اِن دنوں پنجاب کا دل لاہورسخت سردی کی لپیٹ میں ہے۔ رِم جھم سے شہر دھلا دھلا سا لگتا ہے مگر سردہواﺅں سے دانت بجنا شروع ہو جاتے ہیں۔ بقول ڈاکٹرنجیب جمال، یہی سرد ر±تیں تخلیقی موسم کہلائی جاتی ہیں۔ سردیوں کی طویل راتوں میں مطالعہ کی عادت ہو تو اچھی خاصی کتب پڑھی جاسکتی ہیں۔ بعض لوگ ان راتوں میں اپنی پسندیدہ آرٹ فلموں سے بھی محظوظ ہوتے ہیں۔
یہ سب کچھ اپنی جگہ مگر مجھے ایسے موسم میں یادیں آن گھیرتی ہیں۔ گاﺅں میں گزری بچپن کی یادیں کچھ اتنی آسودہ زندگی نہ ہونے کے باوجود بھی، رہ رہ کر یاد آنے لگتی ہیں۔
سردیاں آنے سے قبل ہی سوکھی اور خشک لکڑیاں برائے ایندھن اکٹھی کرلی جاتی تھیں۔ تاکہ ”الاﺅ“ میں رخنہ نہ آئے ماں کے پاس چولہے کے قریب بوری پر بیٹھ کر شام کا کھانا یاد آئے تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ اب تو لکڑیوں کی آگ اور چولہے بھی نایاب ہوتے جارہے ہیں۔ سردرت کی مسلسل برسات میں گھر سے باہر تو نکلا نہیں جاسکتا سو چولہے کے اردگرد یا الاﺅ یا مچ کے چوگرد بیٹھ کر دھونی والی دال، پراٹھے، ساگ کے علاوہ مونگ پھلی ، چلغوزے ( جو ا±س وقت اِس قدر نایاب نہ تھے) یا پنجیری سے لطف اندوز ہونا ، اب تو یادوں کا حصہ بن کررہ گیا ہے۔ گاﺅں کی اپنی زندگی ہے، سادہ اور تصنع سے پاک۔ چرواہے شام کا اندھیرا پھیلنے سے قبل اپنے مویشیوں اور ریوڑوں کے ساتھ دھول اڑاتے گاﺅں پلٹ آتے اور ان کے گلے کی گھنٹیاں ایک عجیب ماحول بنا دیا کرتی تھیں۔ ہم کبھی اپنے دادا جان کے ساتھ بارانی زمینوں پر جاتے اور شام کو مویشیوں کے ساتھ واپس آتے تو دور سے گا?ں کے تنوروں کا اٹھتا دھواں بہت بھلا لگتا۔
گھروں میں دس بارہ گھڑے تو نہایت ضروری ہوا کرتے تھے اور یہ گھڑے کنویں کے پانی لاکر بھرے جاتے۔ یا پھر قریبی ”کھوئیاں“ بھی اس کام کے لیے کام آیا کرتی تھیں۔ اب تو خیر گاﺅں میں گھر گھر پانی کے ٹربائن اور موٹریں لگ گئی ہیں۔ اس وقت گا?ں کے زیادہ لوگ کنو?ں سے پانی لایا کرتے۔ گا?ں میں بھی پانی کے لیے ایک دو کھوئیاں موجود تھیں۔
مکئی کی فصل تیار ہوتی تو سب ایک دوسرے سے مِل کر اکٹھے ”چھلیاں کوٹتے“ جس سے مکئی کے بھٹوں سے دانے الگ کیے جاتے تھے۔ چوپال اور ڈیرے بھی ہوا کرتے۔ بچوں کو سرِشام لحافوں میں ڈال دینے کا رواج تھا۔ بجلی تو گاﺅں میں ہوتی نہیں تھی۔ لالٹین کو مغرب سے قبل صاف کرکے اونچی جگہ لٹکا دیا جاتا تھا۔ شام کا کھانا جلدی تیار ہوجاتا اور کھانے کے بعد ہم اپنے اپنے بستر میں دبک جاتے۔ پھر دیومالائی کہانیاں شروع ہو جاتیں۔ گھر کا کوئی بزرگ یا نانی دادی اماں بچوں کو کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ یہی اس دورکی تفریح ہوتی تھی۔
