غالباً برنارڈ شاکا کہنا ہے ”کسی کو نصیحت نہ کرو کیونکہ بے وقوف سنتا نہیں اور عقل مند کو اس کی ضرورت نہیں ۔“
ویسے بھی کہتے ہیں کہ زیادہ بولنے والوں کی بہت کم باتیں لوگوں کو یاد رہتی ہیں اور آنکھ والا تو وہ ہے جو خود کو دیکھے ….“
ہم بھی ”نئے پاکستان“ کے معماروں کو کوئی مشورہ نہیں دے رہے۔ ہم تو علامہ اقبالؒ ، میاں محمد بخشؒ، مولانا روم اور ان جیسے دیگر بڑے انسانوں اور زیرک بزرگوں کی باتیں یاد دلاتے رہتے ہیں۔ اگر علامہ محمد اقبالؒ فرماتے ہیں (دیں)
دین ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہوملت
ہے ایسی تجارت میں مسلمان کا خسارہ
اور پاکستان میں ”دین اسلام“ جاننے والوں کی کمی نہیں۔ کہنا ان کا (علامہ) یہ ہے کہ دین ضروری ہے، ایمان ضروری ہے اسے گنواکر اگر ملت کو آزادی جیسی نعمت بھی مل رہی ہوتو اس میں نقصان سمجھا جائے۔
قانون تو ہم لوگ بناتے رہتے ہیں، ملک میں قانون کی کتابیں موجود ہیں، عدالتیں بھی پائی جاتی ہیں مگر اس قانون پر عمل کہاں ہوتا ہے۔؟ وطن عزیز میں قانون ہمیشہ کمزور پر لاگو ہوتا ہے۔ اثرورسوخ اور متمول افراد کو جیلوں میں بھی آسودہ زندگی نصیب ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات جیل میں باہر کی دنیا کی نسبت زیادہ آرام اور آزادی میسر ہے، شرط یہ ہے کہ پیسے کی طرف سے کوئی تھوڑ نہ ہو۔ جس زنداں میں اپنی مرضی کا کھانا، خدمت گزار، باہر کی دنیا سے رابطے کے ذرائع یعنی موبائل فون، میل ملاقاتیں، ریڈیو ، ٹیلیویژن ، اخبارات ہر چیز مل جائے اسے کون کم بخت جیل یا زنداں کہے گا ؟؟ بہت سے جرائم کے بادشاہ جیلوں کے اندر بھی ”شاہی“ قائم کیے ہوئے ہیں۔
قانون میں کرپشن کرنے والوں، جعلی ڈگری رکھنے والوں ، ملاوٹ کرنے والوں کو صرف ”جرمانے“ کی سزادی جائے وہاں قانون کا خوف کیسے پیدا ہوسکتا ہے اور لوگ سنور کیسے سکتے ہیں ۔؟
ہمارا نیب کا ادارہ بہت کام کررہا ہے۔ بڑی مچھلیوں کو بھی ہاتھ ضرور ڈالتا ہے پھر ان سے ”ڈیل“ کرکے یا ”خوردبرد“ کی ہوئی رقم سے ”جرمانے“ کی مدمیں وصول کرکے انہیں چھوڑ دیتا ہے۔ یہ سزا تو نہ ہوئی۔ یہ جو جعلی ڈگری یا کسی امیدوار کی غلط بیانی سے جیتا ہوا امیدوار نااہل ہوجاتا ہے اور وہاں دوبارہ الیکشن ہوتے ہیں۔قومی خزانے سے کتنی ہی رقم نئے ضمنی الیکشن پر صرف کی جاتی ہے۔ اور امیدوار کو محض نااہل کیا جاتا ہے کیا یہ سب کچھ اس نااہل شخص کی وجہ سے نہیں ہوا تو اسے محض نااہل کیوں کیا جاتا ہے اسے باقاعدہ سخت سزا دی جائے نااہلی تو بہت کم سزا ہے، یہی نہیں اس نشست پر نئے الیکشن کے تمام اخراجات بھی اسی ”نااہل “ ہونے والے سے وصول کیے جائیں بھلے اس کی ساری جائیداد نیلام کرنی پڑے۔
