کہتے ہیں ” بڑا آدمی وہ ہے جس کے پاس بیٹھنے والا کوئی بھی شخص خود کو چھوٹا محسوس نہ کرے“ پنجاب کے دل لاہور میں ایسی شخصیات میں ایک ہمارے محسن و مہربان ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا بھی ہیں۔ ان کے پاس بیٹھنے والے کبھی احساس کمتری کا شکار نہیں ہوتے۔ میں نے اکثر ان کے پاس ایم اے کے طلباءاور نوجوان بیٹھے دیکھے ہیں جن کی باتیں آپ بڑی توجہ سے سنتے ہیں۔ یہ واحد ادبی شخصیت ہیں کہ کسی مصنوعی پروٹو کول اور تکلف کے بغیر تھڑے پر بھی آپ کے ساتھ بیٹھ جانے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ یہ ان کی بڑائی ہے کہ ادب تنقید و تحقیق کے نامور استاد اور ماہر تعلیم ہو کر بھی بالکل عام انسانوں کی طرح رہتے ہیں اور ان کی گردن میں کبھی جعلی بڑے آدمیوں کی سی اکڑ نہیں پائی جاتی۔ ورنہ یہاں تو معمولی سا عہدہ بھی انسان کو فرعون بنا دیتا ہے۔
آپ سے میری پہلی ملاقات ان دنوں ہوئی جب میں نیا نیا لاہور آیا تھا آپ اُن دنوں شعبہ اردو اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کے چیئرمین تھے۔ مجھے پندرہ روزہ دیدشنید کے ایڈیٹر محترم رفیق ڈوگر صاحب نے آپ کا انٹرویو کرنے کا ٹاسک دیا تھا۔ اس پہلی ملاقات ہی میں ان کا رویہ اس قدر مشفقانہ تھا کہ مجھے محسوس ہوا جیسے وہ مجھے برسوں سے جانتے ہیں۔ وہ ایک طویل اور بھر پور انٹرویو تھا۔ جس میں ادب ادیبوں اور اصنافِ ادب پر کُھل کر آپ نے اظہار خیال کیا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ادبی حلقوں میں خواجہ صاحب کے اُس انٹرویو کی گونج دیر تک سُنی جاتی رہی۔ اسی انٹرویو میں ایک سرخی کچھ یوں تھی: ” منیر نیازی چھوٹے اور محدود کینوس کا شاعر ہے “ منیر نیازی اس انٹرویو سے خاصے ناراض بھی رہے۔ لیکن ایسے دو ٹوک اور دلیرانہ بیانات دینے میں خواجہ صاحب اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ وہ بغیر تعصب سچی اور کھری بات کرنے کے قائل ہیں یہی سبب ہے کہ نام نہاد ادبی اشرافیہ سے آپ کی کبھی گاڑھی نہیں چھنی۔
ایک بار انڈیا سے کچھ ادیب آئے ہوئے تھے اور غالباً فخر زمان میزبان تھے۔ اسی تقریب میں کسی نے قیام پاکستان اور دو قومی نظریے کے خلاف بات کرنے کی کوشش کی تو آپ نے تقریب کے دوران ہی اُسی وقت کھڑے ہو کر اُس بھارتی ادیب کو جھاڑ پلائی اور کہا کہ آپ ادب پر بات کریں پاک بھارت کے درمیان کی دیوار یا تقسیم پر اپنا نقطہ نظر اپنے پاس رکھیں۔ آپ نے برجستہ کہا کہ پاکستان کا قیام اور تقسیم پاک و ہند کی ضرورت اور درست فیصلہ تھا۔ ہم دیواروں کے ہوتے ہوئے بھی اچھے ہمسائیوں کی طرح پر امن زندگی بسر کر سکتے ہیں۔
بہت سے دوستوں کو یاد ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب کی بے باکانہ گفتگو کے بعد ساری محفل کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ خواجہ محمد زکریا شہرت اور پیسے کے پیچھے کبھی نہیں بھاگے۔ یہ سب کچھ تو ہمیشہ ان کے تعاقب میں رہا ہے۔ زمانہ طالب علمی ہی سے آپ نہایت پر وقار شخصیت کے مالک رہے ہیں۔ آج بھی ما شاءاللہ چاک و چوبند ہیں یہ صرف صحت کے اعتبار سے نہیں بلکہ اپنے تخلیقی سفر میں بھی نہایت ایکٹو ہیں اور ادب کے کئی موضوعات پر اہم تصانیف کے خالق ہیں۔ آپ سے کسی بھی ادبی صنف پر بات کی جائے آپ کا موقف اور سمجھانے کا انداز بڑا واضح، سادہ اور شفاف ہوتا ہے۔ ورنہ بعض ناقدین کئی کتب کے مصنف ہو کر بھی ذہنی طور پر واضح نہیں لگتے اور ان کی تحریریں بہم اور غیر واضح ہوتی ہیں۔ جو پڑھنے اور سننے والوں کے سر سے گزر جاتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی خوبی یہ بھی ہے کہ آپ کے پاس مسلسل نشست رکھنے والے ادب کے ڈاکٹر بن جاتے ہیں۔
میں نے تو آپ کی طبیعت میں ساحل سی خودداری ، یاروں کی سی دلداری ، بچوں کی سی کلکاری اور محبت کی سرشاری دیکھی ہے۔ آپ کے سینے میں کئی بڑے آدمیوں کے راز دفن ہیں۔ ان کے سایئہ آغوش میں مجھ ایسے کئی محبت کرنے والے پناہ لیتے ہیں ان کی محفل سچے اور کھرے لوگوں کے لئے گوشہ عافیت کا درجہ رکھتی ہے۔ آپ کی تنقید و تحقیق کی آرٹ گیلری میں شاعری کے پورٹریٹ بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کے کئی کلیدی عہدوں پر تعینات رہنے کے باوجود آپ میں کسی قسم کا تکبر کبھی نہیں دیکھا گیا۔ آپ عہدوں کی بے ساکھیوں کے بغیر ہی اپنے فن میں ٹھیک ٹھاک قد کاٹھ رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری سے یار لوگ قدرے تاخیر سے آشنا ہوئے۔ مگر آپ کے مجموعہ کلام ” آشوب “ کی ادبی حلقوں میں خاص پذیرائی ہوئی۔
آپ سر تاپا وطن عزیز پاکستان کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ان کے اشعار بھی اسی بات کا ثبوت ہیں کہ وہ اس دھرتی پر ایک مصنفانہ نظام دیکھنے کے تمنائی ہیں۔ انہوں نے شاعری میں ارد گرد کے ماحول کی عکاسی بڑے خلوص اور درد مندی سے کی۔ نمونے کے چند اشعار سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کے ہاں زندگی کی رنگا رنگی کس پائے کی ہے میں تو انہیں آج کا شاعر قرار دیتا ہوں۔ جو کچھ ہمارے ارد گرد ہو رہا ہے ان کے اشعار میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ بلا تبصرہ چند اشعار:
ہر شخص جب کرپٹ ہو بے حدو بے حساب
تم ہی کہو کہ کون کرے کس کا احتساب
ہر کسی کی اپنی ہی تفسیر ہے
ہر کسی کا اپنا ہی اسلام ہے
کیا خوب ہو رہا ہے اِس ملک میں یہ دھندہ
چندہ برائے مسجد ، مسجد برائے چندہ
وہی عوام کی قسمت بدل سکے گا یہاں
کہ جس کی صدر اوباما سے ساز باز نہ ہو
جو شخص اُلفتِ دنیا سے بے نیاز نہ ہو
پڑھے ہزار نمازیں مگر نماز نہ ہو
ہم نے دنیا کی کبھی پروا نہ کی
جو بھی اپنے جی میں آئی کر چلے
ہم رہے ثابت قدم گو راہ میں
دائیں بائیں سے بہت پتھر چلے
تمام ملک ہی کھا جاؤں اتنا بھوکا ہوں
سمندروں کو بھی پی جاؤں اتنا پیاسا ہوں
ہیں بچے ان کے امریکہ میں خوشحال
بڑے جن کے رہے ہیں اشترا کی
کہیں ہے جونپڑی بستر نہیں ہے
کہیں کچا مکاں ہے در نہیں ہے
جدھر بھی دیکھیے دُھول اُڑ رہی ہے
کیا ہے خاکیوں نے ہم کو خاکی
ہر چوک میں بھکاریوں کے غول دیکھئے
آنکھیں نہ بند کیجئے انہیں کھول دیکھیے
مسکراتے گُلوں کا مستقبل
سوچ کر میری آنکھ بھر آئی
( خواجہ محمد زکریا کہ ساتھ شام میں پڑھا گیا)
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