سیاستدان سے بھری ہوئی ایک بس بے قابو ہوکر کھیت میں جاگھسی، شور کی آواز سن کر کسان اپنے فارم ہاؤس سے باہر نکلا اور ایک بڑا سا گڑھاکھود کر سارے سیاستدان اس میں دفن کردیئے۔ دوروز بعد پولیس کا وہاں سے گزرہوا۔ انہوں نے اس کسان سے بس کا معاملہ دریافت کیا۔
کسان نے تمام تفصیل سنائی تو انسپکٹر نے پوچھا :
کیا تمام سیاستدان مرچکے تھے؟
کسان نے جواب دیا۔ مگر کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ وہ زندہ ہیں لیکن آپ کو پتہ ہے جناب !سیاستدان کتنا جھوٹ بولتے ہیں۔“
اس لطیفے سے کوئی بھی شخص یہ مطلب نہ لے کر واقعتاً سیاستدان جھوٹ بولتے ہیں۔ حال ہی میں ہمارے ”منجھے“ ہوئے سیاستدان آصف زرداری نے فرمایا ہے کہ منی لانڈرنگ کیس میں اگر انہیں گرفتار کیا گیا تو وہ اور زیادہ مشہور ہوجائیں گے۔
اس کا سراسر مطلب یہ ہے کہ وہ جیل میں جاکر نہ صرف یہ کہ جیل کے قیدیوں کے درمیان گھل مل کر مقبول ہوجاتے ہیں بلکہ جیل میں سے کئی صحافیوں سے بھی ان کا رابطہ پہلے سے زیادہ ہوجاتا ہے۔ پنجاب میں ہوں تو کوئی نہ کوئی ایڈیٹر انہیں ”مردحر“ کا خطاب بھی دے دیتا ہے۔ ان پر کالم لکھے جاتے ہیں۔ پھر عدالتوں میں تو ان پر کوئی مقدمہ ثابت ہی نہیں ہوتا۔ اور بالآخر انہیں رہائی نصیب ہوتی ہے۔ اور اس سے ان کی پارٹی کو بھی فائدہ ہوتا ہے ۔ اور وہ الیکشن میں جیت بھی جاتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے ایک جیالے کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی تو ہمیشہ زیرعتاب رہی ہے۔ جیلیں ہمارا راستہ نہیں روک سکتیں، اور اہم مسئلہ الزام ثابت کرنا ہوتا ہے۔ شرجیل میمن کے ہسپتال کے کمرے سے تو خود چیف جسٹس شراب برآمد کرکے اسے ثابت نہیں کرسکے تو ایان علی، ڈاکٹر عاصم اور آصف زرداری کے فرنٹ مین سے کچھ ثابت کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب۔آصف زرداری نے تو حامد میر کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ عام لوگوں کے بینک اکاؤنٹس میں رقوم نکل رہی ہیں اور مورد الزام انہیں ٹھہرایا جارہا ہے اگر یہ سب سچ بھی ثابت ہو جائے تو بھی میں اپنا دفاع کرسکتا ہوں پھر میری مرضی ہے میں جس کے اکاؤنٹ میں رقوم رکھوادوں۔ البتہ جس غریب آدمی کو اپنے اکاؤنٹ کی رقم کی خبر نہیں یہ تو سراسر اس کا قصور ہے۔“ اس انٹرویو میں آصف زرداری کے خیالات سے عوام میں ”خوشی“ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یہ خیالات بھی آصف زرداری کی مزید شہرت کا سبب بن رہے ہیں۔ ویسے وہ مشہور تو پہلے بھی ہیں ۔ مشہوری بھی قسمت والوں کو ملتی ہے۔ کیلوں کی ریڑھی والا بچہ بھی راتوں رات مشہور ہوگیا ہے جس کی ریڑھی سے احتجاجی مظاہرین نے کیلے لوٹے تھے۔ اگرچہ اس سے قبل بھی ایک کیلوں والا مشہور ہوچکا ہے۔ جب جلوس کے شرکا اس کے کیلوں پر جھپٹ رہے تھے تو خود اس نے بھی سرعت سے کیلے کھانا شروع کردیئے۔ ایک ”لٹیرے“ نے ہنستے ہوئے پوچھا اے پھل فروش! تم خود اپنے کیلے جلدی جلدی کھانے لگ گئے ہو تو اس نے کیلا منہ میں ٹھونستے ہوئے کہا :
