ایک صاحب گاڑی میں جارہے تھے۔ چوک کے ٹریفک اشارے پر گاڑی رُ کی تو تیزی سے ایک چندہ مانگنے والے نے ان صاحب سے درخواست کی اور بولا:
”پاکستانی کرکٹ ٹیم جو ورلڈ کپ میچ کھیلنے گئی تھی اسے اغوا کرلیا گیا ہے اور اغوا کرنے والوں نے دس کروڑ روپیہ کا تقاضا کیا ہے۔ اگر ہم نے پیسہ نہ دیا تو اس صورت میں اغوا کنندگان ہماری کرکٹ ٹیم پر پٹرول چھڑک کر آگ لگادیں گے۔“
گاڑی والے صاحب یہ سن کر پریشان ہوئے، جیب میں ہاتھ ڈال کر پرس نکالا اور چندہ مانگنے والے سے پوچھا!”عام طورپر لوگ کتنا چندہ دے رہے ہیں ؟؟
چندہ مانگنے والے نے جواب دیا :
”ابھی تک تو سبھی لوگ دو لیٹر پیٹرول ہی دے رہے ہیں۔ “
اس لطیفے کا ہماری موجودہ ٹیم سے کوئی تعلق نہیں یہ تو شاید پرانی کسی شکست پر گھڑا جانے والا گھسا پٹا لطیفہ ہے۔ ورنہ ہمارے ہاں عوام کو ہار جیت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم تو بھارت سے کرکٹ میچ ہارکر آئیں تو کھلاڑیوں کو انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ سرکاری ضیافتیں کی جاتی ہیں ایک بار تو سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے شاید فی کس کھلاڑی پانچ لاکھ روپے بھی تقسیم کیے تھے۔ ہم نے تو اپنی شکست کے لیے بھی ترانے بنالیے ہیں۔
تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے
کسی بھی شکست پر چاہے وہ بھارت ہی سے کیوں نہ ہو، ہم نے کبھی کوئی انکوائری کرکے ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو ٹیم سے ڈراپ تک نہیں کیا۔ ہمارے موجودہ کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق کے کیریئر کو دیکھ لیں اسے عوام الناس ”ٹھک ٹھک“ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ان کی کرکٹ کے لیے کیا کارکردگی ہے ٹیسٹ میچ میں شاید یہ چل جاتے ہوں، ورنہ ان کے ماتھے پر ”ون ڈے“ کرکٹ کی شکستوں کے کئی داغ ہیں۔ اب ایسے کھلاڑی کو ہیڈ کوچ بناکر آپ کس کامیابی کی توقع کرسکتے ہیں ؟…. کرکٹ ہمارا موضوع نہیں رہا ۔ سری لنکا کرکٹ ٹیم کے دورے پر لگ ایسا رہا تھا کہ بڑی منتوں ترلوں کے بعد سری لنکا کو دورے پر آمادہ کیا گیا کہ اس سے قبل سری لنکن ٹیم پر لاہور میں حملہ ہوا تھا اور یہاں عالمی کرکٹ کے میچ بند ہوگئے تھے۔
ہمیں یہاں کرکٹ کی رونقیں بحال ضرور کرنی چاہئیں مگر جن شرائط پر یہ بحالی ہورہی ہے وہ قابل تحسین نہیں ہیں۔ اتنی سخت سکیورٹی اور پہرے میں کرکٹ میچ تو ہم نے کرالیا ہے مگر لاہور میں عوام کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ لاہور کاٹریفک ہماری پولیس سے ویسے ہی نہیں سنبھالا جاتا اوپر سے قذافی اسٹیڈیم کے اردگرد کی تمام سڑکیں بند کردی جاتی ہیں۔ یہی نہیں ان سڑکوں کا ٹریفک دیگر سڑکوں اور چھوٹی چھوٹی گلیوں میں ”بے لگام “ چھوڑ دیا جاتا۔ کہیں کوئی مناسب متبادل راستہ اوررہنمائی نہیں ملتی۔ سوسارا سارا دن عوام گاڑیوں کی طویل قطاروں میں شدید کرب اور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ کیا یہ تفریح ہے ؟ کیا کسی اور کھیل کو بھی اتنی سنجیدگی سے لیا جاتا ہے؟ سکیورٹی کے مسائل حل کرنے کے لیے ہر اسٹیڈیم کے اندر ہی اعلیٰ پائے کے گیسٹ ہاؤس یا ہوٹل بنا دیئے جائیں تاکہ یہ فائیو سٹار ہوٹلوں سے کھیل کے میدان تک آنے جانے کے مسائل ختم ہوں۔
عوام کو سری لنکن ٹیم کی جیت پر دلبرداشتہ نہیں ہونا چاہیے کہ ان کی جیت ان کی رینکنگ کے لیے ضروری تھی اور ہمیں یہاں عالمی کرکٹ کی بحالی درکار ہے۔ شاید انہی شرائط پر یہ میچ منعقد ہورہے ہیں۔ عوام کا کھلاڑیوں پر غصہ اپنی جگہ مگر کرکٹ کا شعبہ بھی اسی بحرانی دور سے گزر رہا ہے۔ ویسے اگر کرکٹ کے ہیرو وزیراعظم کے دور میں بھی کرکٹ روبہ زوال ہو تو پھر اسے بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی سمجھا جائے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)