ستر سال بیت گئے۔ اب بھی یہی سوال ہے کہ ہم پر غیظ و غضب کیوں؟ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، اور دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت میں دس لاکھ مسلمان گاجر مولی کی طرح کاٹ دیے گئے۔ خیال یہی تھا کہ دنیا پر ایک ایسی سرزمین حاصل کرلی گئی ہے جسے اسلام کا قلعہ بنایا جائے گا۔ جہاں مسلمانوں کی حکمرانی ہوگی۔ وہ مسلمان جو ہر فرقہ واریت، رنگ و نسل کی تفریق سے پاک، اخلاقیات کا پیکر ہوں گے اور جہاں پر دین و دنیا دونوں کی کامیابیاں سمیٹنے والی امت کا بسیرا ہوگا۔ برصغیر کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ہندوستان کی اس طرز کی تقسیم ناممکن ترین نظر آتی ہے۔ مذہب کے لیے اکٹھے ہونا ، جدو جہد کرنا اور زمین پر ایک ایسا ٹکڑا حاصل کرلینا ،جو پوری دنیا میں ہر اعتبار سے سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہو، یہ صرف اللہ کا معجزہ ہی نظر آتا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے قیام کے وقت اندرونی اعتبار سے اس وقت کیے گئے فیصلوں میں سب سے اہم فیصلہ اس وقت کے وڈیروں اور جاگیرداروں سے زمینوں کا حصول تھا۔ بھارت میں یہ کام بہت احسن طریقے سے کیا گیا، مگر پاکستان میں چونکہ انہی میں سے کچھ اکثریت مختلف جغرافیائی حصے پاکستان میں شامل کرنے میں پیش پیش رہی تو یہ ممکن نہ ہوسکا۔ مگر شاید اس وقت کسی کو بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ اس قسم کے فیصلے آنے والے سالوں میں امت کے نام پر بنی قوم کو ایک ایسے ہجوم میں تبدیل کردیں گے کہ جو بے سمت اس ملک کی تمام اہمیت کو کھوتے چلے جائیں گے۔ وڈیروں کی آنے والی نسلوں نے عوام کی حکمرانی کے نام پر جمہوریت کے نام پر ایک ایسا نظام تشکیل دیا جس کی جڑیں خود آمریت سے نکلتی تھیں۔ یہ نظام یہی تھا کہ ہر شہر، قصبہ سے وہاں کے مال دار جاگیردار،وڈیرے کو یا ان کی آل اولاد کو الیکشن کے ذریعے راج نیتی میں لایا جاتا اور وہی قوم کا نمائندہ بن کر ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرتا۔ یہ اس قدر کھوکھلا نظام تھاکہ اس میں آمریت کو شب خون مارنے کی کھلی چھوٹ تھی ،یوں کوئی خاص عوامی دلچسپی نہ ہونے کے باعث جب کسی آمر نے ایسے جمہوری نظام کا جنازہ نکالا، شہروں کے حلوائیوں کی موجیں ہوگئیں۔ پھر اس آمر کے جانے پر بھی ایسا ہی ہوا۔ یہ کونسی عوام تھی، جو ایسا کرتی تھی؟ یہ عوام پنجابی،سندھی،بلوچی،پٹھان،سرائیکی اور مہاجر قوموں کا مجموعہ تھی، ساتھ ساتھ مسلمان بھی تھی اور ان کے مسلک بھی الگ الگ تھے، یوں تقسیم کے کئی فارمولے لگا کر ، ہر فرد دوسرے سے الگ تھا۔ حتی کہ مساجد بھی الگ تھیں۔ راقم القلم جس میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں مقیم تھا،اس کے ایک ہاسٹل میں تین طرح کی مساجد تھیں، اور یہ اولین علم کی درس گاہ کا حال تھا۔ جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں کو اس طرح کے خود ساختہ جمہوری نظام کے لیے ووٹوں کے لیے اسی تقسیم در تقسیم زدہ عوام کی کثرت چاہیے تھی۔ یوں انہوں نے ان کو مز ید محکوم کرنے کے لیے ،ان کو جہاں جہالت کے تحفے دیے،وہیں ان سے صحت،روزگار ،عزت اور شعور جیسی بنیادی سہولتیں بھی چھین لیں۔ یہ لوگ جس قدر علم سے دور اور جہالت کے قریب ہوتے گئے، اتنا ہی انہوں نے توہم پرستی، لاعلمی ، بھیک کو گلے سے لگا لیا۔ اسی سب میں پھر مذہب کی بھی مختلف تعریفیں نکلنے لگیں، لسانی تقسیم بھی بڑھتی گئی اور ہجوم کی حالت اور بدتر ہوگئی۔ جہاں ایک طرف جاہل عامل ، تعویذ دھاگے، کالے جادو جیسی توہم پرستی نے معاشرے میں جگہ بنا لی ،وہیں مدرسہ کلچر میں بھی دین سے زیادہ غیر ملکی ایجنسیوں کے مقاصد پورے کیے جانے لگے۔ ایسی پستی میں یہ ہجوم اخلاقیات کی پستیوں میں بہتا بہت گہرائی تک جانکلا، یوں وہ مقصد جس کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا،وہ کہیں بہت دور نکل گیا اور یہاں تک کہ اس کو بھی جاہلیت کے ساتھ ہی ملا دیا گیا۔ ہم جہاں جہالت کا شکار تھے،وہیں اخلاقی پستی بھی عروج پر تھی اور ساتھ ہی اس قدر کنفیوژن تھی کہ مشرق اور مغرب کی اقدار کا بھی ملا جلا امتزاج تھا۔ یہی وجہ تھی کہ لاس ویگس اور سیلیکون ویلی سے چلنے والی انڈسٹری کے سب سے زیادہ تماش بین بھی اسی ہجوم کا حصہ تھے۔ ایسے میں جاہلیت، توہم پرستی اور اخلاقی پستی کا امتزاج ہوتا ہے اور عمران جیسے سیریل ریپسٹ اور کلر جیسے کردار سامنے آتے ہیں۔ ایسے کردار جو معاشرتی پستی کی بدترین مثال ہیں ،ایسی مثال جو ان وادیوں میں بھی نہیں ملتی کہ جہاں سے یہ سارے سلسلے چلتے ہیں۔ قصور میں ہونے والے اس ہولناک واقعے نے جہاں ہماری اخلاقی پستی کا پردہ فاش کیا ،وہیں یہ بھی باور کرایا کہ ہم معاشرتی طور پر کس قدر پستہ ہوچکے ہیں۔ اس سیریل کلر کے بارے میں بہت سی متنازع رپورٹس ہیں کہ یہ باہر موجود غیر اخلاقی تنظیموں کے Black Porn Networkکے لیے کام کررہا تھا، یا یہ کسی کالے جادو کے چکر میں یہ سب کررہا تھا یا پھر یہ کوئی ذہنی مریض تھا۔ یہ جو کوئی بھی تھا، اس جیسے شخص کا ایک ایسے معاشرے میں ،اتنے عرصے تک ،اس قدر گھناﺅنا عمل کرنا،کہ جس معاشرے کی بنیاد ہی اخلاقیات اور سلامتی کے دین پر ہو،اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اخلاقی طور پر اس زہر کو معاشرے میں اتارنے لگے ہیں جو جہالت، غربت، توہم پرستی اور دین کی غلط تشریحات نے اتنے سالوں میں پیدا کیا ہے اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس زہر کے پھلنے پھولنے میں اس جاگیرداری ، وڈیرانہ نظام کا مکمل ہاتھ رہا ہے کہ جنہوں نے کبھی معاشرے میں اخلاقیات،تعلیم ،روزگار کو عام کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ یہ سیریل کلر کا کیس کوئی ٹیسٹ کیس نہیں کہ ہم اسے صرف ایک شخص تک محدود کرکے ، چھوڑ دیں، آپ قصور شہر میں ہی اخلاق سوز واقعات کی تاریخ اٹھالیں ،آپ کو جواب مل جائے گا۔ آپ آج سے بائیس سال پہلے سو بچوں کو قتل کرنے اور تیزاب کے ڈرم میں پھینکنے والے جاوید اقبال کا کیس اٹھا لیں۔