کوئی سات برس پہلے کی بات ہے… میں گڑھی خدابخش میں تھا ، وہ ایک عام دن تھا ، بی بی ان کے شہید والد اور دو شہید جوان بھائیوں میں سے کسی کا یوم شہادت یا یوم ولادت نہیں تھا ، اس کے باوجود وہاں لوگوں کا ہجوم تھا ، جیسا ہجوم آپ کو شہباز قلندر ، شمس سبزواری ، عبداللہ شاہ غازی یا سید علی ہجویری کے مزارات پہ نظر آتا ہے تعداد کے لحاظ سے ، لیکن یہ ہجوم ان سے مختلف یوں تھا کہ یہ سوگواروں اور ماتمیوں کا ہجوم تھا محض زائرین کا نہیں ، اور اس میں کوئی بھی تماشائی نہیں تھا. لوگ افسردہ اور غمزدہ تھے دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے ، میری نظر بی بی یا سندھیوں کی شہید رانی کے ایک بہت بڑے پورٹریٹ پر پڑی ، وہی تصویر جو 18 اکتوبر 2007 کو کراچی ایئرپورٹ پہ کسی فوٹوگرافر نے بنائی تھی اور اس وقت اسے یقیناً احساس نہیں ہوا ہو گا کہ وہ” فوٹو آف دا سینچری ” بنا رہا ہے ، اس کے نیچے سندھی میں تحریر تھا سندھ امڑ ماں بے قصور آھیاں ( سندھ ماں میں بےقصور ہوں) تو میں جذبات پہ مزید قابو نہ رکھ سکا اور زاروقطار رونے لگا ، قریب کھڑے نوشکی سے آئے ایک بلوچ نے جانے کیسے جان لیا کہ اسے کسی کندھے کی ضرورت ہے ورنہ یہ گر پڑے گا اس نے مجھے تھام لیا اور پھر وہ بھی میرے گلے لگ کر دھاڑیں مار کر رونے لگا..
دختر مشرق بےنظیر بھٹو جس کی زندگی دکھوں ،مصیبتوں ، قربانیوں اور جدوجہد سے عبارت تھی ۔ جس کے والد کا عدالتی قتل ہوا ، دو جوان بھائی قتل کر دیے گئے ، والدہ پر لاٹھیاں برسائی گئیں ، قید میں ڈالا گیا ، اس پر لاتعداد مقدمات بنائے گئے جیلوں میں ڈالا گیا ، گھر پہ نظربند رکھا گیا ، اس کے خلاف سیاسی اتحاد بنوائے گئے ، اس کے سیاسی حریفوں کو بینکاروں سے کروڑوں روپے حرامخوری کے لیے دلوائے گئے ، انتخابی دھاندلیاں کرائی گئیں دو بار اس کی حکومت فضول الزامات پہ برطرف کی گئی ، لیکن دوسری طرف اسے بے پناہ عوامی محبت ملی ، 1986 میں اس کا لاہور والا استقبال ہو یا 2007 والا کراچی کا ، پاکستان کی تاریخ میں ایسا خیرمقدم نہ کسی کو نصیب ہوا اور نہ ہو گا ، خلق خدا نے اسے اس کے عظیم والد سے بھی زیادہ محبتیں دیں ، اس کی پارٹی کو طاقتور طبقات سے لڑ کر تین بار اقتدار دلوایا . مخالف ملکی اور بین الااقوامی اسٹیبلشمنٹ ، دشمن سرمایہ دار اور مذہبی طبقہ اور رذالت کی حد تک مخالف میڈیا ، اس کے ایک مخالف نے تسلیم کیا کہ لاہور کے ایک پنج تارہ ہوٹل میں ہر رات لفافہ جرنلسٹس اور دانش کے نام پہ تہمت چند دانشور جمع ہوتے تھے جن میں بادہ خور بھی ہوتے تھے اور زمزم نوش بھی اور وہ ہر رات لاہور کے بدنام طاقتور سرمایہ دار سیاسی خاندان کے ایماء پر اس کے خلاف ایک کہانی گھڑتے تھے اور پھر اگلے دن اخبارات میں شائع کرواتے تھے… کون سا الزام تھا جو اس پہ نہیں لگا اسے ملک دشمن اور سکیورٹی رسک تک کہا گیا ، ایک مثال پیش کرتا ہوں کہا گیا کہ بی بی کے حکم پر اعتزاز احسن نے خالصتان کے آزادی پسندوں کی فہرستیں بھارتی حکومت کو دیں ، بعد میں اس کے دشمن مڈنائٹ جیکالز میجر عامر اور بریگیڈیئر امتیاز نے اسے غلط قرار دے دیا ، ایک ڈی جی آئی ایس آئی نے اس کی تردید کی لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ یہ الزام گھڑنے والے غلیظ اور بےشرم لوگ آج بھی پارلیمنٹ میں یہ الزام دہرا رہے ہوتے ہیں.
