دفتروں میں یہ فقرہ لکھنے کا بہت رواج ہے : ” رپورٹ برائے احکام پیشِ خدمت ہے “ ۔۔ہوا یوں کہ ایک شخص نے کمشنر کو درخواست دی کہ اس کی دو بیویاں ہیں ،بچے زیادہ ہونے اور آمدنی قلیل ہونے کے باعث گزر اوقات مشکل ہے سو بندہ کی مالی امداد کی جائے ۔ کمشنر نے وہ درخواست ڈپٹی کمشنر کو مارک کرد ی اور پھر یہ درخواست اے سی ، تحصیل دار سے ہوتی ہوئی پٹواری کے پاس آگئی ۔ پٹواری نے موقع ملاحظہ کیا اور یو ں لکھا : ” زیرِ دستخطی نے موقع پر جا کر چھان بین کی اور تحقیق کے مطابق سائل واقعتاََ سخت مالی بد حالی کا شکار ہے ، بندہ خاکسار کی رائے میں اگر سائل اپنی ایک منکوحہ کو طلاق دے کر میرے نکاح میں دے دے تو اس کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔ رپورٹ برائے احکام پیش خدمت ہے “
رپورٹ اسی ترتیب کے ساتھ اوپر چلتی گئی حسبِ معمول اسسٹنٹ کمشنر نے لکھا : ” احکام صادر فرمائے جائیں ۔ “
جب رپورٹ کمشنر کے پاس گئی تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ کیا احکام صادر کئے جائیں ،کیونکہ تجویز کے مطابق سائل کو اپنی ایک بیوی کو طلاق دینی پڑتی تھی۔“
کچھ اسی قسم کی رپورٹ مولانا فضل الرحمن نے بھی پیپلز پارٹی کو پیش کر دی ہے کہ وہ پی پی اور مسلم لیگ نون کے ثالث بن کر گئے مگر خود صدارتی امید وار بن کر سامنے آگئے۔ اور اپنے لئے پی پی سے ووٹ مانگتے پائے گئے ۔ اب صدارتی امید واروں میں پی ٹی آئی کے نامزد امید وار عارف علوی اور پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن کے علاوہ مسلم لیگی اپوزیشن کے امیدوار مولانا فضل الرحمن بھی شامل ہو گئے ہیں ۔ جس پر دلچسپ تبصرے ہو رہے ہیں کسی نے کہا :
” مولانا نکاح پڑھوانے گئے تھے اور اپنا نکاح پڑھوا آئے ہیں“ ایک طرف سے آواز آئی”ثالث بنائے گئے تھے کہ دونوں سیاسی جماعتوں میں خلیج کم ہو سکے مگر مولانا خود امیدوار کے طور پر نمودار ہو گئے ہیں“۔ تاہم پیپلز پارٹی نے اعتزاز احسن کا نام واپس لینے سے انکار کر دیا ہے ۔بلاول بھٹو نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ : ہمارا پہلا ،دوسرا اور تیسرا امیدوار بھی اعتزاز احسن ہی ہو گا۔ ادھرمولانا فضل الرحمن ہر حال میں” اقتدار کا چولا“ پہننے کو بے چین ہیں۔حالانکہ کچھ روز قبل وہ پاکستان کا یومِ ِ آزادی منانے سے بھی انکاری تھے مگر جیسے ہی انہیں موقع ملاوہ صدارتی انتخابات میں کود پڑے ہیں۔عام آدمی کو مولانا کا یہ دوہرا معیار پسند نہیں آیا۔سوشل میڈیا پر اس سلسلے میں کئی طنزیہ او ر شگفتہ کمنٹس بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ایک صاحب نے لکھا کہ پمز ہسپتال میں ایک بیڈ خالی رکھا جائے کہ مولانا دوسری بار کی شکست شاید برداشت نہ کر سکیں۔ایک صاحب نے تو یہ بھی لکھا : کہ مولانا کو جان بوجھ کر دوسری بار گزند پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔وجہ صاف ظاہر ہے حکومتی امید وار کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اعتزاز احسن ایسا صدارتی امید وار ہے جسے سبھی جماعتوں کو مشترکہ طور پر قبول کر لینا چاہیے تھا۔عمران خان کے حالیہ بعض فیصلوں پر ابھی تک ان کے چاہنے والے مطمئن نہیں ہوئے ۔