آخری مرتبہ جب قائداعظم کانفرنس کے لیے لندن گئے تو ”بی بی سی“ والوں نے ریڈیو کا مائیک جہاز کے پاس لاکر رکھ دیا اور قائداعظم سے درخواست کی کہ وہ ضرور کچھ ارشاد فرمائیں!اس وقت خلافِ معمول سورج نمودار ہوگیا۔ قائداعظم مسکراتے ہوئے مائیک کے قریب آئے اور فرمایا :
”لندن کے لوگو ! میں تمہارے لیے دھوپ کا تحفہ لایا ہوں “
تو گریژن یونیورسٹی کی اس کانفرنس میں تھکے بیٹھے خواتین وحضرات ! میں آپ کے لیے طویل مقالے کی بجائے مختصر تحریر لایا ہوں جو پانچ سات منٹ میں سنی جاسکتی ہے پھر بھی سمع خراشی کے لیے معذرت !
ان دنوں سموگ اور دھند کے ساتھ ساتھ کانفرنسوں کا موسم بھی ہے۔ موضوع کچھ بھی ہو یہ کانفرنسیں احباب سے مل بیٹھنے کا عمدہ بہانہ بن جاتی ہیں۔ میں کانفرنسوں میں اور خاص طورپر دوسرے شہروں میں منعقدہ کانفرنسوں کے سفر سے الرجک رہتا ہوں کہ”لفافی “ مشاعروں سے بھی انکار کردیتا ہوں۔ گریژن یونیورسٹی ، مدعو کرنے پر اویسی صاحب کا شکریہ، یہاں آنا اس لیے بھی اچھا لگا کہ یہاں شعبہ اردو میں کئی پرانے رفیقان اکٹھے ہوگئے ہیں ڈاکٹر محمد خاں اشرف ہوں، ڈاکٹر ہارون قادر ، ڈاکٹر عالم خاں یا ڈاکٹر عطاءالرحمن یہ سب میرے کولیگ رہے ہیں اوران کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا ہے۔ علاوہ ازیں کانفرنسوں میں دوسرے شہروں سے ممتاز سکالرز اور دانشور بھی مدعو کیے جاتے ہیں سوان سے بھی ملاقات کا بہانہ بن گیا ہے۔ ڈاکٹر جاوید منظر کراچی سے تشریف لائے، میرے دیرینہ احباب میں سے ایک ہیں اور ہم بھارت کے سفر میں دوبار اکٹھے رہے۔
صدر یا مہمان خصوصی بننے کا نقصان بھی ہوتاہے اور فائدہ بھی۔ نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ جوکچھ کہنا چاہتے ہیں، وہ آپ سے قبل آنے والے مقررین کہہ جاتے ہیں اور آپ کے کہنے کے لیے کم ہی کچھ بچتا ہے۔ فائدہ یہ ہوتا ہے اگر آپ موضوع سے آگاہ نہیں، کتاب کی تقریب ہے تو کتاب نہیں پڑھ سکے تو بھی آپ اپنے سے پہلے تشریف لانے والے مقررین اور مقالہ نگاروں کے اظہار خیال سے استفادہ کرلیتے ہیں اور دوچار مقررین کے خیالات سے ہی آپ کے کہنے کو مواد میسر آجاتا ہے۔ بعض اوقات معاملہ الٹ ہی ہو جاتا ہے۔
ہمارے خانیوال کے ایک بزرگ شاعر حکیم منظور خیامی نابینا شاعر تھے۔ ایک بار ایک طرحی مشاعرے کے لیے تشریف لائے۔ وہ کسی نہ کسی شاگرد کو غزل لکھواتے تھے۔ اس طرحی مشاعرے میں تشریف لائے تو دو تلامذہ ان کے ہمراہ تھے جو انہیں تھام کر لارہے تھے۔ مشاعرہ شروع ہوا ان کے ایک شاگرد نے مصرعے پر غزل شروع کی تو منظور خیامی نے جھرجھری سی لی ۔وہ شاگرد جو ان کا دایاں بازو تھام کر ساتھ آیا تھا وہ حکیم خیامی کی اس غزل کا مطلع پڑھ رہا تھا جوکچھ دیر قبل انہوں نے ڈکٹیٹ کرائی تھی تقریباً 9اشعار شاگرد نے پیش کیے اور خوب داد حاصل کی۔ حکیم صاحب کوکچھ تسلی ہوگئی کہ ابھی 9اشعار باقی تھے انہوں نے سوچا اپنی باری آنے پر وہ انہی اشعار کو پیش کردیں گے۔ کچھ دیربعد ان کے دوسرے شاگردنے کلام سنانا شروع کیا تو حکیم صاحب کے چہرے کا رنگ بدلنا شروع ہوگیا۔ وہ شاگرد باقی کے نو اشعار سنا رہا تھا۔ آخری شعر اس نے پڑھا تو حکیم صاحب مشاعرے سے اٹھ گئے کہ اب ان کے پاس طرحی مشاعرے کے لیے کچھ نہ تھا “۔