نیب نے کتنے ہی لوگوں کو جرمانے کی سزادے کر انہیں رہا کردیا۔ یہ کوئی سزا نہیں ہے۔ کرپٹ افراد اسی کرپشن کی رقم میں سے کچھ دے کررہا ہوجاتے ہیں۔ یہ سراسر امتیازی سلوک ہے۔ ماضی میں وہی قوم تباہ وبرباد ہوتی جس کا نظام انصاف درست نہیں تھا اور قانون صرف کمزوروں کا محاسبہ کرتا تھا۔
عمران خان نے اپنی پہلی دوسری تقاریر میں صاف بتادیا کہ بہت سے اور بڑے بڑے لوگ گرفت میں آنے والے ہیں یعنی کسی کو بھی بخشا نہیں جائے گا۔ چاہے وہ کتنا ہی بااثر، متمول اور مشہور شخص ہو۔ لیکن ابھی تک اس پر عمل شروع نہیں ہوا۔
البتہ ٹریفک کے کچھ قوانین میں ترمیم کرکے جرمانے بڑھا دیئے گئے ہیں۔ عام آدمی تو بے چارہ ٹریفک چالان کے خوف سے کہ اسے دوہزار روپے ادا کرنے پڑیں گے، ہیلمٹ خرید رہا ہے۔ ہیلمٹ کی ہوائیں اکثر چلتی رہتی ہیں ایک شور پڑتا ہے چند دن پکڑ دھکڑ ہوتی ہے ہرکوئی ہیلمٹ پر نظر آتا ہے پھر رفتہ رفتہ پرانی روٹین بحال ہوجاتی ہے۔ یہی حال سڑکوں بازاروں اور فٹ پاتھوں پر ناجائز تجاوزات کا ہے۔ اچانک آپریشن شروع ہوجاتا ہے۔ غریب ٹھیلے والوں کی شامت آجاتی ہے۔ کچھ دن بعدیہ ٹھیلے والا بھی اسی جگہ کھڑا اپنا سودا بیچ رہا ہوتا ہے۔ قانون تو موجود تھا کبھی کبھی اس پر عمل بھی ہوا پھر ”مک مکا“ اور بس ….بڑے بڑے لوگوں کی بیکریاں، ہوٹل، فوڈ سٹالز ، کارخانے، فیکٹریاں دونمبر مال بنانے، ملاوٹ کرنے پر آپریشن کی زد میں آنے کی خبریں سنی جاتی ہیں پھر انہیں بھی چھوڑ دیا جاتا ہے کچھ جرمانہ یا رشوت لے دے کر …. اس طرح ملک میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوسکتی۔
نئے پاکستان کے وزیراعظم کے خیالات بھی بہت اچھے ہیں، وہ سادگی بچت کے علاوہ کرپشن کے خاتمے جیسے اعلانات کرتے رہتے ہیں اب عمل کا وقت ہے۔ اگر صرف ہیلمٹ کے خوف سے سڑکوں پر کچھ بہتری دکھائی دے رہی ہے اور سناہے کہ پیدل چلنے والوں ، غلط کراسنگ اور ٹریفک میں خلل پیدا کرنے والوں کو بھی بھاری جرمانے شروع ہوگئے تو یقیناً ہم میں کوئی بہتری آجائے گی۔ ابھی دس بیس ہزار جرمانے کا خوف پیدا کیا گیا ہے۔ شاید عمل بھی شروع ہوجائے۔ کیا ہی اچھا ہو ملاوٹ، کرپشن، بھتہ خوری، جعل سازی پر بھی بعض بھاری جرمانے کی بجائے سخت سزا دی جائے۔ ہم شرطاً کہتے ہیں کہ
کرپشن، ملاوٹ، پر صرف دومجرموں کو سرعام پھانسی دے کر دیکھیں قانون کا ڈر ضرور پیدا ہوگا۔ جان سے پیاری کوئی شے نہیں ہوتی۔ انسان فطرتاً مجبور ہے، مرنا کوئی نہیں چاہتا، اگر جعلی دوائیاں اور خوراک میں ملاوٹ کرنے والوں کو سزائے موت دی جائے تو ان شاءاللہ معاشرے میں سبھی جرائم کم ہوجائیں گے۔ خوف اور ڈر کے بغیر انسان باز نہیں آتا اگر ملک کو لوٹا جارہا ہے تو اس پر حکومتی افراد کومحض بیان بازی کی بجائے قانون کو حرکت میں لانا چاہیے۔