صدر کی نشست پر ایک مدبر ،زیرک ،سنجیدہ اوربزرگ شخص براجمان ہونا چاہیے تھا۔بزرگ تو خیر ممنون حسین بھی تھے مگر وہ دہی بڑوںاور فروٹ چاٹ کی زد میں آگئے ۔ ویسے بھی عارف علوی صاحب کی قومی اسمبلی کی نشست صدارت کے لیے ضائع نہیں کرنا چاہیے تھی کیونکہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کو دو تہائی ممبران کی اکثریت درکار ہے ۔اس کے بغیر اسمبلی میں کوئی قانون پاس کروانا مشکل ہو گا۔
تحریک انصاف کو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں اور ابھی حکومتیں مکمل ہو رہی ہیں کہ اپوزیشن کی طرف سے عجیب و غریب تنقید شروع ہو چکی ہے ۔کوئی عمران کی نماز عید کی تصویروں کو دیکھنا چاہتا ہے تو کوئی یہ کہہ کر تنقید کر رہا ہے کہ عمران ابھی تک مزار قائد پر کیوں نہیں گئے ۔عمران خان پر اس کے علاوہ پہلے ہی انتخاب وزیراعلیٰ پنجاب کے حوالے سے تنقید بھی جاری ہے ۔ لوگ کہتے ہیں بقول عمران اگر کوئی نیب زدہ شخص کسی عہدے کے لائق نہیں ہوگا ۔ اگر علیم خان کو سنئیر وزیر بنانا ہی تھا تو پھر پنجاب کا وزیر اعلیٰ کیوں نہیں بنا یا گیا۔یہ جانتے بوجھتے بھی کہ پنجاب میں ایک دبنگ وزیر اعلیٰ کی ضرورت ہے ۔ہم تو یہ سوچ رہے تھے کہ شایدعلیم خان کو نیب کے سبب کوئی وزارت نہ ملے ۔ اسی لئے عثمان بزدار کو تخت نشیں کیا گیا ہے ۔مگر عثمان برداز کو وزیر اعلیٰ بنانے کے بعد علیم خان کی سنئیر وزیر کے طور پر تعیناتی ایک حیرت انگیزعمل ہے ۔تحریک انصاف کی حکومت نے ابھی بہت سے فیصلے کرنے ہیں جس کے لیے ہوم ورک کی ضرورت تھی مگر عمران خان ایک کے بعد دوسری غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں۔کبھی بلوچستان کے گورنر کے لئے جوگیزئی کا نام سامنے آتا ہے ، پھر اس کی تردید بھی ساتھ ہی آجاتی ہے ۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے لیے بھی یہی کچھ ہوتا رہا ہے کئی نام سامنے آنے کے بعد بالکل نیا نام سامنے آ گیا جس پر پی ٹی آئی کے کئی قریبی افراد کے تحفظات بھی موجود ہیں ۔۔عوام کی شدید خواہش ہے کہ عمران کو مکمل کام کرنے کا موقع دیا جائے ۔مگر عمران کی پارٹی کے اندر بھی اس کے قریبی لوگ اس کے ایجنڈے سے زیادہ مخلص نہیں۔دبی دبی زبان میں پی ٹی آئی کے بہت سے سرکردہ رہنما ،وزارتیں ملنے کے باوجود بھی اپنے قلم دانوں سے خوش نہیں ہیں۔اسی طرح پاکپتن کے واقعے پر بھی شدید تنقید ہورہی ہے ۔عمران خان کو براہ راست اس کا نوٹس لے کر اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے۔اللہ کرے عمران خان اپنے اعلانات کے مطابق عمل کر کے سرخرو بھی ہومگر انہیں ہر فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو عوام کی تمام توقعات زمین بوس ہو جائیں ۔ ایک لطیفے پر ہی ختم کرتا ہوں جو بلا تبصر ہ قبول فرمائیں:
آدمی تھانیدار سے ۔۔ جناب جنگل میں ڈاکوؤں نے میری کار رکوائی ،مجھ سے نقدی اور زیورات چھینے اور پھر میری ہی کار میں بیٹھ کر فرار ہو گئے ۔
تھانیدار ۔۔ لیکن تمہارے پاس تو ریوالور بھی موجود تھا۔
آدمی ۔۔ جی ہاں ۔ تھا تو سہی لیکن وہ اسے ڈھونڈ نہ سکے میں نے اسے چھپا دیا تھا ۔
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