عید کے تیسرے روز دروازے پر دستک ہوئی تو سامنے ایک شخص کھڑا تھا۔اس کے منہ سے بیٹے وقارکا نام سن کر میں نے اسے ڈرائنگ روم میں بٹھا لیا ۔بیٹھتے ہی وہ بے تکان بولنا شروع ہو گیا۔
” یہ وقار صاحب ہی کا گھر ہے ناں ؟ جی۔۔ لیکن وہ۔۔ میں نے ابھی جملہ مکمل نہیں کیا تھا کہ وہ بول پڑا : چلیں کوئی بات نہیں دراصل حضور میں نے بھی پرچہ شروع کیا ہے پھر اس نے خاکی لفافوں سے دو صفحوں پر مشتمل اخبار میرے سامنے پھیلا دیا ۔
”ہفت روزہ “ میاں “ (صرف ممبران کے لیے) پیشانی پر دنیا بھر کے خاوندوں کے حقوق کا علمبردار درج تھا۔ مدیر اعلیٰ : ممتاز بھائی پھیروی لکھا تھا۔ “
بس جی پہلا پرچہ وقار صاحب کو دکھانے آیا ہوں وہ آ تو جائیں گے ناں؟؟ چلیں آپ سے بھی گپ شپ اچھی رہے گی۔وقت ضائع کےے بغیر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے اپنے اخبار کی سالانہ زرِتعاون مہم کا آغاز کیا ہوا ہے،بس اسی فنڈ کے لیے در در کی خاک چھان رہا ہوں۔۔۔اب وہ ہا ہا۔ کر کے ہنسنے لگا۔ بولا : بزرگوں سے حاصل کیا گیا فنڈ با برکت ہوتا ہے۔۔میں نے کہا لیکن ۔۔۔اور اس نے میرا جملہ فوراََ جھپٹ لیا ۔
”’ بس تو پھر ٹھیک ہے ،نکالیں ایک ہزار روپے اور دستی بندہ ناچیز سے رسید وصول کر لیں۔۔۔ہاں یہ شاپر بھی“ اس نے ایک شاپر مجھے تھمایا۔قربانی کا گوشت کہہ کر ہا ہاہاہا۔۔ہا قہقہے لگانے لگا۔
میں بمشکل اس بندہ ناچیز کو برداشت کر رہا تھا جو بات بات پر ہا ہاہا ہا کی آوازیں نکالتا تو اس کا نکلا ہوا پیٹ بھی حرکت میں آجاتا۔اس کا قہقہہ مدھم ہوا تو میں نے پوچھا : ” وقار سے آپ کی ملاقات کہاں ہوئی تھی “
” وہ جی کچھ عرصہ قبل بھولا کٹنگ کی دکان پر ان سے ملن ہوا اور یوں دوستی ہو گئی تھی۔آپ کو تو پتہ ہو گا وہ بھی مدیر ہیں اور میں بھی ایک مدیر ہوں ہاہاہاہا۔۔مجاں مجاں د ی بھیناں ہوندیاں نے ”یعنی بھینس بھینس کی بہن ہوتی ہے“۔۔ہا ہاہا کرتے اس کا پیٹ بھی کسی بھینس کے پیٹ کی طرح لگ رہا تھا۔میں نے بمشکل اس کی گفتگو روک کر کہا : اصل میں وقار صاحب گھر پر نہیں ہیں۔
میں اسے ٹالنا چاہتا تھا مگر وہ اپنے سلیپر اتار کر صوفے پر قابض ہو چکا تھا۔چلیں آ تو جائیں گے ناں۔۔ہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔وہ پھر ہنسنے لگا۔میں نے کہا: اصل میں سب گھر والے شہر سے باہر گئے ہوئے ہیں۔گھر میں تو میں اکیلا ہی ہوں۔چلیں جی کوئی بات نہیں آخر کو بندہ کلا ہی رہ جاندا اے (بندہ اکیلا ہی رہ جاتا ہے) اب اس کا لہجہ تبدیل ہو گیا تھا مگر اس کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ بدستور موجود تھی۔
” سر جی!! پیاس لگی ہو تو آپ کیا کرتے ہیں؟“
میں سمجھ گیا وہ کچھ پینا چاہتا تھا،میں اپنی نشست سے پانی کے لئے اٹھا ،یہ سوچتے ہوئے کہ مروت اور لحاظ کا تقاضا ہے کہ آنے والے کا احترام کیا جائے ۔ لیکن اس کے باوجود اس کی بے تکلفی ، بے ساختہ پن ، زندہ دلی اور قہقہوں پر انگشت بدنداں تھا۔
جوس کے دو گھونٹ اس نے گلے میں اتار کر سگر یٹ سلگالیا؟ کش لگا کر بولا : آپ تو شغل نہیں کرتے ہوں گے؟ پھر خود ہی کہا : اچھا اچھاہے ۔ ہم تو اس کے رسیا ہیں۔لگتا ہے چاہلویں ”چالیسویں“تک اسکا اثر رہے گا۔۔ویسے بزرگو آپ کی سیاست سے کوئی دلچسپی ؟
