کل بہار کی ایک خوشگوار خوشبودار اور رنگوں بھری اتوار تھی ۔ اتوار کا دن میں عموماً اپنے باغیچے میں باغبانی کر کے گزارتا ہوں ، کبھی کچھ دوست احباب بھی آ جاتے ہیں ان کے ساتھ گپ شپ ہو جاتی ہے ، کوشش کرتا ہوں کہ گپ شپ ہی ہو لیکن جب ملک انتہائی سنجیدہ مسائل کا شکار ہو تو سنجیدہ معاملات بھی زیر بحث آ جاتے ہیں لیکن کل مارچ کے آخری دن کچھ نوجوان دوست ملنے آ گئے اور وہ سب میرے ہم عمروں کی نسبت کہیں زیادہ بلکہ کہا جائے کہ ازحد سنجیدہ تھے ، وہ مجھے کوئی بہت پڑھا لکھا اور ہمہ وقتی دانشور سمجھتے تھے تو انہوں نے سلام دعا کے بعد سنجیدہ گفتگو کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا ہم جانتے ہیں کہ ہر دور کا ایک اپنا نظریہ یعنی آئیڈیالوجی ہوتی ہے کیونکہ نظریہ اگر وقت کے ساتھ ساتھ مثبت تبدیلیاں خود میں نہ لائے تو وہ جامد ہو کر عصری تقاضوں سے کٹ جاتا ہے اور از کار رفتہ ہو جاتا ہے، ہم آپ سے یہ پوچھنے آئے ہیں کہ موجودہ ملکی اور بین الاقوامی حالات میں ہمارا نظریہ کیا ہونا چاہیے ۔
میں نے ہنستے ہوئے کہا یہ کیا کم ہے کہ میاں محمد نواز شریف نظریاتی ہو گئے ہیں اور محترم بلاول بھٹو زرداری نے ان کے نظریاتی ہونے پر مہر تصدیق ثبت بھی کر دی ہے آپ کیا نظریاتی ہوں گے لیکن وہ بالکل نہ ہنسے۔۔۔۔۔۔
تب میں نے کہا دیکھیں پاکستان کے معروضی حالات میں تو ہمارے لئے نظریہ ضرورت ہی موزوں ترین نظریہ ہے چلیں آپ اس میں ڈارون کا نظریہ بھی ملا لیں جہد البقا اور بقائے اصلح یعنی struggle for existence اور survival of the fittest.
فوج میں کمیشن لیں، سول سروس میں جائیں ، پولیس انٹیلیجنس بیورو اور نیب میں بھرتی ہوں یا کسی اور طریقے سے پیسہ کمائیں ، پیسے سے آپ اپنے لئے طاقت خرید سکتے ہیں، کچھ نہیں کر سکتے تو صحافی اور وکیل ہی بن جائیں، سیاست میں آنا ہے تو کسی ایسے سیاستدان سے چپک جائیں جو ہر دور میں اقتدار میں رہتا ہو ، سب سے بہتر تو یہ ہے کہ کسی بڑے دارالعلوم سے افتا کا کورس کر کے مفتی بن جائیں ، اس طرح آپ انسانوں کے ساتھ ساتھ فرشتوں کو بھی اپنی مٹھی میں کر سکیں گے۔۔
اس پر انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ان کے چہروں سے مایوسی عیاں ہونے لگی۔
میں نے کہا دیکھیں عزیزان من اس وقت دنیا بھر میں جو بہترین نظام حکومت سمجھا جاتا ہے یعنی جمہوریت، وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چل نہیں سکتا ،کم ازکم ہموار طریقے سے smoothly تو ہرگز نہیں چل سکتا۔ اور پھرجمہوریت کا نام تو ہو سکتا ہے لیکن اس میں جمہوریت کی روح نہیں ہو گی اور نام بھی اضافتوں کے ساتھ ہو گا اسلامی جمہوریت ، بنیادی جمہوریت ، صدارتی جمہوریت، روشن خیال جمہوریت وغیرہ۔
ہمارے پاس ازل سے دو ایسے تیارشدہ ریڈی میڈ الزامات موجود ہیں جن کی مدد سے کوئی بھی جمہوری حکومت گرائی جا سکتی ہے اور یہ الزامات عوام انتہائی خوش دلی سے تسلیم بھی کر لیتے ہیں جبکہ عدالتوں سے بھی منوا لیے جاتے ہیں۔۔ اور یہ الزامات ہیں بددیانتی اور برا طرز حکومت corruption and bad governence ۔ اور یہ ہمیں ورثے میں ملے ہیں ، بابائے قوم نے گورنر جنرل پاکستان بننے کے ایک ڈیڑھ ماہ بعد ہی انہی الزامات پر ڈاکٹر خان صاحب اور خان بہادر ایوب کھوڑو کی حکومتیں برطرف کی تھیں، اتحاد ایمان تنظیم تو صرف ہم دیواروں پہ لکھتے ہیں ، ان دو رہنما اصولوں پر صدق دل سے عمل کرتے ہیں۔۔۔
