رواں دواں ٹریفک اور چلتی دوڑتی بھاگتی مخلوق کے بیچوں بیچ کبھی کبھار ایسا مقام ضرور آتا ہے جب پولیس کے چاق و چوبند اور مستعد سپاہی بندوق ہاتھ میں پکڑے تیزرفتار ٹریفک پر اپنی عقابی نگاہوں سے کسی موٹر سائیکل سوار یا کسی گاڑی میں موجود شخص کو نکال کر سائڈ پر لے جا کر تلاشی کرتے ہیں، یا پھر زیادہ سختی ہو تو ہر کسی کی ہی تلاشی ہورہی ہوتی ہے، سوائے چند ان اشخاص کے جن کی گاڑیوں کو سیلیوٹ مارنا ان کی ڈیوٹی کا ریڈ زون ہے ۔ آج تک ہم میں سے کسی نے بھی ان سے یہ نہیں پوچھا کہ اندھیرے میں تم لوگ ہماری گاڑی کی فرنٹ لائٹس بند کروا کر تیز ٹارچوں کی روشنی ہمارے بیوی بچوں کے منہ پر مار کر کیا ثابت کرتے ہو؟ کیا یہ ہمارے ایک مشکوک قوم میں رہنے کا احتساب ہے تو پھر یہ احتساب ان گاڑیوں کے قافلوں کا کیوں نہیں جن کو تمہیں صرف سیلیوٹ مارنے کے لیے کھڑا کیا جاتا ہے۔ کیا دہشت گرد، چور اچکے، آوارہ ، جرائم پیشہ افراد صرف عام آدمی میں ہی پائے جاتے ہیں؟ جن گاڑیوں پر جھنڈے لگے ہوتے ہیں، جن کے آگے پیچھے ایمبولینس، آگ بجھانے والی گاڑیاں دوڑائی جاتی ہیں ، ان ارفع مقام اور بلند اخلاق کے حامل لوگوں کا احتساب بھی عام لوگوں کی طرح نہیں ہونا چاہیے؟ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ عام آدمی سے تو کوئی چھوٹا موٹا جرم سرزد ہوتا ہے، مگر وہ جن کے لیے یہ عام آدمیوں کو گھنٹوں روک کر سڑکیں خالی کرادیتے ہیں، ملک کا لوٹا پیسا انہی کی تجوریوں سے نکلتا ہے۔ ایسے ہی ایک رش میں ہسپتال سے روزانہ دیر ہونے کی ہزیمت میں ہاتھ میں شناختی کارڈ پکڑے سخت گرمی میں لمبی قطار میں گاڑی روکے کھڑا تھا کہ مایہ ناز صحافی اور سابق سفیر واجد شمس الحسن کا ایک واقعہ یاد آگیا ۔ یہ واقعہ نئے پاکستان کے نئے تجوریوں کے امین، حفیظ شیخ صاحب کے حوالے سے تھا. حفیظ شیخ سکھر کے رہنے والے ہیں لیکن اپنی زندگی امریکا میں گزاری ورلڈ بینک میں ملازمت کرتے رہے.پرانی بات ہے انکے بھائی کی شادی تھی ، شادی میں شرکت کے لئے سکھر آئے- کھا نے کا معاملہ باورچی سے زیر بحث تھا، باورچی نے مہمانوں کی تعداد دیکھ کر کھانے کی تعداد بتا دی – حفیظ شیخ صاحب بیچ میں کود پڑے ،بولے کہ تم لوگ آخر کس حساب سے کھانا بناتے ہو، پھر خود ہی حساب لگایا کہ ایک شخص ایک پاؤ سے زیادہ نہیں کھا سکتا مہمانوں کی کل تعداد سے ضرب دے کر جو حساب بتایا وہ باورچی کے حساب سے آدھے سے کم تھا، لوگوں نے بہت سمجھایا کہ باورچی اپنے کام کا ماہر ہے اور یہ پاکستانی مہمانوں کے کھانا کھانے کی عادت سے واقف ہے ،لیکن کیوں کہ یہ ورلڈ بنک میں کام کرتے تھے اس لئے ان ہی کا حساب چلا – خیر مہمان آ گئے انتظام کرنے والوں نے فیصلہ کیا کہ پہلے مرد مہمانوں کو نمٹا دیں، خواتین دوسری شفٹ میں کھا لیں گی.- ہوا یہ کہ کھانا مردوں کو ہی پورا نہ پڑا.منتظم پریشان ہو گئے اور پھر سب نے گاڑیاں نکالیں، گھر کے سارے بھگونے برتن اٹھائے اور سکھر کے ہوٹلوں سے بریانی قورمہ وغیرہ جمع کرتے رہے کہ کسی طور خواتین کو کھانا کھلا سکیں ،انکے عزیز بتاتے ہیں کہ ہم ایک طویل عرصے حفیظ صاحب کے حساب کا مذاق بناتے رہے اور یہ صرف شرمندگی سے مسکراتے رہے ۔ اس واقعے کا سیاسی پہلو جو بھی ہو، نئے پاکستان نے ایک تاریخ تو رقم کی ہے۔ وزارتوں کے قلم دان بدل دینا یقینا عام آدمی کی احتسابی قطار سے ان قافلوں کو گزارنا ہے، جن کے لیے ماضی میں پولیس وردیوں والے صرف سیلیوٹ مارنے کے لیے تعینات کیے جاتے تھے۔ یہ انگریزی زبان میں accountability کہلاتا ہے اور وزیروں کی کارکردگی کی یہ تلاشی یقینا نئے پاکستان میں کچھ نیا ہے۔ مگر اس احتساب نے جہاں کچھ اچھے کا عندیہ دیا ہے ، وہیں بہت سے سوال بھی کھڑے کیے ہیں، خاص کر کپتان کے سب سے اہم کھلاڑی اسد عمر کی شدید ناقص کارکردگی، معیشیت کی بری طرح تباہی اور ان کے یوں چلے جانے نے ناتجربہ کاری کے اپوزیشن کے دعوی پر مہر ثبت کردی ہے۔ یہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے پہلا ناتجربہ کاری کا اعتراف ہے۔ یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ اسد عمر صاحب کے بارے میں معیشیت کو ٹھیک سے نہ چلانے کے جو دعوی کیے جارہے تھے،وہ ٹھیک ثابت ہوئے۔ یہ اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ نئے پاکستان کی سرکار کے وزیر جس طرح مشکل وقت ، اس کے بعد سب اچھا ہے کہ دعوی کرکے جو امیدوں کا پہاڑ کھڑا کررہے تھے، وہ صرف ایک سراب تھا۔ یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ موجودہ سرکار ڈنکے کی چوٹ پر غلط فیصلے کرتی ہے ،اس پرڈٹی بھی رہتی ہے اور پھر راتوں راتوں یو ٹرن بھی لے لیا جاتا ہے ۔ ایک طرف پیمرہ ٹی وی چینلز کو اسد عمر صاحب کی وزارت تبدیلی غلط خبر نشر کرنے پر نوٹس داغ رہا تھا،وہیں وزیر صاحب کو صرف ایک رات پہلے وٹس ایپ پر وزارت جانے کی خبر ملنا، پارٹی کے اندر ہونے والی سیاستوں کی بھی پیشگی خبر ہے۔یہ اس بات کا بھی عندیہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف میچ کا پہلا پاور پلے کھیل چکی، اب وہ کھلاڑیوں کو آگے پیچھے کرکے پھر میدان میں اترنے لگی ہے۔ سوال صرف اتنا ہے کہ کیا وہ شخص جسے آپ نے کئی سالوں سے بہترین بلے باز کہہ کر،اس کی بولی لگا کر ٹیم میں شامل کیا تھا، وہ پاور پلے کے اگلے مرحلے میں کہ جب مخالف ٹیم ایک بہت بڑا مارجن سے جیت رہی ہے، بہترین گیند باز کا کردار ادا کر پائے گا؟ اور اگر نہیں تو وہ وقت کہیں قریب تو نہیں کہ اگلی بار ٹیم کے کپتان کو سیلیکٹرز سمیت پوری ٹیم کے ساتھ پولین لوٹنا پڑے گا اور ایمپائر کے پاس انگلی اٹھانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچے گا۔ آٹھ ماہ کی سرکار نے اب تک جو بھی کیا ہے؟ اس میں م کا حرفِ تہجی سب داستان بیان کرتا دکھائی دیتا ہے، مہنگائی ، مایوسی ، مفلسی، مخالفین کی مار پیٹ اور معاشی بحران۔ ایک طرف بلوچستان میں مکران کوسٹل ہائی وے، پر پھر شناختی کارڈ دیکھ کر آنکھیں باندھ کر گولیوں کی بوچھاڑ کردی جاتی ہے اور یہ دشمن ملک کی بلوچستان علیحدگی پسند کاروائیاں کو تقویت دی جاتی ہے، دوسری طرف طوفانی بارشیں اور شدید آندھیاں جنوبی پنجاب میں غریب کسانوں کی پورے سال کی گندم برباد کردیتی ہیں۔ ملک میں بڑھتا ہوا معاشی برحان، عدم استحکام، دہشت گرد کاروائیاں، بھارت کی خطے میں اندرونی اور بیرونی طور پر بدمعاشی اورقدرتی آفات غریب کی غربت کا احتساب زندگی اور موت سے کررہی ہیں۔ وہیں نئے پاکستان میں کابینہ میں ہونے والی تبدیلیوں نے جھنڈے والی گاڑیوں کو بھی اس بار سیلیوٹ کی جگہ ، عام آدمی جیسی تلاشی سے گزارا ہے۔ اب سوال صرف اتنا ہے کہ کہیں یہ نت نئے تجربے اب کی بار واجد شمس الحسن کے سنائے واقعے کی حقیقت بن گئے تو اس بار باراتیوں کو کھانا پورا کرنا ناممکن ہوجائے گا۔ کشکول لے کر جس بھی ہوٹل کا رخ کیا جائے گا ،وہاں سے بریانی کورمے کی جگہ سوائے ہزیمت کے کچھ نہیں ملے گا، اور یہی وہ وقت ہوگا جب ایمپائر کی آخر ی انگلی بالآخر پولین کی جانب لوٹنے کا بادلانخواستہ اشارہ کرنے کے لیے اٹھ جائے گی۔ کپتان کی ٹیم کے اگلے فیصلہ کن پاور پلے کے کھلاڑیوں کو اب کی بار عام آدمی کی طرح کھیلنا ہوگا۔ اسی عام آدمی کی طرح جسے سیلیوٹ اور پروٹوکول نہیں تلاشی ، ہزیمت ،کئی گھنٹوں باری کے انتظار اور احتساب کی عادت ہے۔
فیس بک کمینٹ