عظیم عربی مفکر ابوالعلا معری کہتے ہیں :
”حیف ہے اس نفس پر جو کھانے پینے کی محبت میں ذلیل بنا ہوا ہے۔“
ایک اور دانشور نے لکھا :
”جب تک جسم میں لذت کوشی، غصہ، غروراور دنیوی لگاؤ کی ”کانیں“ ہیں، عالم جاہل ایک سے ہیں۔“
ابن حکمؒ کا قول ہے کہ انسان کو ایک زبان، دوکان اور دوآنکھیں اس لیے دی گئی ہیں کہ وہ کلام کرنے کی بجائے زیادہ سنے اور زیادہ دیکھے۔“
بدقسمتی سے ہمارے ہاں نصیحتیں کرنے والے زیادہ ہیں اور عمل کرنے والے بہت کم ۔ ہم ہمیشہ دوسروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اپنی کوتاہیوں اور کجیوں کو آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔
یہ دنیا غوروفکر کا مقام ہے مگر ہم نے بس اسے کھانے کا معمول بناکر ”انھے واہ“ چسکوں میں اپنی عقل وفراست کو تباہ وبرباد کرلیا ہے۔ ٹیلیویژن سکرین نے کئی بالشیے بھی قدآور بنادیئے ہیں چار دن تواتر کے ساتھ جو ٹی وی سکرین پر آتا ہے خود کو عقل کل سمجھنے لگتا ہے۔ بھلے اسے ڈھنگ سے بات کرنے کا سلیقہ بھی نہ ہو۔ ایسے لوگوں کو سکرین سے الگ کرکے ان کے معمولات کو دیکھا جائے تو ان کے حقیقی رویوں پر حیرت ہوتی ہے۔
وطن عزیز میں ایسے دانشوروں کی بہتات ہے جو دنیا کی دلدل میں ناکوں ناک دھنسے ہوئے ہیں ، ہمیں تو ان کی دانش پر حیرت ہوتی ہے کہ وہ دنیا کی حقیقت سے بے خبر ہیں، اور انہی روزوشب کے لذائز ، شہرت مال ودولت اور اپنے بڑے بڑے فارم ہاؤسز کو سب کچھ سمجھے ہوئے ہیں۔ یہی نہیں وہ ان اشیائے فانی پر اتراتے بھی ہیں، یہ بھی نہیں کہ ان کے پاس تعلیم اور ڈگریاں نہیں، بعض تو علما کی صفوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ اور دین کی باتیں عام لوگوں سے کہیں زیادہ جانتے ہیں۔ مگر یہ سارا علم وہنر اور صلاحیتیں وہ دنیا کی بھٹی میں جھونک رہے ہیں۔ ان میں شاعر ادیب ، صحافی اینکر کالم نگار عالم فاضل افراد بھی شامل ہیں۔
ان کے روز وشب دھن دولت کے حصول میں گزرتے ہیں۔ آسائش وآرام جب تعیش میں ڈھل جائے انسان ”بیمار“ ہو جاتا ہے بھلے وہ بظاہر صحت مند دکھائی دے۔ روحانی سطح پر وہ خودستائی، خودنمائی کے امراض کا شکار ہوجاتا ہے۔ مولانا روم نے ایسے دانشوروں یا عالم فاضل افراد کے لیے کہہ رکھا ہے:
علم رابر تن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود
یعنی ”علم کو تن پروری کے لیے استعمال کرو تو وہ سانپ بن کر ڈستا ہے لیکن علم سے باطن آراستہ کرو تو وہ دوست اور رفیق ہوگا“۔
ہم اپنا علم وہنر ذاتی شہرت نام ونمود کے لیے استعمال کرتے ہیں اور خسارے میں رہتے ہیں۔ اگر علم روشنی ہے اور اسی سے ہم خود مستفید ہوتے یعنی اگر علم کی روشنی سے ہمیں زندگی یا دنیا کی حقیقت کا پتہ نہ چلا تو یہ علم کس کام کا ۔ پھر ہمارا انجام سوائے بے بسی بے چارگی اور رسوائی کے اور کیا ہوسکتا ہے۔
ہم جائیدادیں بنالیں، بڑی بڑی فیکٹریاں اور کاروباری مراکز بنالیں، اگر دوسروں کے کام نہیں آتے، تو یہ سب بے کار ہے، یہ سب چیزیں تو دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ اصل معاملہ محض عبادات نہیں لوگوں سے معاملات کا ہے۔ میرے پاس اگر بے تحاشادولت ہے، اپنی ایئرلائنیں ہیں، کارخانے ہیں مگر میرے ہاں کام کرنے والے ناخوش ہیں، ان سے میرا رویہ سفاکانہ ہے تو بھلے میں رمضان المبارک کے روزے حرم میں جاکے رکھوں، عمرے کرلوں وہ سب بے سود ہیں لوگ مجھ سے راضی نہیں۔ اپنے قریبی دوست عزیز والدین مجھ سے خفا ہیں تو سچی خوشی سے میں کبھی ہمکنار نہیں ہوسکتا۔ دوسروں کو دکھ دے کر ، ان کا حق نہ دے کر جو دھن میں نے کمایا اس سے جو رزق کھایا وہ میرے من اور تن کے لیے نہایت نقصان دہ ثابت ہوگا۔