27 دسمبر 2007 کو عوام سے ان کی محبوب رہنما کو چھین لیا گیا اور وہ لوگ جن کے خلاف اس نے ملک میں آتے ہی ایک طرح کی ایف آئی آر درج کرا دی تھی کہ میری موت کے ذمہ دار یہ لوگ ہوں گے ، انہوں نے 24 گھنٹے کے اندر ہی قاتلوں کا سراغ لگا کے ان کی گفتگو کی آڈیو بھی سنا دی۔۔ اور سن روف کے ہینڈل کو آلہ قتل بھی قرار دے دیا.. آج نو سال گزر گئے اس کے ناحق قتل کو لیکن آج بھی اسے انصاف نہیں ملا ، آج تک اس کے اصل قاتل کٹہرے میں نہیں لائے گئے ، پانچ برس اس کی اپنی جماعت کی حکومت رہی اور اس سے زیادہ عرصہ ایک ایسا چیف جسٹس سپریم کورٹ رہا جو پکوڑوں سموسوں پہ سوموٹو لے لیتا تھا ، چند سو کی تعداد میں چھپنے والے چیتھڑوں کی خبروں کو ثبوت مان لیتا تھا اس نے بھی انصاف کی فراہمی کے لئے کچھ نہیں کیا..
آج ہمارے پاس سوائے چند سوالات کے کچھ نہیں
راولپنڈی کے جلسے کے لئے طےشدہ سیکورٹی کیوں فراہم نہیں کی گئی جبکہ خود حکومت کے لوگ کہہ رہے تھے کہ ان کی زندگی کو شدید خطرہ ہے.
جائے سانحہ کو چند گھنٹوں میں دھلوا کر فورینزک ایویڈنس کیوں مٹا دیا گیا
بی بی جلسہ گاہ پہنچیں تو پندرہ منٹ تک گیٹ کیوں نہیں کھولا گیا
جن لوگوں کو بی بی نے نامزد کیا تھا ان سے پوچھ گچھ کیوں نہیں ہوئی
جاں نثاران بے نظیر کو مظفرگڑھ کے جلسے کے بعد واپس کیوں بھیج دیا گیا
ایک رات پہلے جب ڈی جی آئی ایس آئی نے خود بی بی کی رہائش گاہ پہ جا کر کہا کہ یہ جلسہ منسوخ کر دیا جائے بی بی کی جان کو شدید خطرہ ہے تو ان کے سکیورٹی انچارج نے کیوں بات سننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ آپ ہمیں بزدلی کا درس دینے آئے ہیں .
جلسہ گاہ میں ایمبولینس اور بیک اپ وہیکل کیوں نہیں تھیں
سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ بی بی کے نامزد کردہ افراد میں سے ایک کو بعدازاں ڈپٹی وزیر اعظم کیوں بنایا گیا اور
وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا کو وفاقی وزیر داخلہ نے سانحہ کارساز کی تحقیقات بند کرنے کا حکم کیوں دیا.
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
فیس بک کمینٹ