الیکٹرانک میڈیا ترقی کی کتنی ہی منزلیں سر کرلے، کتاب کی اہمیت مسلمہ ہے۔ کہتے ہیں کتاب سے بہتر کوئی رفیق نہیں، کتابیں زندہ بھی ہوتی ہیں، زندہ حروف، دھڑکتے لفظوں اور مہکتے جملوں والی کتابیں، مری ہوئی روح کو زندہ کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوتی ہیں ۔ کتابیں ہنستی مسکراتی ہیں، روتی بھی ہیں، رلاتی بھی ہیں، بہترین غمگسار ،رہنما، مشیر، بروقت جگانے ، ہلانے جھنجوڑنے والی، ڈرانے والی، اٹھانے والی اور سنبھالنے والی بھی ہوتی ہیں، ایسی کتب کو سینے سے لگاکر رکھنا چاہیے۔
زندہ قومیں کتاب دوستی میں پیش پیش رہتی ہیں اور کتابوں کی ترویج واشاعت اور فروغ کے لیے ہمہ وقت اقدامات کرتی رہتی ہیں۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے کتاب کلچر آخری سانسیں لیتا محسوس ہوتا ہے، لائبریریاں کتابوں کا مدفن بن چکی ہیں اور اکثر ویران دکھائی دیتی ہیں، حکومت کو اپنے سو بکھیڑے ہیں، کتاب کلچر کے فروغ جیسے سنجیدہ کام کی طرف کس کا دھیان جائے۔ موجودہ حکومت کا بھلے قصور نہ سہی مگر دیگر اشیاءکی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ کاغذ اور اشاعتی میٹریل بھی مہنگا کردیا گیا ہے، سو کتابیں مزید مہنگی ہورہی ہیں ۔ یہ ساری باتیں ہمیں اس لیے یاد آرہی ہیں کہ اگلے روز ایکسپو سنٹر میں ” کتاب میلہ “ میں شرکت کا موقع ملا ۔ یہ کتاب میلہ پچھلے چند برسوں سے تواتر کے ساتھ لگایا جاتا ہے جس کا اہتمام اشاعتی اداروں کی تنظیمیں اورپبلشرز حضرات اپنے طورپر کرتے ہیں۔ اس کتاب میلے میں لاہور کے تقریباً سبھی اہم اشاعتی ادارے اپنے اپنے اسٹالز لگاتے ہیں۔ چار روزہ اس کتاب میلے میں اچھی خاصی رونق ہوتی ہے۔ یہاں کتاب دوستوں کے لیے ایک ہی چھت کے نیچے سبھی پبلشرزکی کتب دستیاب ہوتی ہیں۔ کتب کے ساتھ ساتھ سٹیشنری اور بچوں کے لیے سکول کی ضروری اشیاءاور کھانے پینے کے اسٹالز بھی لگائے جاتے ہیں۔ یہاں پبلشراپنے مصنفین کو بھی مدعو کرتے ہیں۔ میلے میں تخلیق کار اور لکھاری بھی دکھائی دیتے ہیں بعض اسٹالز پر ادیب شاعر قارئین کو اپنی کتب آٹوگراف کے ساتھ دیتے نظر آتے ہیں۔ اس بار ادبی تنظیم اثبات اور لاہورلٹریری فورم نے ایک مشاعرے کا اہتمام بھی کیا جس کی صدارت نامور شاعر نذیر قیصر نے کی مہمان خصوصی کے طورپر خالد شریف ، حمیدہ شاہین اور راقم کو مدعوکیا گیا تھا۔ اثبات کے روح رواں نوجوان شاعر شاہد رضا اور ان کے احباب تھے نظامت کے فرائض بھی شاہد رضا نے ادا کیے، یہاں لگ بھگ چالیس سے زائد شعراءموجود تھے مگر وقت کی قلت کے سبب معروف شعراءہی کو موقع ملا یا پھر دوسرے شہروں سے آئے ہوئے نوجوان شاعروں کو کلام پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ چند نام جو ہمیں یاد رہے ان میں صدر محفل اور مہمانان خاص کے علاوہ عباس تابش ، عدنان خالد، عباس مرزا، ممتاز راشد، عرفان صادق ، سعید عاصم ،توقیر عباس، فخر عباس،سلیم صا بر، وسیم عباس، طارق چغتائی ، فاخرہ انجم ،نائلہ انجم، فراست بخاری ، ملیحہ سید ،سہیل ثانی ، محمد علی صابری، شازیہ مفتی ،پروفیسر فرخ ، آغر ندیم سحر، فریحہ نقوی، نادیہ گیلانی ، فاطمہ مہرو، شفیق عطاری ، شاہ روم خان ولی، جاوید عاطف اور دیگر شامل تھے۔ کتابوں سے بات مشاعرے کی طرف چلی گئی ۔ اس بار ماورا پبلشرز کے اسٹال پر دن بھر شاعروں ادیبوں کا ہجوم رہا۔ یہاں راولپنڈی سے آئی ہوئی مہمان شاعرہ یسریٰ وصال اور عذرا مرزا کی کتابوں کی رسم اجراءکی تقریب بھی منعقد ہوئی۔ بہت سے احباب سے یہاں ملاقات رہی ۔ بک کارنر کے سٹال پر نامور شاعر اور ادبی جریدہ تسطیر کے روح رواں نصیر احمد ناصر کے اردگرد ان کے چاہنے والوں کا ہجوم بھی دیکھا جو ان کی کتابوں پر آٹو گراف لے رہا تھا۔ اشرف جاوید، اعجاز رضوی، ڈاکٹر ناصر عباس نیر ،امجد اسلام امجد، یاسمین حمید، حسن بانو، سلمیٰ اعوان ، ڈاکٹر نجیب جمال، نیلم احمد بشیر ، سلیم شہزاد ، نعیمیہ ذوالقرنین ،توقیر شریفی ، ڈاکٹر امجد طفیل ، ڈاکٹر ضیاءالحسن، اعظم ملک، مرزا یٰسین بیگ اور کئی دیگر لکھاری کتاب میلے میں دکھائی دیئے۔ ایف سی کالج یونیورسٹی شعبہ اردو کی ایم فل کی کلاس کے طلبا وطالبات ڈاکٹر اشفاق ورک اور ڈاکٹر غفور شاہ قاسمی کے ساتھ کتاب میلے میں شریک ہوئے اور تحقیقی وتنقیدی کتب خریدیں۔ کتابیں تو موجود تھیں مگر ان پر رعایت بہت کم دی گئی تھی، آدھی قیمت پر تو کتاب اب اردوبازار سے بھی مل جاتی ہے۔ بیشتر پبلشرز حضرات اپنی شائع شدہ کتب ففٹی پرسنٹ پر فروخت کرتے ہیں۔ یہاں بھی اگر نصف قیمت پر کتاب بیچی جاتی ہے تو کتاب دوستوں کا فائدہ کیا ہے۔؟ ایسے کتاب میلوں پر تو خاصی رعایت پر کتابیں دستیاب ہونی چاہئیں ۔ پبلشرز حضرات کتاب کی قیمت زیادہ رکھتے ہیں اور پھر آدھی قیمت کا رعایتی ”لولی پاپ“ خریداروں کو گویا ایک احسان بھی جتاتے ہیں۔ بعض اشاعتی ادارے تو قیمت سرے سے کتاب پر درج ہی نہیں کرتے اور گاہک کی حیثیت کے مطابق نرخ وصول کرتے ہیں۔ بہانہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کاغذ مہنگا ہوچکا ہے اور پرنٹنگ کے نرخ بھی بڑھ گئے ہیں۔ اب جس ملک میں آئے روز پیٹرول کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں اور اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بڑھ جائیں وہاں کتاب اور وہ بھی مہنگی کون خریدے گا۔ پھر ہم ایسے کتاب کے دلدادہ تنقید کرتے ہیں کہ سماج میں کتاب کلچر فروغ نہیں پارہا۔ کسی حدتک تو یہ بات درست ہے کتابیں لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوچکی ہیں۔ حکومت اگر ملک میں جہالت کا خاتمہ چاہتی ہے، انتہا پسندی سے نجات چاہتی ہے تو اسے تعلیم وتربیت پر توجہ دینا ہوگی اور اس کے لیے کاغذ اور پرنٹنگ میٹریل کو سستاکرنا پڑے گا تاکہ کتاب عام لوگوں کی دسترس میں ہو۔ کتابیں سستی ہوں گی تو خریدار بھی بڑھیں گے۔ پھر لائبریریوں کی بحالی پر بھی توجہ درکار ہے۔ کتاب میلوں پر رش دیکھ کر مایوس نہیں ہونا پڑتا اب بھی اگر کتاب سستی کردی جائے۔ اور اس کے فروغ کے لیے حکومتی سطح پر اہم اقدامات کیے جائیں تو ملک میں علم وشعور عام ہوسکتاہے۔ پڑھے لکھے باشعور عوام صبر برداشت، سوجھ بوجھ اور عقل سے کام لیتے ہیں۔ یہ جوکچھ روز قبل سڑکوں کو بند کرکے جلاﺅ گھیراﺅ کے واقعات دیکھنے میں آئے غور کریں تو آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان میں زیادہ تر ان پڑھ بے روزگار اور نوعمر نوجوان ہی دکھائی دیئے ، جن کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے اور وہ یہ دیکھے بغیر گاڑیاں روک کر ان پر ڈنڈے برسا رہے تھے کہ گاڑیوں میں عورتیں بچے بھی سوار ہیں۔ بعض ٹرکوں اور بسوں کو بلاوجہ آگ لگاکر تماشا دیکھا گیا۔ ہم نے ٹیلیویژن پر بھی اور خود گھر سے باہر نکل کر بھی دیکھا اس ہجوم میں کوئی پڑھا لکھا اور معقول انسان نہیں تھا۔ شغلاً بھی نوجوان آنے جانے والوں کا راستہ روک رہے تھے اور موٹرسائیکلوں پر ڈنڈے برسا کر آگ لگارہے تھے۔ جہاں جہاں اس قسم کا تشدد اور جلاؤ گھیراؤ دیکھا گیا وہاں تحریک لبیک کے کارکن کم ہی دکھائی دیئے،نفسیاتی طورپر بھی ایسے موقعوں پر گھروں سے نکل کرنوعمر اور نوجوان لڑکے اس قسم کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ آڑ وہ یقیناً مذہبی قیادت کی لیتے ہیں۔ ظاہر ہے ٹریفک تو مکمل بند ہوتا ہے اور یہ تفریحی ”چسکا“ ان لوگوں کے لیے مفت میں مل جاتا ہے۔ اگر معاشرے میں اس طرح کی جہالت نہ ہو۔ لوگ باشعور ہوں تو کسی شخص کی ذاتی گاڑی کو کون نقصان پہنچا سکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ بات پھروہی ہے کہ معاشرے میں کتاب کلچر فروغ دیا جائے اسے اہمیت دی جائے۔ لوگوں کو علم وشعور کی طرف اسی راستے سے راغب کیا جاسکتا ہے۔ کتاب میلے تو ہرماہ لگنے چاہئیں اور حکومت کی سرپرستی ہونی چاہیے۔ کاغذ سستا ہونا چاہیے تاکہ کتاب مہنگی نہ ہوسکے۔ کہتے ہیں جس گھر میں کتابیں نہیں وہ ویران ہے۔ کتابوں کے بغیر گھر گھر نہیں ہوتا۔ آئیے کتاب دوستی کے لیے ہم سب اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔ پبلشرز حضرات کو دگنا منافع کمانے کے بجائے کتاب کی اشاعت کو ایک مشن سمجھنا چاہیے۔ ایک اور بات بھی چلتے چلتے کہنا ضروری ہے کہ پبلشرز کاغذ کمپوزنگ ،پرنٹنگ ،بائنڈنگ حتیٰ کہ مارکیٹنگ کرنے والوں کو بھی معاوضہ دیتے ہیں مگر مصنف جس کے لفظوں سے کتاب تیار ہوتی ہے اسے ”ٹرخا“ دیا جاتا ہے۔ رائلٹی تو ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جانے والے اہل قلم کو نصیب ہوتی ہے۔ بعض اوقات چند کتابیں دے کر مصنف کو بھگتا دیا جاتا ہے۔ پبلشرز کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ بیشتر اہل قلم اپنی کتابیں خود شائع کرتے ہیں، ایسے میں اشاعتی اداروں کو کتاب کی سرکولیشن میں معاون ثابت ہونا چاہیے مگر پبلشرز صرف اپنی شائع شدہ کتابوں پر توجہ دیتے ہیں۔اہل قلم کے لیے اگر ہمارے سرکاری علمی ادبی ادارے خاص طورپر اکادمی ادبیات پاکستان، نیشنل بک فاؤنڈیشن کوئی منصوبہ بندی کریں کہ ہرمصنف کی پچاس پچاس کتب نقد خرید لیں تو بھی لکھنے والوں کا خرچہ پورا ہوسکتا ہے۔ مگر اس کے لیے حکومت کی سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ یہاں تو کتب پر ایوارڈ اور قومی ایوارڈ بھی اپنے سیاسی جماعتیں اپنے اپنے دھڑے کے ادیبوں شاعروں کو دیتی ہیں۔ جس جماعت کی حکومت ہو وہ اپنے دھڑے کے مصنفین کو نوازتی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