حضرت علی کرم اللہ وجہ کا قول ہے کہ ”اگر کوئی اچھا لگے تے اسے کم ملا کرو، اگر کوئی اچھا لگے تو اسے صرف دور سے دیکھا کرو اور اگر کوئی دل میں گھر کر لے تو اسے صرف یاد کیا کرو“
کس قدر فکرانگیز اور دل نشین خیال ہے، ایک مدت سے یہ قول حرز جان بنا ہوا ہے میرے پسندیدہ افراد (ناپسندیدہ کوئی نہیں) کی فہرست میں بہت سی ایسی ہستیاں ہیں جن کا میں بے حد احترام کرتا ہوں انہیں دور سے دیکھ لیتا ہوں یا حض ان کی یاد سے دل کو مہکائے رکھتا ہوں، انہی میں سے ایک الطاف حسن قریشی صاحب بھی ہیں، ایک دو ملاقاتیں ہیں جو دل کو منور کئے ہوئے ہیں اپنے پرچے کے لئے ایک انٹرویو کیا یوں ان کے پہلو میں بیٹھ کر ان کی باتیں سننے کا موقع ملا یا پھر اک نشست میں ان کی صدارت تھی اور وہ بھی کوئی بہت طویل نشست نہ تھی۔
الطاف صاحب سے زمانہ طالب علمی سے ہی آشنائی ہے ایک قاری کی حیثیت سے ان کا پرچہ پاکستان میں تین نسلوں کی تربیت و تہذیب کرنے میں نمایاں مقام رکھتا ہے، ”اردو ڈائجسٹ“ ڈائجسٹوں کی دنیا میں (بطور خاص اردو زبان میں) قافلہ سالار کی سی حیثیت و مرتبہ رکھتا ہے۔ اب تو ہم پڑھنے کی طرف سے کسی حد تک دور ہو چکے ہیں، انٹرنیٹ اور موبائل فون نے ہمارے اعصاب شل کر دیئے ہیں مگر اس لَت سے جان چھوٹتی نظر نہیں آتی، کتاب سے رشتہ ختم ہوا چاہتا ہے تو یہاں رسائل جرائد پڑھنے کے لئے وقت کس کے پاس ہے؟ ایک زمانہ تھا جب تفریح کا ذریعہ بھی صرف کتابیں اور رسائل جرائد ہوا کرتے تھے گلی محلوں میں بھی لائبریریاں ہوا کرتی تھیں۔ بچے اکثر لائبریریوں سے کتابیں اور رسائل جرائد لے کے پڑھا کرتے تھے۔ ریڈیو ٹی وی کے چھا جانے تک بھی کتابوں سے محبت قائم رہی، لیکن جیسے ہی موبائل فون اور خاص طور پر انٹرنیٹ ہماری زندگیوں میں در آیا، ہم کسی ”جوگے“ نہیں رہے، الطاف حسن وہ شخصیت ہیں جنہوں نے اپنے ہم وطنوں کو اردو زبان کے ساتھ ساتھ وطن سے محبت کرنا بھی سکھائی، ان کی کوثر و تسنیم سے دھلی زبان و اسلوب نے ہمارے کئی نامور اہل قلم، صحافیوں کی بھی کھیپ تیار کی ، آج وہ دانشور اور صحافی خود ”سٹارز“ کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں جن میں مجیب الرحمن شامی، سجاد میر، مسعود ساحر، ممتاز اقبال ملک، ارشاد عارف، اسداللہ غالب، شریف کیانی، مقبول جہانگیر، ضیاءشاہد، رؤف طاہر اور کئی دوسرے احباب شامل ہیں۔
اردو ڈائجسٹ نے پاکستان کی تاریخ مسخ ہونے سے بچائی اس جریدے نے جہاں قوم کی فکری رہنمائی میں حصہ لیا وہیں الطاف حسن اور ان کی ٹیم نے صحافیانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے حق و صداقت کے چراغ بھی روشن کئے، یہ رب ذوالجلال کا خاص کرم ہے کہ اب تک الطاف صاحب تخلیقی اعتبار سے تازہ دم ہیں اور ان کا سانس نہیں پھولا اور ہماری خوش بختی ہے کہ ہم انہیں مل سکتے ہیں دیکھ سکتے ہیں اور ان کے عہد میں سانس لے رہے ہیں۔
الطاف حسن کی کچھ عرصے میں دو ایسی کتابیں صفحہ شہود پر آئی ہیں جن میں پاکستان کے ماہ و سال دیکھے جا سکتے ہیں ان کے انٹرویوز ہماری تاریخ کا حصہ ہیں، جنگ ستمبر 1965ء میں بھارت نے رات کی تاریکی میں حملہ کیا لیکن وطن کے جانثاروں نے دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، وہ نئی نسل جو 1965ءکے بعد پیدا ہوئی اسے اس جنگ کے بارے میں علم نہیں، ضرورت اس بات کی تھی کہ موبائل ہاتھوں میں تھامے نوجوانوں کو اپنی تاریخ کے ان پہلوﺅں کے بارے میں روشناس کرایا جائے جو ان کی نظروں سے اوجھل رہے، 65ءکی جنگ کے دنوں کا جذبہ کاش اس قوم میں ایک بار پھر پیدا ہو جائے، ساری قوم یکجہتی کی منہ بولتی تصویر بن گئی تھی۔ الطاف حسن نے ان ایام کی قلمی تصاویر اس کتاب میں شامل کر دی ہیں، ” جنگ ستمبر کی یادیں “ الطاف حسن قریشی کا عظیم شہکار ہے اس میں زندگی کی رنگا ر نگی بھی ہے اور اس دور میں جذبہ حب الوطنی کی عکاسی بھی، آپ نے اس دور کے زندہ جاوید واقعات قلمبند کر کے نئی نسل پر احسان کیا، وقت تو گزر جاتا ہے مگر ان لمحوں کو اپنے قلم کی روشنی سے اسیر کرنا کسی کسی کے نصیب میں آتا ہے، الطاف صاحب نے اپنی افواج کے بہادر سپوتوں کی کہانی کے ساتھ ساتھ قوم کی فوج کے ساتھ محبت اور عزم و ایثار کی تاریخ رقم کر دی ہے، جو واقعتاً آنے والے دور کے لئے مشعل راہ کا درجہ رکھتی ہے، کتاب میں شامل تحریریں معرکہ ستمبر کے حوالے سے اردو ڈائجسٹ کے صفحات پر درج تھیں لیکن انہیں کتاب میں یکجا کر کے نئی نسل کے لئے محفوظ کر دیا گیا ہے، ان تحریروں سے وہ سارا عہد ایک فلم کی طرح قاری کو مبہوت کر دیتا ہے اوپر سے جاندار اسلوب اور پراثر طرز تحریر لہو میں روشنی کی طرح گھل جاتا ہے۔ ہم تو اس وقت عمر کے اس حصے میں تھے کہ بس خواب سا لگتا ہے، کہ گاؤں میں بھی خندقیں اور مورچے بنا لئے گئے تھے، ریڈیو کے اردگرد لوگ جمع دکھائی دیتے تھے مگر ” جنگ ستمبر کی یادیں “ پڑھ کے ایسے لگتا ہے کہ ہم بھی لاہور کے محاذ پر اپنی فوج کے شانہ بشانہ موجود تھے اور یہ سب کمال الطاف حسن قریشی کے قلم کا ہے، گویا ایک جادوئی انداز تحریر کہ بات کو تصویر کئے دیتے ہیں چند سطریں ملاحظہ ہوں:
”رات گیارہ بجے چاند نکل آتا ہے، ظلمت کے سائے سمٹنے لگتے ہیں، ہوا نام کو نہیں، درخت اور پودے خاموش ہیں، اس بھیانک خاموشی میں ناگاہ چونڈہ میں کتے بھونکنا شروع کر دیتے ہیں، جس سے دہشت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے ان کی آوازیں ایسی ہیں جیسے وہ کسی کا ماتم کر رہے ہوں۔آرمرڈ رجمنٹ کمانڈر اپنے ایک افسر سے کہتا ہے:
”کتوں کا اس طرح بھونکنا کچھ اچھا شگون نہیں، لگتا ہے کچھ ہونے والا ہے“ سر واقعی کچھ ہونے والا ہے دشمن کی چتائیں تیار ہو رہی ہیں، ساتھی مسکرا کر کہتا ہے پھر ایک طویل خاموشی طاری ہو جاتی ہے“۔
کس قدر رواں شستہ تحریر ہے اور منظر کو جس طرح پینٹ کیا گیا ہے یہ ہر لکھاری کے بس میں کہاں؟ کہتے ہیں بعض اوقات نہایت قدآور اور مدبر شخصیات ہمارے اردگرد موجود ہوتی ہیں مگر ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا ہے کہ وہ ہمارے قریب ہی کہیں موجود ہیں، ایسی شخصیات کے جانے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اوہو! کس قدر بڑا انسان ہم سے چھن گیا، بعد میں لوگ کف افسوس ملتے ہیں کہ کیوں نہ اس سے استفادہ کیا گیا۔
میں سمجھتا ہوں الطاف صاحب ایسی ہی شخصیات میں سے ایک ہیں، ان کی قدرومنزلت نہایت ضروری ہے آج ہم انتظار حسین، احمد ندیم قاسمی، سیف الدین سیف، قتیل شفائی، مجید نظامی اور کئی دیگر بڑی ہستیوں کو کھو چکے ہیں، لاہور بڑے لوگوں سے خالی ہو رہا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ جتنے بھی ایسے مشاہیر ہیں ان سے کچھ نہ کچھ مزید فیض حاصل کیا جائے۔ مگر ہم جانے کے بعد اپنے ہیروز کے قصیدے پڑھتے ہیں کالموں پر کالم لکھتے ہیں، ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ایوارڈسے نوازتے ہیں کیا ایسا نہیں ہو سکتا جیتے جی اپنے بڑے شاعروں ادیبوں صحافیوں فنکاروں کی کھل کر حوصلہ افزائی کی جائے، ان کی خدمات کا کھلے دل تے اعتراف کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ الطاف قریشی صاحب کو عمر خضر عطا کرے، وہ اسی طرح اپنی تحریروں سے ہمارے اذہان و قلوب منور کرتے رہیں، خوشی کی بات یہ ہے کہ ان کے صاحبزادے انجینئر کامران قریشی اور پوتے ایقان قریشی بھی ان کے شانہ بشانہ دکھائی دیتے ہیں اللہ انہیں بھی استقامت اور برکتوں سے نوازے۔ (آمین)
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)