نہیں مجھے سیاست سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں البتہ آپ کچھ اپنے بارے میں بتائیں؟ کیا کرتے ہیں ؟کہاں رہتے ہیں؟ اوہو ہو ہو میں بھول گیا ۔اصل میں وقار صاحب کو تفصیلی تعارف کروا چکا ہوں اور ۔۔ کیرئیر کا آغاز تو میں نے دیسی انڈوں کے کاروبار سے کیا تھا۔جس کے لےے میں باقاعد ہ اخبارات میں اشتہار بھی دیتا تھا۔بس کاروبار ٹھپ ہوا تو میں اشتہارات کی ادائیگی نہ کرنے پر اخبار کا مقروض ہو گیا۔بس پھر اسی جریدے سے منسلک ہو نا پڑا۔ رپورٹنگ اور کالم نگاری کی ذمہ داری بھی سنبھالتا رہا ہوں۔آ پ نے میرا نام یقینا سنا ہوگا!! ممتاز بھائی پھیروی!! اصل میں جی آپ سے کیا پردہ،بھائی پھیرو میں تو لوگ مجھے ماما تاج کہتے تھے۔ میں نے ممتاز بھائی پھیروی رکھ لیا ہے۔یہ دیکھیں ہفت روزہ میاں کی پیشانی پر نام لکھا ہو ا ہے۔ہاں مگر پیشانی پر یہ کیا عبارت لکھوائی ہے: دنیا بھر کے خاوندوں کے حقوق کا علمبردار“؟؟ ہاہاہا اب وہ پھر سے قہقہہ زن تھا ،
دیکھیں جی خاوند ہر جگہ پائے جاتے ہیں لہٰذ ہر ایک آسانی سے ہمارا ممبر بن سکتا ہے۔خاوند دنیا کی مظلوم ترین مخلوق بھی ہے اس لےے ہم نے یہ سلوگن پسند کیا ہے۔ہم نئی حکومت کو بھی خاوندوں کے حقوق کی پاسداری کا مشورہ دیں گے ۔ ”میاں “کا آئیڈیا آپ کے ذہن میں کہا ں سے آیا؟؟بولا : اس کا آئیڈیا مجھے میرے سانڈو نے دیا تھا۔۔ سانڈو کا مطلب سمجھتے ہیں ناں۔۔ یعنی ہم زلف ؟؟ہاہاہاہاہاہاہا۔۔ویسے بہت ہی ڈر پوک خاوند ہے یار ،سارا خاندان ہی اسے رن مرید کہتا ہے ۔پھر ہنستے ہوئے بولا: آف دی ریکارڈ بات بتاؤ ں؟ مجھے ہفت روزہ کا نام ”رن مرید“ بھی پسند آیا تھا۔پھر سوچا نئی حکومت میں کوئی مسئلہ ہی نہ بن جائے۔“
میں اس کی باتوں کو حیرت اور نیم غصے کی حالت میں سن رہا تھا اس کی گفتگو کی روانی میں کوئی اور بول بھی نہیں سکتا تھا۔میں نہایت تحمل سے بیٹھ گیااس کی باتیں جاری تھیں۔
” نئی حکومت کے اعلانات تو اچھے ہیں ! کیا خیال ہے آپ کا؟
جی جی !! بمشکل میرے منہ سے یہی نکل سکاکہ وہ بول پڑا : مجھے تو عمران خان کی پہلی تقریر اور اب تک کے اعلانات و احکامات بڑے اچھے لگے ہیں۔مگر مسلم لیگ ن کے تیس سالوں کے اثرات زائل کرنے میں محنت درکارہے۔خاص طور پر بیورو کریسی کو نتھ ڈال کر رکھنے کی ضرور ت ہے۔بزرگو میں نے تو اپنے کالم میں نئی حکومت کو کئی مشورے دیے ہیں۔میں نے لکھا ہے عمران نیازی صاحب ! اگر عوام کو خوش کرنا ہے تو چار چار شادیاں لازمی قرار دے دی جائیں۔اس پر کون سا مُول زیادہ ہے کہ سادگی تو حکومت کا اپنا نعرہ ہے۔اس طرح ملک میں شادی کلچر عام ہو گا اور غیر شادی شدہ خواتین و حضرات خوش ہو کر دعائیں دیں گے۔“
ابھی وہ بات کر ہی رہا تھا کہ میرا ایک بے تکلف دوست آگیا۔اس نے آتے ہی پہلے تو بھائی پھیروی صاحب کی باتیں غو ر سے سنیں ،میری طرح حیران ہوا۔پھر اس نے مروت اور لحاظ کو سائیڈ پر رکھ کر موصوف کی طبیعت صاف کرنا شروع کر دی۔پھر وہ جگت بازی ہوئی کہ بھائی پھیروی صاحب نے جانے کی اجازت لے لی۔میں نے بہتیرا کہا بیٹھیے آپ دونوں کے لےے میں خود چائے تیار کر تا ہوں مگر اس نے میرے دوست کے ہاتھوں سے اپنا ہفت روزہ چھینا اور کہا : زرِتعاو ن کے بغیر ہم اپنے اخبار کو ہاتھ بھی لگانے نہیں دیتے۔“
میرے دوست نے قہقہہ لگاتے ہوئے اخبار اس کے حوالے کیا اور وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔ حتیٰ کہ وہ سالانہ چندہ اور گوشت بھی بھول گیا۔کیا عجیب اوردماغاََ ہلا ہو ا شخص تھا۔ اگلے روز وقار نے بتایا کہ وہ تو کچھ روز قبل ایک حمام والے کے پاس اپنے بکروں کی جوڑی دکھانے آیا ہوا تھا ۔میں نے اسے اپنا وزیٹنگ کارڈضرو ر دیا تھا مگر بکروں کے لئے ۔ “
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