سردیوں کی شامیں اداس ہوتی ہیں، ہمارے شعیب بن عزیز نے شعر بھی کہہ رکھا ہے :
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
لاہور کی شامیں اب پرانی شاموں جیسی بھی نہیں رہیں۔ اب سوشل میڈیا نے وہ روایتی محافل ختم کردی ہیں جو مختلف چائے خانوں میں آباد ہوا کرتی تھیں۔ اب وہ نہ چائے خانے رہے نہ محفلیں۔اس تیز رفتار دور میں انسان اتنی سہولیات وآسائش کے باوجود اندر سے کھوکھلا اور تنہا ہوگیا ہے۔ انسان ہروقت ایک عجیب افراتفری اور بھاگ دوڑ میں الجھا دکھائی دیتا ہے۔ اب ہرکوئی بس پیسے بنانے کی حرص میں ”نکونک“ ڈوبا ہوا ہے مگر پھر بھی معاشرہ اگر کسی حدتک زندہ ہے تو وہ ان چند افراد کی وجہ سے سانس لے رہا ہے جو آج بھی صرف اور صرف دوسروں کے لیے زندگی وقف کردیتے ہیں۔ انہی میں ایک شخص ڈاکٹر امجد ثاقب ہیں۔ جو اپنے لوگوں کے لیے ”اخوت“ جیسا ادارہ بناتے ہیں اور گرے پڑے لوگوں کا سہارا بنتے ہیں۔
یہ باتیں اگلی شام جو اداس ہرگز نہیں تھی لیکن وہ امیدوں بھری شام تھی کہ اس روز محمود شام لاہور میں تھے جی ہاں محمود شام صحافت کے سینئر اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے صحافت کو بسر کیا ہوا ہے اخبار کے شعبے میں وہ کام کر چکے ہوتے ہیں اور ان کا مشن لوگوں کو باخبر اور رائے عامہ کو حقائق سے آشنا کرنا ہوتا ہے۔ محمود شام نہ صرف شاعر اور ادیب ہیں بلکہ منجھے ہوئے ایڈیٹر اور کالم نگار بھی ہیں۔ یہ ایڈیٹروں کی اس آخری نسل کے نمائندے ہیں، جس میں حسرت موہانی، محمدعلی جوہر ،مولانا ظفرعلی خاں ،ابوالکلام آزاد جیسے اہل قلم کے نام آتے ہیں۔اس زمانے میں شاعر ادیب ہی میدان صحافت میں نظر آتے تھے۔ ان کا اوڑھنا بچھونا ادب اور صحافت ہوا کرتا تھا۔ آج کا زمانہ ذرا مختلف ہے لوگ صحافت کی آڑ لے کر کاروبار کیا کرتے ہیں۔
بات طویل ہوگئی لیکن اس شام محمود شام ہمدردملت ڈاکٹر امجد ثاقب کی تحسین میں بول رہے تھے۔ شہر میں ایک یادگار تقریب کے میزبان ہوتے ہوئے انہوں نے عوام کا درد رکھنے والوں میں امجد ثاقب کی خدمات کو سراہا۔ امجد ثاقب تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ اور تقریب محمودشام کے پرچے ”اطراف“ کے زیراہتمام ہورہی تھی۔ یہ ایک ایسی تقریب تھی جس میں اطراف کے مضمون نگاری کے مقابلوں میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والوں کے اعزاز میں تھی اور ان میں نقد انعامات اور سرٹیفکیٹ تقسیم کیے جانے تھے۔
سٹیج پر سلک بینک کے شہرام بختیاری کے علاوہ چودھری عبدالغفور (کینیڈا کے ایڈیٹر اطراف) ڈاکٹر امجد ثاقب، ڈاکٹر شائستہ نزہت اور میزبان محمود شام اور لاہور کے بیوروچیف تنویر شہزاد بھی تشریف فرما تھے۔
محمود شام نے کہا ہم نے ماہنامہ اطراف جاری کیا تو سبھی حیران ہوئے کہ سیاست کے بغیر کیسے پرچہ چل سکتا ہے مگر ہم نے عہد کررکھا تھا کہ اب ایسی صحافت کی جائے جس کے ذریعے علم اور زبان وادب کی ترویج واشاعت ہوسکے۔
چنانچہ ہرشمارے میں زبان وادب کے موضوعات پر 18سے 28برس کے نوجوان لکھاریوں میں مقابلہ کرایا جاتا ہے اور بہترین مضمون نگاروں میں نقدانعامات پیش کئے جاتے ہیں۔مقصد اپنی قومی زبانوں کو فروغ دینا ہے۔ پنجابی، سندھی ، بلوچی ، پشتو، سرائیکی اور دیگر علاقوں میں بولی جانے والی زبانوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا جائے۔ اس سے نوجوانوں میں لکھنے کا رجحان پیدا کرنے کی کوشش بھی ہے۔ ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے نوجوانوں کے اخلاق و زبان خراب کردیئے ہیں۔ شاعری کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ انہوں نے اخوت کی خدمات کو سراہا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے کہا کہ ہم نے دس ہزار سے دوسروں کی مدد کا آغاز کیا اور اب تک تیس لاکھ گھرانوں میں تقریبا70ارب روپے کے بغیر سود قرضے فراہم کرچکے ہیں۔ ”اخوت“ یونیورسٹی میں بغیر فیس کے تعلیم دی جاتی ہے۔ شہرام رضا بختیاری نے پنجابی میں گفتگو کرتے ہوئے کہا : ہمیں اپنے صوفیا کی زبان وادب کا پرچار کرنا ہے۔ بدقسمتی سے ہم مادری زبان وکلچر سے دور ہوگئے اور احساس کمتری کا شکار ہیں۔شائستہ نزہت نے کہا پنجاب کا سب سے بڑا صوبہ اپنی زبان سے محروم ہے پنجابی زبان کے معیاری حروف تہجی بنائے جائیں اور پرائمری سطح پر پنجابی زبان کو پڑھایا جائے۔ لیجنڈ فنکار شوکت علی نے علالت کے باوجود تقریب میں شرکت کی اور میاں محمد بخش اور محمود شام کا کلام پیش کرکے داد حاصل کی۔ زریں پنانے محمودشام کو پنجاب کی اجرک جبکہ ادارہ اطراف کی طرف سے مہمانان گرامی کو سندھی اجرک کا تحفہ پیش کیا گیا۔ تنویر شہزاد نے کہا کہ ہم نے محمودشام کو اطراف نکالنے سے بہت روکا اور وہ اس لیے کہ اب پرنٹ میڈیا روبہ زوال ہے پرچہ شائع کرنا اور اسے قائم دائم رکھنا دشوار تر ہوچکا ہے مگر محمودشام نے یہ مشکل فریضہ سرانجام دیا اور اب اطراف کو قارئین کا اعتماد حاصل ہوچکا ہے اور یہ واحد جریدہ ہے جو ایک مقصد کو مدنظررکھ کر شائع ہورہا ہے۔ مقصد محمود شام بیان کرچکے ہیں۔ تقریب میں اہل قلم اور صحافیوں کی کثیرتعداد نے شرکت کی یہی نہیں مختلف یونیورسٹی کے طلباوطالبات بھی موجود تھے۔ تقریب میں پہلا انعام 50ہزار روپے اور سرٹیفکیٹ تونسہ کے نوجوان کو پیش کیا گیا۔ عمرکوٹ کی طالبہ نے دوسرا انعام حاصل کیا۔ علاوہ ازیں تقریباً دس دیگر نوجوانوں کو بھی سرٹیفکیٹ اور انعامات پیش کیے گئے۔
اسی شام ہم نے ایک اور تقریب میں بھی شرکت کی جو انجمن ترقی پسند مصنفین کے زیراہتمام منعقد کی گئی تھی۔ پاک ٹی ہاﺅس میں بہت دنوں بعد چکر لگا۔ صدارت کراچی سے آئے ہوئے ممتاز شاعر اور محقق جاوید منظر نے کی۔ مہمانان خصوصی میں آمنہ مفتی ، نیلم احمد بشیر ، رﺅف ملک شامل تھے۔ یہاں کچھ عرصہ قبل وفات پانے والی شاعرہ فہمیدہ ریاض کو یاد کیا جارہا تھا۔ زاہد حسن نظامت کررہے تھے۔ یہاں کامریڈ اشفاق نے فہمیدہ کی ادبی خدمات پر روشنی ڈالی۔ نعیم رضا نے تفصیل سے شاعرہ کی نظموں اور ناولوں کا محالمہ کیا۔ آمنہ مفتی نے فہمیدہ کی وفات پر لکھی جانے والی مختصر مگر نہایت پراثر تحریر پیش کی۔ نیلم احمد بشیر نے کہا کہ فہمیدہ کی ادبی خدمات سے انکار نہیں مگر ترقی پسند اور مزاحمت کرنے والے لوگ مارشل لاءکے دور میں ڈکٹیٹر سے ہاتھ نہیں ملاتے۔ مجھے رنج ہے فہمیدہ نے ڈکٹیٹر سے سمجھوتہ کیا۔ ترقی پسندوں کا لیبل استعمال کرنے والے کئی اہل قلم آج بھی ہر حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں ادبی علمی اداروں میں عہدے حاصل کرتے ہیں۔ ایوارڈ اور اعزازات پاتے ہیں اور سرکاری کانفرنسوں میں بلائے جاتے ہیں۔ جبکہ پرانے ترقی پسند نہایت خوددار اور باہمت تھے۔
جاوید منظر نے فہمیدہ ریاض کے بارے میں نہایت معلوماتی گفتگو کی اور کہا وہ ڈاکٹر اسلم فرخی کے گھر آیا کرتی تھیں اور ان سے اپنی کتابوں کے آئیڈیاز پر بات کرتی تھیں وہ اپنی تحریروں کو بھی دکھالیتی تھیں ان کی شاعری اور تراجم کو پسند کیا گیا مگر ان کی شاعری کے بعض ان حصوں کو عوام میں قبولیت کا درجہ نہ مل سکا جن میں فحش خیالات وجذبات کی عکاسی ملتی ہے۔ جاوید آفتاب زاہد حسن اور ان کے ساتھیوں نے پاک ٹی ہاﺅس کی یہ شام بھی یادگار بنادی تھی کہ سخت ٹھنڈ کے باوجود کافی احباب یہاں جمع تھے۔
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)