خواتین وحضرات !کبھی کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی بعض افراد شاعری میں سفید کاغذ پر اصلاح لیتے ہیں۔ اور بعض تو اس شخص سے بھی اپنی غزل کی داد وصول کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے جس سے غزل لکھوائی ہوتی ہے۔ اب تو بات غزل سے آگے بڑھ چکی ہے۔ مسودہ شاعری ، اشاعت اور تقریب رونمائی کے پیکج سمیت خریدنے کی رسم چل پڑی۔ مقالے ہی نہیں پی ایچ ڈی کے تھیسس مکمل طورپر لکھ کردینے والے بھی موجود ہیں بعض ” سکہ بند“ پروفیسرز نے اس کے لیے باقاعدہ دکانیں کھول کر ریٹ مقرر کررکھے ہیں۔ لہٰذا سچل مقالہ جات ہمارے ہاں آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں اور بیشتر قینچی ورک ہوتا ہے۔اسی لاہور کی لائبریریوں میں ایک دو خواتین وحضرات کے داخلے پر صرف اسی لیے پابندی لگی تھی کہ وہ کتابیں کتر کر اپنی کتابوں میں اضافہ کرتے تھے۔ اب بھی ایسی کتب ان لائبریریوں میں پڑی ہیں جو چوہا نما محققین کے شر سے محفوظ نہیں رہ سکیں۔
خدا ان جعلی محققین اور کرائے کے پی ایچ ڈیز حضرات سے یونیورسٹیوں اور لائبریریوں کو محفوظ رکھے۔ کیونکہ ایسے حضرات ادبی ذوق رکھنے والے ان نوجوانوں کی طرح ہوتے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔
جدید تعلیم سے فارغ ہونے والے دونوجوان دوستوں کو ایک ہی ملٹی نیشنل کمپنی میں اچھی ملازمت مل گئی۔ باس نے کمپنی کے ملازمین کو دعوت دی۔ دعوت کے دوران میں باس نے ان میں سے ایک نوجوان کے ادبی ذوق کا اندازہ کرنے کے لیے پوچھا :
”عمر خیام کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟“
”اچھی جگہ ہے سر۔ لیکن میں ذاتی طورپر KFCمیں جانا زیادہ پسند کرتا ہوں‘ نوجوان نے برجستہ جواب دیا۔ باس نے ناگواری سے نوجوان کی طرف دیکھا اور دوسرے مہمانوں سے باتیں شروع کردیں۔
دعوت سے واپسی پر راستے میں دوسرے نوجوان نے پہلے کو ڈانٹا:
”بے وقوف آدمی! اگر تمہیں معلوم نہیں تھا کہ عمر خیام کیا ہے تو بات بدل دیتے۔ احمقانہ جواب تو نہ دیتے، گدھے کہیں کے ۔تمہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ عمر خیام کسی ریسٹورنٹ کا نہیں بلکہ پرفیوم کا نام ہے۔“
”قائداعظم اور اردو “ کے موضوع پر کانفرنس شاید پہلی بار ہورہی ہے۔ اردو ہماری قومی زبان ہے اور قائداعظم کا بھی یہی فیصلہ تھا مگر ہم تاحال اسے اپنی دفتری زبان بنانے میں ناکام ہیں۔ حالانکہ عدالتی فیصلہ بھی اردو کے حق میں آچکا ہے۔
جہاں تک ” اردو شاعری اور قائداعظم“ کا تعلق ہے تو اس موضوع پر ہم قائد پر لکھی جانے والی شاعری پر ہی بات کرسکتے ہیں۔ جو کانفرنس میں کی بھی گئی۔ اس شعر کے ساتھ اجازت :
شمار قائداعظم کے حوصلوں کو سلام
کیا ہے جس نے مرتب نصابِ آزادی
نوٹ: (گیریژن یونیورسٹی میں ”قائداعظم اور اردو “ کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس میں پڑھا گیا )
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