یہ پہلے ہجر کا قصہ ہے۔کردار بدلتے گئے مگر کہانی وہی رہی۔ہٹلر کو دنیا لاکھ برا بھلا کہے مگر یہ بات ماننا پڑے گی کہ ہٹلر کی موت ،جرمنی اور جاپان کی شکست نے دنیا کو دو سپر پاورز کے ہاتھوں میں کھیل بنا دیا۔دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو اس وقت دنیا پر دو سپر پاورز ابھر کر سامنے آئیں۔پھر سرد یا خاموش ماحول میں ان دونوں کے درمیان Cold War شروع ہوئی۔یہ جنگ 1947–1991 تک جاری رہی اور جب افغانستان روس کا ویت نام بن گیا تب ایک سپر پاور ہی دنیا پر راج کے لئے اپنا نیو ورلڈ آرڈر لئے طاقت کے نشے میں چور حاوی ہو گئی۔آج پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی بھی اسی Cold War کا نتیجہ ہے، جو ہمارے ان اعمال کا نتیجہ ہے جو ہم نے امریکہ کی روس کے خلاف افغانستان میں مدد کرکے کمائے۔کوریا کی جنگ، ویت نام کی جنگ، خلیجی ریاستوں کے درمیان جنگیں،سقوطِ ڈھاکہ،روس کی افغانستان میں مداخلت ،اور آج امریکہ کی افغانستان میں موجودگی سب کی جڑیں اسی سرد جنگ سے جاملتی ہیں۔گو 1991 میں سرد جنگ روس کے شیرازہ بکھرنے کے بعد ختم ہوگئی مگر آج بھی یہ جنگ بھی جاری ہے اور اس کے اثرات بھی۔جہاں روس اور اس کے اتحادیوں نے مداخلت کی ، امریکہ اور اس کے اتحادی مخالفین کی مدد کو پہنچ گئے اور جہاں امریکہ اور اس کے اتحادی حاوی ہونے لگے وہاں روس نے ان کے مخالفین کو ہر ممکن طاقت فراہم کردی۔یوں امریکہ کو جب ویت نام میں مداخلت کی منہ کی کھانی پڑی تو روس سے بدلہ24 دسمبر1979 سے 15 فروری 1989 تک جاری رہنے والی روس افغانستان جنگ میں امریکہ نے لے لیا۔یہ جنگ روس،افغانستان کی ڈیموکرٹک ریپبلک حکومت اور سنی مجاہدین کے درمیان تھی۔سنی مجاہدین وہی شریعت کا نعرہ لگا رہے تھے جب کے روس افغانستان حکومت کی مدد مجاہدین کو زیر کرنے کے لئے کر رہا تھا۔یہاں امریکہ کود پڑا اور ان مجاہدین کی مدد کی آڑ میں ہمارے آمر ضیا الحق نے Operation Cyclone نامی کئی امریکی مفاد کے کام سرانجام دے کر، ہزاروں انٹیلیجنس ایجنٹ، مجاہدین کیمپ ، اسلحہ ، بارود سب فاٹا کے راستے افغانستا ن میں بھر دیا۔اس جنگ میں چین، سعودی عرب ،ایران کی بھی مداخلت رہی مگر پاکستان نے جس طرح سے مداخلت کی وہ آج ہمارے سامنے ہے۔وہ سنی مجاہدین جو فاٹا کے جہادی کیمپوں میں تیار کئے گئے،انہیں امریکہ کے لاکھوں ڈالر دئے گئے وہ روس کے جانے کے بعد آج پاکستان میں بھی شریعت چاہتے ہیں اور ہم آج چار افراد کی کمیٹی کے ذریعے ان سے مذاکرات کرنے جارہے ہیں۔
اب رہی بھارت کی باری تو بھارت تو اپنا کام 15 اگست 1947ءکررہا ہے۔تقسیم ہند کے فوری بعد بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے افغانستان کے راستے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مداخلت شروع کردی۔انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی کے ہیرو فقیر ایپی کو اس بات پر تیار کیاگیا کہ وزیرستان کو افغانستان میں ضم کروایا جائے کیونکہ پاکستان شرعی ریاست نہیں ہے۔جون 1948 ءمیں اول حسین نامی ایک قبائلی کو گرفتار کیا گیا جو فقیر ایپی کے نام پنڈت نہرو کا خط دہلی سے لارہا تھا۔نہرو قائد اعظم کی وفات کے بعد چند ماہ میں پاکستان کو ٹوٹتے دیکھ رہا تھا۔19 جنوری 1950ءکو میر علی اور وانا کے علاقوں میں پشتونستا ن کا پرچم لہرا کر فقیر ایپی کو امیر سلطنت بنا دیا گیا۔اب اس سلطنت کی فوج بنانے کے لئے فقیر ایپی کے ساتھی اختر جان اور سعید نے افغان حکومت سے وسائل مانگے اور بھارت نے ان کی ہر ممکن مدد کی۔کچھ عرصے بعد اس بغاوت کو کچلنے کے لئے میر علی اور وانا پر بمباری کی گئی ، مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔تب مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی کی خدمات حاصل کی گئیں۔