”کاکا! اب یہی میری بچت ہے۔ یعنی جتنے کیلے میں خود کھالوں ۔“
بات شہرت کی ہورہی تھی۔ شہرت کی دیوی تو بہت سے لوگوں پر مہربان ہے۔ ایک چائے والا راتوں رات مشہور ہوگیا تھا۔ ”ون پونڈ فش“ والا نوجوان بھی ایسے ہی بخت والوں میں سے ایک تھا۔
آصف زرداری تو پہلے ہی بہت مشہور ہیں۔ اب تو سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ بہت سے بیوروکریٹ بھی مشہور ہوگئے ہیں۔ احد چیمہ، فواد حسن فواد اور کئی دوسرے آئے روز خبروں میں رہتے ہیں۔ پچھلے دوتین روز سے ہمارے عطاءالحق قاسمی خبروں میں ہیں۔ حالانکہ وہ بھی پہلے سے مشہور ادبی شخصیت ہیں۔ یاروں کے یار ہیں۔ اچھے دنوں میں اپنے احباب کو فراموش نہیں کرتے۔ نجانے عدلیہ ایک تخلیق کار کے پیچھے ہاتھ دھوکر کیوں پڑ گئی ہے۔ جہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہو وہاں اگر کسی شاعر ادیب کو تنخواہ یا مراعات نصیب ہوئیں تو برداشت کرلیا جائے۔ یہ مراعات انہیں حکومت وقت نے دی تھیں۔ قاسمی صاحب کے لیے اب ان ادیبوں شاعروں کی آواز اٹھانی چاہیے، جو ان سے کانفرنسوں ایوارڈز مشاعروں اور دیگر نوازشات کی صورت میں کچھ نہ کچھ حاصل کرتے رہے ہیں۔ مگر افسوس ہوا ”چوری کھانے“ والوں کا ایک کمنٹ بھی ان کے حق میں نہیں نظر آیا۔ بقول شاعر:
کہاں ہیں وہ مرے احباب آخر سب کہاں ہیں
انہیں مشکل میں مرے ساتھ ہونا چاہیے تھا
ہم تو قاسمی صاحب کی گڈبکس میں کبھی شامل نہیں رہے۔ ہم تو فقیر لوگ ہیں کہ
نہ کسی سے دوستی نہ کسی سے بیر
ویسے ذاتی طورپر ہم اپنے قارئین کے لیے لکھتے رہتے ہیں کہ یہ دولت نام ونمود جائیداد، بینک بیلنس سب کچھ یہیں رہ جائے گا۔ آصف زرداری کتنے ہی اور مشہور ہوجائیں آخر ایک روز انہیں بھی دنیا چھوڑنی ہے تو پھر دنیاوی ”حرص ہوس“ میں بندہ گردن گردن کیوں دھنس جاتا ہے۔؟ سرے محل یا بڑے بڑے فارم ہاﺅسز میں رہنے والے ایک 6فٹ کے بیڈ پر ہی سوتے ہوں گے۔ بندے کو اتنی پرتعیش زندگی بھی نہیں گزارنی چاہیے کہ پھر جیل جاتے ہی ہسپتال کے کمرے کی رعایت حاصل کرنی پڑے۔ ہمیں تو میاں نواز شریف کی چپ سے بھی لگتا ہے کہ وہ بھی سوچتے ہوں گے کہ انہوں نے کیا ”کھویا پایا“ ہے۔ بیگم چل بسیں۔ اس چار دن کے تعیش اور حکمرانی کا کیا حاصل وصول ہے کہ اب پھر ”زنداں“ کی تلوار لٹک رہی ہے۔ بھائی صاحب بھی اندر ہیں۔
سیاستدانوں بیوروکریٹس اور دیگر حکمرانی کی خُوبُورکھنے والوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے کوئی عہدہ آپ کو عطا کیا ہے تو اس سے خلق خدا کے لیے کچھ کرجائیں یہی آپ کا حقیقی اثاثہ ہے۔ موجودہ حکومت اور باقیماندہ افسرشاہی کو عبرت کے بعد اپنے آپ خدمت کے لیے وقف کردینا چاہیے۔
آج ہلکا پھلکا کالم لکھنے کا ارادہ تھا مگر پھر سنجیدہ ہوگیا۔ خیر چلتے چلتے یہ شعر آپ کی نذر:
جتنے سخن ہیں سب میں یہی ہے سخن درست
اللہ آبرو سے رکھے اور تندرست
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