کی آزادی ہوتی تو وہ کسی زیادہ لبرل اور اوپن امیدوار کا انتخاب کرتے ….
بہرحال اسلامی جمہوریہ ایران ایک بہت بڑی تبدیلی کے دہانے پر کھڑا ہے ، خدا کرے یہ تبدیلی پرامن ہو…
فیس بک کمینٹ