سوال تو شہر یارآفریدی نے خوب کیا ہے مولانا فضل الرحمن سے کہ انہوں نے گزشتہ تیس برسوں میں کیا کیا ہے ؟ انہوں نے 27اکتوبر کو مولانا کے دھرنے پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمن اپنے دھرنے میں جتنے چاہیں بندے لائیں مگر مدرسوں کے بچوں کو اپنے سیاسی مقاصد میں استعمال مت کریں۔ البتہ دھرنے میں حکومت انہیں کنٹینر کے ساتھ ساتھ حلوہ بھی مہیا کرے گی کچھ ایسی ہی باتیں وزیراعظم عمران خان نے بھی کیں اور کہا ہے کہ ہمیں دھرنے سے کوئی پریشانی نہیں ہے اصل میں مولانا فضل الرحمن مدارس میں ہونے والی اصلاحات پر زیادہ پریشان ہیں اور اپنی سیاست کی ڈوبتی ناؤ کو بچانے کی کوشش میں ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی میڈیا ٹیم کو مولانا کا اصل چہرہ عوام کے سامنے لانے کی ہدایت بھی کی ہے۔“
یہ ساری باتیں میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچ چکی ہیں، ہم تو ان خبروں پر بس حیران ہیں۔ شہر یار آفریدی مولانا کو دھرنے کے موقع پر حلوہ بھی پیش کرنے کا وعدہ کررہے ہیں۔ ہمیں علم نہیں کہ حلوہ بطور استعارہ استعمال کیا گیا ہے یا اپنے حقیقی معنوں میں ….
عمران خان مولانا فضل الرحمن کا اصل چہرہ دکھانے کے تمنائی ہیں، بتانا وہ یہ چاہتے ہیں کہ :
ہیں کواکب کچھ نظرآتے ہیں کچھ
ایسے مولوی حضرات تو خوا مخواہ حلوے کے حوالے سے مشہور ہیں ورنہ حلوہ تو سبھی کھاتے ہیں۔ اور شوق سے کھاتے ہیں ان دنوں البتہ مولویوں کی کثیرتعداد حلوہ گھروالوں سے چھپ کر کھاتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ”شوگر“ تو کسی کو بھی ہوسکتی ہے۔ شوگر کے مریضوں کو میٹھا بہت اچھا لگتا ہے جبکہ ان کی صحت کے لیے ڈاکٹروں نے اس سے پرہیز کا حکم دے رکھا ہے۔ سو گھروالے ان کے ”پرہیز“ ملحوظ رکھتے ہوئے کسی بھی قسم کی ”شیرینی“ سے دور رکھتے ہیں۔ غور کریں تو سبھی سیاستدان ”حلوے“ کے لیے ہی حکومت میں شامل ہوتے ہیں اس کے لیے انہیں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ،الیکشن میں کھڑا ہوکر دردرسے ”ووٹ“ مانگنے پڑتے ہیں۔ ووٹروں کو”راضی“ کرنے کے لیے انہیں ”نوٹ“ دکھانے پڑتے ہیں تاکہ ان کا موڈ اچھا ہو جائے اور وہ ”امیدوار حکومت“ کو ووٹ دے کر کامیاب کرسکیں۔
ادھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حکومت کرنا آسان نہیں، یہ کانٹوں کا تاج ہے جس سے سر ہی نہیں دستارکو بھی خطرہ ہوتا ہے۔
ہم عمران خان کی حکومت سے یہ استدعا کریں گے کہ ” حلوہ “ مولانا فضل الرحمن کو ضرور پیش کریں لیکن اپنی کابینہ کے ”حلوے مانڈے“ بھی ذرا کم کرائیں کہ یہی آپ کا وعدہ تھا یہ کیا قناعت ہے؟ ہوسکتا ہے وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات کی مد میں کفایت کی جاتی ہوآپ خود بہت قناعت پسند ہوسکتے ہیں لیکن ابھی تک آپ کی ساری ٹیم میں شاید ایک دو مزید لوگ ہوں جو کفایت شعار ہوں ورنہ سبھی سیاست میں دواور دو جمع چار کرنے ہی آئے ہیں۔ ہم توبعض عہدوں کی تنخواہیں اور مراعات دیکھ ”انگشت بدنداں“ ہیں۔ غریب ملک کے محکموں کے عہدیدار لاکھوں روپے ماہانہ کے علاوہ دیگر کئی مراعات پاتے ہیں۔
ہم تو سمجھ رہے تھے سنسر بورڈ کا چیئرمین ہونا کوئی اعزازی عہدہ ہوگا شاید اسی لیے کسی ادبی ثقافتی شخصیت کو اس پر تعینات کیا جاتا ہے۔ ہمارے پروفیسر مشکور حسین یاد کو ان کے شاگرد وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے سنسر بورڈ کا چیئرمین تعینات کرنے کا اعلان کیا تو مشکور صاحب نے ہاتھ جوڑ دیئے کہ ان کی تو بینائی کمزور ہے آپ یہ عہدہ کسی اورکو عنایت کریں۔
کچھ عرصہ قبل ہی وزیراعلیٰ پنجاب کے ترجمان عون چودھری کو ان کے اس عہدے سے الگ کیا گیا تھا آج خبر شائع ہوئی ہے کہ انہیں چیئرمین پنجاب فلم سنسر بورڈ تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اور اہم بات یہ ہے کہ انہیں ان خدمات کے عوض ماہانہ ” سات لاکھ “ روپے کے علاوہ گاڑی اور دیگرمراعات بھی ملیں گی۔ کیا عون چودھری بے روزگار تھے۔ اس عہدے پر علم و ادب ثقافت کے شعبوں سے لوگ تعینات کیے جاتے ہیں۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی روش پر چل نکلی ہے اور ہر اہم عہدے پر اپنے قریبی افراد کو نواز رہی ہے۔ رب کی شان ہے :
امیروں کو اعزاز واقبال دو
غریبوں کو فردوس پر ٹال دو
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)