ایک عربی شاعر کہتا ہے :
”دنیا میں جتنی بھی بیماریاں ہیں وہ خوراک کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں“
دھن اچھا نہیں تو اس سے حاصل ہونے والا رزق اور پھر اسے کھانے کے بعد دل خوش نہیں ہوسکتا۔ ایک بے سکونی بے چینی لاحق رہے گی یعنی انسان بیمار ہوگا اور پھر موت کا چارہ نہیں۔ آپ دنیا کے مہنگے ترین ہسپتال میں بھی مرجائیں گے۔ اگر سکون اور سچی خوشی کے متلاشی ہیں تو ضرورت مندوں اور مستحقین کو خوش کریں آپ بھی خوش ہو جائیں۔ دوسروں کو دکھ دے کر انسان خود کبھی خوش نہیں رہ سکتا۔ دل آزاری کرنے والے دل کے چین سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اے دانشوران قوم !دوسروں کو نصیحت کرتے ہوئے اپنے آپ پر بھی نظر ڈال لیا کیجئے۔ ٹی وی پر اخلاقی بھاشن کے ساتھ ساتھ اپنے گریبانوں میں جھاتی مارنا ضروری ہے۔ حرص وہوس لالچ ، غرور غصہ یہ سب دل کی بیماریاں ہیں۔ یہ دیمک کی طرح اور گھن کی طرح آپ ہم کو اندر سے کھارہی ہیں۔ تن پروری پر ہی فوکس نہ کریں من کا خیال رکھیں دل کا سکون اربوں روپے سے بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ بڑے بڑے عالیشان محلوں میں رہنے والے نیند کے لیے نیند کی گولیاں کیوں استعمال کرتے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ سے اشیاءکے معافی مانگو، علم کی دعا کرو، جب اشیائے خوردونوش کا مفہوم آپ پر کھل جائے گا تو آپ محض کھانے کے لیے زندہ نہیں رہیں گے۔ کیونکہ جیسا ہم کھاتے ہیں اس کے اثرات ہمارے بدن اور روح پر بھی ہوتے ہیں۔
یہ جو ڈپریشن اور غصہ بہت آتا ہے اور اپنے علاوہ ہم کسی اور کو بندہ نہیں سمجھتے، اس وہم کی بیماری سے نجات حاصل کریں۔ رویوں کو درست کریں۔
شہرت کی چاندنی میں نہانا سب کو اچھا لگتا ہے۔ بعض اوقات شہرت کے نشے میں اندھی خود اعتمادی ہمیں شرف انسانیت کے درجے سے نیچے لے جاتی ہے۔ اور پھر اندر کا چراغ بجھ جاتا ہے۔
تفکر تدبر کا راستہ نجات کا راستہ ہے۔ آنکھ والا وہ ہے جو خود کو دیکھے۔ دوسروں کو تو سبھی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ بہت زیادہ بولنے والوں کی بہت کم باتیں لوگوں کو یاد رہتی ہیں۔ محبوبیت کے درجے پر فائز ہونے کا شوق فطری ہے مگر اس کے لیے ہرقدم پر خود میں حوصلہ بردباری برداشت پیدا کرنی پڑتی ہے۔ مگر ہم انسان ہیں دنیا دار ہیں آخر دنیاوی ”چکاچوند“ میں خود کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ اپنی اصل سے دور ہو جاتے ہیں۔ کہتے ہیں ہردن یوں گزارو جیسے زندگی کا آخری دن ہو مگر ہم تو ہرطعام یوں کھاتے ہیں جیسے یہ زندگی کا آخری طعام ہے۔ خود میں صبر برداشت پیدا کریں۔ ہرحال میں راضی رہنا سیکھیں اسی میں آپ کی بہتری ہے۔
میاں محمد بخش ؒ نے کیا خوب کہا ہے :
پڑھنے دا نہ مان کریں توں نہ آکھیں میں پڑھیا
اوہ جبار قہار کہاوے متاںروڑھ چھڈیں دودھ کڑھیا
یعنی اپنے علم وفضل کا تکبر نہ کرنا نہ ہی اپنے آپ کو عقل کل سمجھنا اللہ تعالیٰ جبار قہار ہے انسان اس کی گرفت میں آسکتا ہے ایسا نہ ہو کہ کاڑھا ہوا دودھ ہی گرا بیٹھے۔
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