کچھ عرصہ قبل میں چوک گزر رہا تھا، دیکھتا کیا ہوں کہ پانچ سات افراد ایک شخص جو غالباََ بے ہوش تھا ،کو اٹھا کر موٹر سائیکل رکشہ میں ڈال رہے ہیں رکشہ میں ڈالنے کے بعد چند لوگ اسی بے ہوش شخص کے ساتھ ہی بیٹھ گئے ۔باقی رہ جانے والوں میں سے ایک سے میں نے یونہی پوچھ لیا کہ ماجرا کیاہے؟ اور یہ لوگ کس کو رکشہ میں ڈال رہے تھے۔ بتایا گیا کہ یہ ہمارا ایک دوست ہے۔ ہم سب یہاں پلاٹ میں بیٹھے گپیں لگا رہے تھے کہ کھانے پینے پہ شرط لگ گئی کہ دو کلو مرغ کڑاہی اور بیس نان کھانے والے کو مبلغ دو ہزار روپے ملیں گے۔وہ جس شخص کو لوگ رکشے میں ڈال کر ہسپتال لے کر جارہے تھے اس نے دو کلو کڑاہی گوشت اور بیس نان کھا کر دو ہزار روپے کی شرط تو جیت لی مگر اب اسے ہسپتال لے جایا جا رہا ہے۔مجھے یہ سن کر بڑا تعجب اور افسوس ہوا
کیا لوگ ہیں ہم لذت ِ دنیا سے بندھے ہیں
پانی کے لئے پیاس کے صحرا سے بندھے ہیں
یہ بھی شاید ہمارے لئے تفریح کی بات ہے کہ اب تک ہم کھانے پینے کی شرطیں لگاتے ہیں ۔ بو علی سینا کا قول ہے کہ :
”بھوک ،تلوار ،توپ اور بندوق سے اس قدر خلقت نہیں مرتی جتنی بسیارخوری سے مر جاتی ہے۔“
خیر یہ بھی اللہ کا شکر ہے کہ ہماری غریب قوم میں کوئی بھوکا نہیں سوتا ،زندگی کی بنیادی ضروریات کا معاملہ اور ہے۔یہ درست ہے کہ وطن عزیز کی کثیر تعدادلوگ اچھے کھانوں کے صرف خواب دیکھ سکتے ہیں مگر اس کے باوجود خوش خوراکی میں ہماری قوم کسی سے پیچھے نہیں ۔لاہور کی زندہ دلی اور خوش خوراکی بھی مشہور ہے۔میں نے کچھ ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو زیادہ کھانے میں شہرت رکھتے ہیں ۔جن دنوں ہم چوبرجی کے علاقے میں رہتے تھے تو ان دنوں وہاں ایک پہلوان بٹ صاحب دہی کا پورا کونڈا دس کلچوں کے ساتھ اکثر کھایا کرتے تھے۔کبھی کبھی وہ پانچ پیالے ،سری پائے مع دس نان آسانی سے ہضم کر لیتے تھے۔ کچھ خبر نہیں وہ ان دنوں زندہ ہیں یا نہیں لیکن کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے لوگ ہمارے معاشرے میں ضرور پائے جاتے ہیں جو صرف اور صرف کھانے کے لئے زندہ رہتے ہیں ۔ حالانکہ ہمارے ہاں بچپن سے سکھایا جاتا ہے بھوک رکھ کر کھانا چاہےے۔مگر دن بھر چلتے پھرتے ہم کچھ نہ کچھ کھاتے پیتے رہتے ہیں ۔دہی بڑے ،فروٹ چاٹ ،گول گپے، پھل ،مکئی کے بھٹے(چھلیاں)،قلفیاں،چائے بسکٹ،پیزا ،برگر وغیرہ کو ہم کھانے میں شمار ہی نہیں کرتے۔یہ سب کچھ کھانے کے باوجود ہم روٹین کا تین وقت کھانا کبھی نہیں بھولتے۔ان دنوں تو کھانے پینے کے باقاعدہ اوقات ہی نہیں رہے۔کسی وقت آپ کچھ بھی کھا سکتے ہیں ۔رات گئے ڈلیوری کے ذریعے اپنی پسندیدہ ڈش منگو ا سکتے ہیں ۔ سو بندہ ہر وقت کھاتا رہتا ہے ۔ کھانے پینے کے حوالے سے ،بھگت کبیر کہتے ہیں :
جیسا اَن جل کھائیے تیسا ہی من ہووے
جیسا پانی پیجئے ، تیسی بانی ہووے
”یعنی جیسا دانا پانی (اناج) کھائیں گے ویسا ہی مزاج طبیعت ہو جاتی ہے۔اور جیسا ہم پانی پیتے ہیں ویسی ہی ہماری گفتگو ہو جاتی ہے۔“ سو کھانا سوچ سمجھ کر اور اعتدال کے ساتھ کھانا چاہئے۔
