ڈاکٹر اختر شمارکالملکھاری
ہم بدتہذیبی کی طرف گامزن ہیں؟/اختر شمار

چیخ کر اور اونچی آواز میں قدرے غصے کے ساتھ بولنا اس عہد کی علامت بن چکا ہے۔ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز میں اینکرز چلّاچلا کر بولتے ہیں۔شاید اس طرح اونچی آواز میں بول کر وہ اپنے کہے کو باوزن بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان دنوں چیخ چیخ کر اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی عادت عام ہو چکی ہے۔یہی نہیں ہمارے پاپ سنگرز چیخ چیخ کر گاتے ہیں ،یہاں تک کہ بعض تو منہ کو نہایت بھدے انداز میں کھول کر آواز نکالنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
حالانکہ جو بات دل میں اترتی ہے، دل کو لگتی ہے،وہ دھیمے انداز سے بھی ایسا ہی اثر رکھتی ہے۔مگر ہمارے بیشتر سنیئر تجزیہ نگار (یاد رہے وطن عزیز میں کوئی جونیئر تجزیہ نگار نہیں ہے )بلند آہنگی کو اپنی شناخت بنا چکے ہیں۔خبریں پڑھتے وقت ”نیوز کاسٹرز “ اس طرح چیخ چیخ بلکہ شور مچا کر خبریں سناتے ہیں جیسے کسی دوسرے ملک نے حملہ کر دیا ہو،آگ لگ گئی ہو یا کسی آفت نے آن گھیرا ہو،حالانکہ ایسے واقعات کی خبریں بھی تحمل سے پیش کی جاسکتی ہیں۔ہمارے ہاں کوئی ٹاک شو اکیلے نہیں کیا جاتا۔اس کے لیے اینکروں کی جوڑی تو بہت ضروری ہے بلکہ جوڑی کے ساتھ کبھی کبھی ” شوپیس “کے طور پر ایک عدد خاتون اینکر بھی بٹھا لی جاتی ہے۔جس کا کام پروگرام کا صر ف آغاز کرنا ،بریک لینا یا درمیان میں موضوع کے حوالے سے ایک آدھ جملے سے ”تڑکا “ لگانا ہوتا ہے۔
بلند آواز سے بات کرنا اگر چہ کوئی عیب تو نہیں ہے مگر اپنی اونچی آواز سے سننے والوں میں ایک ہیجان پیدا کرنا کوئی مستحسن بات بھی نہیں ۔ایک دو ”سینئر تجزیہ نگار “ تو باقاعدہ غصے میں نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ وہ ابھی آپس میں گتھم گتھا ہو جائیں گے۔اگر وہ حکمرانوں سے مخاطب ہیں تو وہ باقاعدہ للکارتے ،پھنکارتے اور دھمکاتے دکھائی دیتے ہیں۔
دانش مند لوگ بڑے تحمل سے اپنے موضوع پر بات کرتے ہیں مگر عجیب زمانہ ہے کہ ٹیلی ویژن کے چینلز ”شور“ پیدا کرنے کی مشین بن چکے ہیں۔یہ شور، سننے والوں کے لیے زہر قاتل ہے۔آوازوں کے شور نے بھی ماحول کو آلودہ کر دیا ہے۔سنجیدہ اور مدلل گفتگو تو بہت کم سننے کو ملتی ہے۔بیشتر اینکر نما تجزیہ نگار چیختے چنگھاڑتے پروگرام کرتے ہیں۔ہمارے ہاں تو خوشی کی خبر بھی ”چلاتے “ ہوئے بیان کی جاتی ہے۔شاید نیوز کاسٹر زکو تربیت ہی ایسی دی جاتی ہو کہ خبر کو اسطرح پڑھیں کہ ماحول میں سنسنی پھیل جائے لیکن عموما یہ سنسنی ” مضحکہ خیزی “ میں ڈھل جاتی ہے۔ان دنوں ٹیلی ویژن پرموسیقی بھی چیختے چنگھاڑتی دکھائی دیتی ہے۔ایک گلو کار تو حکیم الامت علامہ محمد اقبال کا کلام پیش کرتے ہوئے بھی آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اس شعرکو اِس قدر بھونڈے انداز میں الاپا جاتا ہے کہ سننے والے کو شدید غصہ آجاتا ہے۔گلوکار نے علامہ اقبال کے شعر کو گانے کی بجائے چلاتے اور چنگھاڑتے پیش کیا ہے۔لیکن یہ انداز موسیقی کو روح کی غذا سمجھنے والوں کے لیے ایک عذاب سے کم نہیں ۔ایسی بے رس موسیقی وبال جان بن جاتی ہے۔حیرت ہوتی ہے کہ پاپ سنگر کوئی گیت ،تحمل سے گا نا پسند ہی نہیں کرتے۔ایک خاتون تو باقاعدہ مضحکہ خیز انداز میں منہ کھول کر گاتی ہے ہمیں تو علم نہیں مگر شاید کسی دشمن نے اسے بتایا ہو کہ اسکے دانت بہت خوبصورت ہیں حالانکہ یہ مکمل سچ نہیں ہے، اسے گاتا دیکھ کر تو باقاعدہ بچوں کو ڈرا یا جا سکتا ہے۔