انہوں نے پھر فاٹا کے قبائل سے خطاب کرتے ہوئے فتوی دیا کہ اسلامی ریاست کے خلاف جہاد جائز نہیں ہے۔اس کے بعد فقیر ایپی کمزور پڑگئے اور 1960 ءکو ہمیشہ کے لئے فاٹا سے کوچ کر کے دوسرے جہاں پہنچ گئے۔یوں بھارت کی مداخلت دم توڑ گئی۔پھر جواہر لال نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی نے بنگلہ دیش میں اپنا کام کردکھایا۔اب یہ سلسلہ اندرا کے بیٹے راجیو کی بیوہ سونیا گاندھی تک آ پہنچا ہے۔بھارت آج بھی اپنا کام کررہا ہے۔اب چاہے بھارت کا اگلا وزیر اعظم گجرات فسادات کا ماسٹر مائند مسلم کش نریندر مودی بن جائے یا نہرو کی باقیات میں سے کوئی بھارت کی بھاگ دوڑ سنبھالے بھارت نے تو اپنا کام کرتے رہنا ہے۔اب چاہے BLA بنگال لیبریشن آرمی کی ہو یا BLA بلوچستان لبریشن آرمی کی ان کی مدد بھی بھارت کا فرض ہے۔ہم غلطیوں پر غلطیاں کرتے جائیں گے اور بھارت اپنا کام کرتا جائے گا۔یوں یہ سلسلہ ایک ہجر سے جاری ہے ۔
ایک اور مسئلہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈھائی ہزار کلومیڑ لمبی سرحد بھی ہے ۔اب جب تک یہ سرحد بند نہیں ہوتی پاکستانی عسکریت پسند افغانستان جاتے رہیں گے اور وہاں سے بچنے کے لئے اسامہ جیسے جہادی ایبٹ آباد آتے رہیں گے۔ان کے ساتھ کولڈ وار کے ستائے کئی ازبک اور تاجک بھی آتے رہیں گے۔ان سب کو شریعت کے نام پر بھارت سے اسلحہ ، پیسہ ، بارود ملتا رہے گا۔یہ کراچی ، بلوچستان سمیت پورے ملک کے حالات خراب کرتے رہیں گے اور ریاست کمزور ہوتی جائے گی۔ایک بات جو سمجھ سے بالاتر ہے کہ پاکستان کے پاس دنیا کی بہترین فوج ہوتے ہوئے ہمارے ملک میں پرائیوٹ آرمی کا رواج کیوں نہیں روکا جاتا؟ قبائل ہوں، بلوچ سردار ہوں، سیاسی پارٹیوں کے عسکری ونگ ہوں جب یہ سب طالبان کی شکل کی اپنی اپنی پرائیویٹ فورسز بناتے ہیں تو نہ صرف آئین کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک کا کام بھی آسان کردیتے ہیں۔اب ہم 1947ءمیں فقیر ایپی کو کوستے رہے اور آج ہم مولانا فضل اللہ کو کوس رہے ہیں ۔آج بھی ملا عمر جیسے لوگ مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی کی طرح بار بار یہ پیغام بجھوا رہے ہیں کہ پاکستان کی ریاست کے خلاف جہاد جائز نہیں ہے۔مگر ہم جہاں مولانا فضل اللہ سے جنگ یا مذاکرات کی بات کررہے ہیں وہاں ہمیں بھارت کو بھی آڑے ہاتھوں لینا ہوگا۔ہماری بھارتی مداخلت پر 1947ءسے خاموشی ہی آج کراچی ،بلوچستان اور فاٹا میں آگ لگائے ہوئے ہے۔ساتھ کے ساتھ ہمیں اپنی پالیسیوں پر بھی نظر ثانی کرنا ہوگی۔ہم سرد جنگ میں شریعت کے نام پرایک آمر کی غلطی بھگت رہے ہیں۔دوسری غلطی ، دوسرے آمر نے امریکی دھمکی پرکردی۔ آج ایک آمر فیصل مسجد کے سامنے ابدی نیند سورہا ہے اور دوسرا دل کا عارضہ لئے مقدمات کا سامنا کررہا ہے جب کہ ہمارے 60000 بچے،بوڑھے، ،خواتین اورجوان بارودی جیکٹوں کی نظر ہوچکے ہیں۔ہم غلطیوں پر غلطیاں کررہے ہیں اور دشمن اپنا کام کئے جارہا ہے اور ہم اس بحث میں پڑے رہتے ہیں کہ داڑھی کتنی بڑی رکھنی ہے، کپڑے کیسے پہننے ہیں، کون کافر اور کون مسلمان ہے۔ ہمارے بچے بھوکے مرتے ہیں۔ ہماری عورتیں بیماری/زچگی میں مر جاتی ہیں مگر ہم انہیں ڈاکٹر تک نہیں لے کر جاتے کہ یہ اسلام میں جائز نہیں۔ آخر کون سی طاقت ایک مسلمان جرنیل کو اپنی ہو قوم کو فتح کرنے کا راستہ بار بار دکھاتی ہے؟ ہمارا دشمن شاید کہیں باہر نہیں بلکہ ہمارے اندر موجود ہے۔ہم خود دشمن کو ہمیں تباہ کرنے کا موقع دے رہے ہیں اور یہ پہلے ہجر کا قصہ ہے۔ ایک گونج میرے کانوں میں یہ کہتی ہے کہ
یہ پہلے ہجر کا قصہ ہے
گو آج کے دن کی بات نہیں
جو آج بھی ہم پر طاری ہے
یہ ہجر ابھی تک جاری ہے
فیس بک کمینٹ