انسان تو وہ ہے جو زندہ رہنے کے لیے کھائے مگر ہم تو کھانے کے لیے زندہ رہتے ہیں ۔ ہم اپنے معدے کے سائز کے مطابق کھانے پینے کی کوشش نہیں کرتے اور دن بھر ضرورت سے زیادہ خوراک کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں ۔جس سے پیٹ کے کئی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
حضرت ذوالنون مصریؒ فرماتے ہیں :”جو پیٹ کھانے سے بھرا ہو اہو اس میں حکمت نہیں آسکتی۔“ اسلام میں روزے کی فضیلت کون نہیں جانتا مگر رمضان المبارک میں ہم روزے رکھتے ہیں اسکے باوجود بھی ہمارے وزن میں اضافہ ہو جاتا ہے۔کہتے ہیں علم حاصل کرنے کے لیے صبر پہلی سیڑھی ہے مگر بسیار خوری سے ہم اپنا ” آئی کیو “ لیول بھی کم کر لیتے ہیں ۔صبروقناعت بہت بڑی صفات ہیں مگر ہم میں برداشت ختم ہو تی جارہی ہے۔زیادہ کھانے سے انسان کی روح ناتواں ہو جاتی ہے۔کبھی بھوک کا لطف لینے کا حوصلہ پیداکریں۔
حضرت بایزید بسطامیؒ کا قول ہے کہ : ”بھوک ایسا بادل ہے جس سے رحمت کی بارش ہوتی رہتی ہے۔“
کوئی انسان اگر اپنی روح کو بیدار کرنا چاہتا ہے تو اسے خواہشات کا روزہ رکھنا پڑتاہے۔بد قسمتی سے ہم خواہشوں کے رسیا اور غلام بن کررہ گئے ہیں ۔یہی سبب ہے کہ جسمانی اور روحانی بیماریاں بھی بڑھ گئی ہیں ۔
کہتے ہیں دنیا میں جس قدر بیماریاں ہیں وہ خوراک کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں ۔
بابا جی فرماتے ہیں : غرض(خواہش)ہی مرض ہے۔دل کو لالچ ،حرص ،ہوس کینہ ،بغض ، حسد غصہ جیسے امراض سے بچا لیا جائے تو انسان اپنے آپ پر منکشف ہو نے لگتا ہے۔صبر اور برداشت ہمیں توانا بناتے ہیں ۔ایک صوفی کا قول ہے کہ :” جس طرح تو کلام کرنا سیکھتا ہے ،خاموش رہنا بھی سیکھ سکتا ہے۔“عاشق خاموش رہے تو مر جاتا ہے اور عارف خاموش رہے تو اپنے آپ پر قابو پا لیتا ہے ۔ایک اور بزرگ فرماتے ہیں : وہ شخص اپنے نفس کی سب سے زیادہ حفاظت کرتا ہے جو اپنی زبان کو سب سے زیادہ قابو میں رکھتا ہے۔
جس نے اپنے نفس پر کنٹرول کر لیا وہ نجات پا گیا۔اسی سے عرفان و آگہی جیسے خزانے نصیب ہوا کرتے ہیں ۔
امام جعفر صادق ؓ فرماتے ہیں : ” انسان کی عمر طویل ہے بشرطیکہ وہ خود اسے کم نہ کرے “
ماہرینِ صحت کا خیال ہے کہ انسان کو لمبی عمر اور ہمیشہ صحت مند رہنے کے لئے زیادہ تر نباتاتی غذا استعمال کرنی چاہئے، اور خصوصاََ جوانی کے بعد حیوانی چربی اور چربی والے گوشت سے پرہیز ضروری ہے ۔ تیس برس کی عمر کے بعد انسان کے لئے بہترین غذا فروٹ اور سبزی ہے ۔سادہ غذا اور جسمانی صفائی ستھرائی سے انسان نہ صرف یہ کہ خود کو صحت مند رکھ سکتا ہے بلکہ وہ بیماریوں سے پاک زندگی بسر کر سکتا ہے ۔انسان صحت مند ہو تو اس کا دل دماغ بہتر کام کرتے ہیں اور اس طرح وہ روحانی زندگی اپنانے کے قابل ہو جاتا ہے ۔شیخ سعدی ؒ کے اس قول پر ختم کرتا ہوں کہ: جب پیٹ خالی ہو تا ہے تو جسم ، روح بن جاتی ہے اور پیٹ بھرا ہو ا ہو تو روح جسم بن جاتی ہے ایک اور جگہ کہا: بھوک اور مسکینی میں دن گزارنا ، کسی کمینے کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے سے کہیں بہتر ہے “
(بشکریہ:روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