ویسے تو خاموشی بھی ایک زبان ہے مگر یہ شور توسننے والوں کو علیل ، گلوکاروں ، تجزیہ نگاروںاور اینکرز کو شاید ” ذلیل “ کر رہا ہے۔ اور یہ سب وہ لوگ کر رہے ہیں جو دراصل اپنی آواز خود سننے کی اہلیت نہیں رکھتے۔بیشتر لوگ اپنی آواز پر خود دھیان نہیں دیتے ،اپنے الفاظ پر بھی غور نہیں کرتے کہ وہ کسی سننے والے کے دل پر کیا اثر کرتے ہیں ۔ سیانے کہتے ہیں جس کے پاس دلیل نہ ہو وہ اونچا بول کر اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔بات تو وہ ہوتی ہے جو سنتے ہی دل میں گھر کرجائے۔لب و لہجہ ایسا ہونا چاہیے ،موسیقی ایسی ہونی چاہیے کہ اس کی تاثیر کی خوشبو سننے والے کا دل کو موہ لے۔ ہم تو حیران ہےں یہ کیسی موسیقی ہے جو گانے والے کو بھی پاؤں پر کھڑا نہیں رہنے دیتی۔یہ کیسی تجزیاتی گفتگو ہے کہ اس کے شور سے سارا محلہ اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔ بعض اوقات ہنسی آتی ہے کہ تجزیہ نگار یا اینکر کیوں اتنی اونچی آواز میں بلکہ جذباتی ہو کر بات کر رہا ہے۔ کیا شور کیے بغیر بات نہیں ہو سکتی ہے ؟کیا اس کے لیے چلّانا ضروری ہوتا ہے؟
شاید سارا معاشرہ ہی اسی طرف جا رہا ہے۔ہماراذوق جمال بھی رو بہ زوال ہے۔لباس کیا ،ہماری بالوں کی کٹنگ،داڑھی کے سٹائل سے لے کر جوتوں کے ڈیزائن تک سب کچھ ہماری بد ذوقی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ ہمارے ملبوسات بھی ایسے ہیں کہ ان سے تن ڈھانپنے کا کام، کم ہی لیا جاتا ہے۔ہماری نئی نسل کے فیشن کو دیکھ لیں ،لڑکوں کے بال ،داڑھی ،حلیہ ،اور کلائیوں میں خواتین کی طرح چوڑیاں، کانوں میں کوکے یا بالیاں نیزبعض نے تو باقاعدہ لمبے بالوں کی پونی کی ہوتی ہے۔ہمارے سینیٹ کے ایک نہایت سنیئر ممبر کے بالوں کی پونی تو چلو مسئلہ سیاست کا ہے ، جس پر کم از کم ہم بات نہیں کر سکتے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ آخرمرد، عورت کا روپ کیوںدھارنے لگے ہیں اور خواتین مرد وںکے روپ میں دکھائی دینے کی کوشش کیوں کرتی ہیں۔؟؟
یہ سماج کس طرف جارہا ہے ۔سوشل میڈیا پر غلط بات بھی اس قدر ڈھٹائی اور تواتر سے کی جاتی ہے کہ وہ سچ لگنے لگ جاتی ہے۔ابھی چند روز قبل ایک سابق جج کی دوسری شادی کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی حالانکہ وہ کسی شادی میں امداد کے طور پر چیک لکھ کر دے رہے تھے۔کیا اس طرح ہم دل آزاری کے مرتکب نہیں ہورہے؟ سوشل میڈیا مادر پدر آزاد سہی مگر کچھ تو اخلاقیات کو ملحوظ رہنا چاہیے۔ یہ اخلاقیات ہماری تہذیب کی علامت ہوتی تھیں۔یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں مگر غور کریں تو محسوس ہوگا کسی نہ کسی صورت میں ہم بد تہذیبی کی راہ پر گامزن ہیں۔زندگی کے ہر طبقے کو اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی اصلاح کرنی چاہےے۔۔کیا خیال ہے آپ کا؟
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)