سالے جتھے ملاں لاون ٹھیکے لین جوائی
اس ملک دے کہن سیانے سمجھو شامت آئی
اقربا پروری اور طاقتوروں پر ہلکا ہاتھ ڈالنے کے بجائے سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے تو ماحول بہتر ہوسکتا ہے۔ لیکن بڑے بڑے ٹائیکون آرمی سے ریٹائرڈ ہونے والے اعلیٰ عہدوں پر فائز حضرات کو بھاری تنخواہوں پر رکھ لیں تو فوج بھی اپنے ”پیٹی بھرا“ یا بھائی بندوں کو کیسے گرفت میں لائے گی ؟ یہ مسئلہ عمران خان صاحب کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔ البتہ وہ اگر خودکو بھی احتساب کے کٹہرے میں لائیں اپنے ساتھیوں کو بھی اگر وہ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں، سزا دینے کی اجازت دیں گے تو شاید سبھی اثرورسوخ والے بھی اسے برداشت کرلیں۔ وگرنہ یکطرفہ احتساب نہ پہلے کامیاب ہوا نہ آئندہ ہوگا۔
اصل میں قومی سطح پر، اوپر سے نیچے تک ہم سب کرپٹ ہوگئے ہیں۔ ہم اپنے فرائض پورے کیے بغیر حقوق کی بات کرتے ہیں۔ اساتذہ پڑھانا نہیں چاہتے، ڈاکٹر حضرات جم کر سرکاری ڈیوٹی میں دل نہیں لگاتے، پولیس والے کی تنخواہ کم ہے اوپر سے سیاسی دباﺅ اس نے بھی زندہ رہنا ہے وہ رشوت نہ لے تو کیا کرے۔ جج حضرات سبھی ثاقب نثار جیسے نڈر نہیں ہیں۔ بااثر اور طاقتور لوگوں کے مقدمات سننے کی تاب نہیں رکھتے کہ انہیں اپنے اہل خانہ کی جانیں عزیز ہیں۔
جب سیاسی جماعتیں اپنے اپنے کرپٹ افراد بچانے کے لیے اتحاد کرلیں اور ایک دوسرے کو ” قانون “ سے بچانے کی ڈیل کرنے لگیں تو اس ملک کو سنوارنے کون آئے گا۔؟
عمران خان اگر اداروں کو مضبوط اور خودمختار کرکے انہیں طاقت بخشیں کہ وہ کسی بھی مال دار اور طاقتور سے مرعوب نہ ہوں تو شاید یہاں لوگوں کا ایمان سلامت رہ جائے ورنہ کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ عمران خان کو بھی اپنے احباب کو مختلف اداروں میں کھپانے، انہیں مشیر وزیر بنانے سے اجتناب کرنا ہوگا ورنہ ان پر روٹین سیاستدانوں کی سی تنقید تو جاری رہے گی۔ اگر قانون پر عملدرآمد کرنا ہے تو پھر سب کے ساتھ یکساں سلوک ضروری ہے۔ ورنہ قبضہ مافیا آپ پر غالب آجائے گا۔ خوشحال خان خٹک فرماتے ہیں :
”اہل شر کے لیے پنجہ شاہیں پیدا کر اور اہل خیر کے لیے کبوتر سے بھی زیادہ حلیم وخاکسار بن جا “
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