ایک ذوالفقار علی بھٹو آئے تھے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ترقی پسند عوامی منشور لے کر لیکن پھر نظریہ ضرورت کے تحت انہوں نے اپنے ابتدائی دور کے ساتھی بائیں بازو کے کارکنوں کو دلائی کیمپ میں ڈالنے کے لئے ایف ایس ایف کے حوالے کر دیا اور مولانا احتشام الحقوں کوثر نیازیوں اور اپنے مخالف جاگیرداروں کو پیپلز پارٹی میں شامل کر لیا اور یہ بھی بابائے قوم کی مثال سامنے رکھ کر کیا گیاکہ وہ بھی علامہ شبیر احمد عثمانی اور ظفر احمد عثمانی کو مسلم لیگ میں لے آئے تھے اور اپنے مخالف جاگیرداروں کو بھی ، حالانکہ اقبال انہیں بہت پہلے خط لکھ کر انتباہ کر چکے تھے کہ پنجاب کے جاگیرداروں سے دور رہیں۔
بھٹو صاحب نے بین الاقوامی طاقتوں کو ناراض کر لیا تھا ، ان کے مقامی گماشتے بھی بلاوجہ بھٹو کے خلاف ہو گئے حالانکہ انہیں مضبوط کرنے میں بھٹو صاحب نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی،
انہیں دنیا بھر کو بلیک میل کرنے کی طاقت بھٹو صاحب ہی دے گئے۔۔۔ لیکن سولی سے نہ بچ سکے۔
محمد خان جونیجو ، بےنظیر بھٹو اور نوازشریف انہی دو عظیم الزامات کی بھینٹ چڑھے ۔ نوازشریف نے آئینی بغاوت کا راستہ روکنے کے لیے آٹھویں ترمیم دفعہ اٹھاون بی سمیت ختم کی اور صف دشمناں میں جا کھڑے ہوئے ، پہلے ہی سندھ کے مقتول وزیرِ اعظم کا بھوت haunt کر رہا تھا لہذا پھانسی سے بچ گئے ۔
بےنظیر بھٹو نے بہت کوششیں کیں بین الاقوامی اور مقامی طاقتوں سے تعلقات بہتر کرنے کی لیکن وہ خطرناک سمجھی جاتی تھیں اور ناقابل اعتبار ، تبدیلی خواہ سامراج دشمن حلقوں میں ان کی مقبولیت ان کی جان کی دشمن بن گئی اور وہ راستے سے ہٹا دی گئیں ۔ نوازشریف کڑوا گھونٹ تھے، پنجاب سے ان کا متبادل مل گیا تو اگل دیے گئے۔
ہمارے طاقتور اور ذہین سیاستدان بھی ایک دوسرے کے خلاف شدت سے استعمال ہوتے رہے اور اب اگر وہ ماضی کی غلطیاں فراموش کر کے متحد ہو بھی جائیں تو اس کے خلاف ایک مقبول بیانیہ موجود ہے کہ کرپشن کا مال بچانے کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ خیر سے میرا مطلب ہے خدا کرے جنگی ماحول بھی ہے ، موجودہ دیانتدار حکومت ناتجربہ کار ہے بلکہ نااہل ہی سمجھیں اور عمران خان نے اکثریت ہونے کی وجہ سے جن لوگوں کو حکومت میں شامل کر رکھا ہے، ق لیگ، ایم کیو ایم ، بی این پی اور سابقہ جیالے بھی۔۔ جو کرپٹ ہیں اور ان میں بعض غدار بھی ہیں۔۔ اور غدار سیاستدان اٹھارویں ترمیم منظور کر کے وفاق کو کمزور بھی کر چکے ہیں۔۔۔۔۔۔ لہذا ملک کو ایک مضبوط صدارتی نظام کی ضرورت ہے۔۔۔ عدلیہ اور نیب آزاد ہیں اور خاصے متحرک بھی۔ میڈیا غدار ہے باہر سے بلکہ دشمنوں سے پیسے لیتا ہے۔۔۔۔۔
لہذا میرے عزیزو نظریہ ضرورت اور ڈارون کے نظریے کا آمیزہ ہی موجودہ دور کے لیے بہترین نظریہ ہے۔۔۔ وما علینا الاالبلاغ