اسی طرح آپ 2000ءکے بعد سے جب سے ہجوم میں آئی ٹی اور سیلولر ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ داخل ہوا ہے ، آپ اخلاق سوز کرائم کیسز کا ریکار ڈ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ سب ریکارڈ صرف ان تین یا چار فیصد جرائم کے واقعات کا ہے کہ جو رپورٹ ہوتے ہیں، پولیس کی ایف آئی آر کا حصہ بنتے ہیں، حیران کن طور پر اسی ہجوم کا کرپشن سے بھرپور نظام ، 95 فیصد واقعات میں مظلوموں کو ہمت ہی نہیں دیتا کہ وہ ایسے کسی واقعے کے پیچھے تھانے اور کچہریوں کے چکر کاٹیں۔ غربت عروج پر ہونے کے باعث کئی زبانیں ویسے ہی خاموش ہوجاتیں اور کئی ساری زندگی جہالت سے بھرے معاشرے کے طعنوں کی موت سے مرنے کے خوف سے ، کئی معصوم کی آنکھوں میں ہی وہ منظر قید رہنے دیتی ہیں کہ جن کے مجرموں کو پھانسی کے پھندوں تک لانا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ انگریزی زبان کی کہاوت ہے کہBad Things Don,t Happen, Until they Happen to You. کہ سانحات آپ کی نظر سے تب تک اوجھل رہتے ہیں کہ جب تک و ہ آپ کے ساتھ ہونہیں جاتے۔ مردہ زینب ، خاموش لائبہ سمیت قوم کی ان بچیوں کے والد ین کے دل کی کیفیت کو آپ مجرم پکڑ کر لاکھ فاتحانہ تالیوں ، قہقہوں میں تحلیل کرنے کی کوشش کرلیں، مگر کیا آپ اس کڑے سچ سے منہ موڑ سکتے ہیں کہ آج اس قوم کی ہر بیٹی کے باپ کی نیندیں اڑ چکی ہیں۔ کیا آپ اس تلخ حقیقت سے منہ موڑ سکتے ہیں کہ ہمیں ہر در و دیوار سے خوف آنے لگا ہے۔ جاہلیت، آبادی، غربت، توہم پرستی، کرپشن اور معاشی اور اخلاقی بدحالی اس عروج پر پہنچ چکی ہے کہ ہم اپنی سانسوں سے بھی ڈرنے لگے ہیں۔ دس لاکھ افراد کے خون کے سمندر سے ابھرے سلامتی اور امن کی امید لیے اس ملک کی خاطر نجانے کتنی بہنوں نے عزتوں کی قربانیاں دیں تھیں کہ اس قوم کی نسلوں کی بیٹیوں کی عزتیں محفوظ رہیں، مگر وہ اس حکمرانی کے ایک ایسے نظام میں بہہ گیا کہ جس نے تاریکی کے وہ سیاہ بیج اس معاشرے کی جڑوں میں داخل کردیے کہ جن سے نکلنے کے لیے آج کسی بہت بڑی انقلاب کی ضرورت ہے۔ یہ گھر جسے دنیا میں مثال ہونا چاہیے تھا، اس پر اللہ کی ناراضی کا اندازہ کریں کہ دنیا میں ستاون ملکوں میں ،ہم وہ واحد ہیں کہ جو امریکہ کی دہشت گردی کی جنگ کا براہ راست حصہ بنے ،اور طاقتور ترین ریاست کا حلیف ہوتے ہوئے بھی، ہماری ہر گلی میں بارود پھٹتا رہا، ہم نے ہر اس آمر کے آنے پر بھی مٹھایاں بانٹیں ،جو یہ تحفے ہماری گلیوں تک لایا اور اس کے جانے پر۔ جب ہمیں، خود اس جاگیرداری نظام سے تشکیل کردہ جمہوریت سے کسی کو چننے کا اختیار دیا گیا تو جاہلیت کی کالی پٹی آنکھوں پر ایسی بندھی ملی کہ سب سے ایماندار ، نیک ،پارسا کو ہم نے سب سے پہلے چناﺅ سے نکال باہر پھینکا۔ ہم کبھی مذہب،کبھی زبان،کبھی صوبے،کبھی رنگ،کبھی مسلک کی سیاست کرتے رہے اور کینسر زدہ محرومیوں، ناکامیوں سے بھرے نظام نے علم کی کمی، بھیک، غربت،جاہلیت ، آبادی اور کرپشن نے معاشرے کو ایسے ناسوروں سے بھر دیا کہ جنہوں نے نہ رنگ دیکھا،نہ مسلک دیکھا،نہ دین دیکھا،نہ زبان دیکھی اور سیریل ریپسٹ اور کلر کے روپ میں سب سوالوں کا جواب دے دیا۔اب بھی یہی سوال ہے کہ ہم پر غیظ و غضب کیوں؟
فیس بک کمینٹ