لحافوں میں مکئی کے دانے یا م±رنڈے بھی کھائے جاتے۔ ماں جی کے صبح دم ہاتھ چکی سے آٹا پیسنے کی آواز سے ہماری آنکھ کھلتی تھی۔ گھر کی دیسی چکی چلنے کی آواز میں ایک عجیب کشش ہوتی تھی۔ روزانہ دوتین کلو آٹا تیار کرکے روٹی پکتی تھی۔ پھر دودھ سے لسّی بنانے کا وقت شروع ہوجاتا۔ چاٹی میں دودھ بلونے کا عمل بھی اچھا لگتا تھا۔ ماں جی گرمیوں میں تو باقاعدگی سے ہمیں مکھن نکالنے سے قبل ”ادھ رِڑکا“ چھنے میں ڈال کر دیا کرتی تھیں۔ بعض اوقات تو رات کی بچی باسی روٹی دہی کے ساتھ کھانے کا بڑا لطف آیا کرتا تھا۔ لنچ تو دس سے گیارہ بجے تیار ہواکرتا تھا۔ تنور پر مکئی اور گندم کی روٹیاں مکھن سے چوپڑ کر اچار، دال سبزی یا لسّی سے کھائی جاتی تھیں۔ عجیب دن تھے۔ اسے آپ لگڑری لائف نہ بھی کہیں تو بھی ہمارے ماضی کے ساتھ جڑی وہ زندگی آج ہمارے لیے وہی بہترین اور آسودہ زندگی تھی۔ آج کی مصنوعی اور بے رَس زندگی، صحت و تندرستی کے لیے مہلک ہے۔ آج ہم دیسی اشیائے خوردونوش کی تلاش میں رہتے ہیں مگر خالص دیسی اشیاءآسانی سے میسر نہیں آتیں۔اس وقت انسان ایک دوسرے کے زیادہ قریب تھے آج ایک ہی آسودہ بیڈروم میں بیٹھے ہوئے بھی ہم سب اپنے اپنے موبائلوں میں کھوئے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے سے بے خبر اور بے نیاز ہوتے ہیں۔ یہ کیسی زندگی ہے؟۔
بات لاہور کی سردرت سے شروع ہوئی تھی۔ لاہور میں آلودگی بہت زیادہ ہوچکی ہے ہم تو آسمان بھی نہیں دیکھ سکتے ایک عجیب سی دھواں دھار فضا میں ستارے کہاں سے دکھائی دیں، پھر آسائشوں اورسہل پسندی کے لیے ہمیں کس قدر بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے۔ ہم جس سوسائٹی میں رہتے ہیں وہ اس
حوالے سے غنیمت ہے۔ کہ یہاں گھروں کی تعداد زیادہ نہیں۔ ماحول صاف ستھرا ہے۔ یہاں کے لوگ اچھے ہیں۔ مکینوں نے مل کر ایک سوسائٹی بنارکھی ہے۔ میاں عمران اس کے روح رواں ہیں۔ ان کے ہمراہ تنویر عارف پرویز، عامر طفیل ،شیخ عمرفاروق ، ضمیر حسین، بشارت احمد، رانا زبیر، غلام عباس، راﺅماجداور دیگر کئی حضرات ان کی ٹیم میں شامل ہیں۔گزشتہ روز جب ہلکی ہلکی بوندا باندی ہورہی تھی۔ میاں عمران نے اپنے خوبصورت گھر پر قوالی کا پروگرام رکھا ہوا تھا۔ شفقت علی خان اور ہمنوا نے سماں باندھ دیا۔ قوالی کے اختتام پر پ±رتکلف کھانے سے شرکاءکی تواضع کی گئی۔ اس موقع پر میاں عمران کی والدہ اور مسلم لیگ کی رہنما بی بی وڈیری صاحبہ بھی موجود تھیں۔ خواتین کے لیے پردے کا الگ انتظام تھا۔ میاں عمران نے بتایا کہ آئندہ سوسائٹی میں مشاعرے کا انعقاد عمل میں لایا جائے گا۔ اِس سلسلے میں ہم نے اپنی خدمات پیش کیں۔ جلد احباب کو مشاعرے کے لیے مدعو کریں گے ان شاءاللہ۔ مشاعرے سے یاد آئی ایک نظم کی سطریں ملاحظہ ہوں:
میں ایک نظم لکھنا چاہتا ہوں
ریل کی دو پٹڑیوں کی نظم
تارا میرا کے پھولوں
اور خانہ بدوشوں کی نظم
بانسری کے دکھوں
اور چرواہے کے لوک گیتوں کی نظم
سردیوں کی مفلس رات میں
ایک ماں کی نظم
جس کے سرہانے قرآن کی آیتیں
اور دروازے پر موت کھڑی تھی
(بشکریہ:روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