کیا زمانہ تھا، گورنمنٹ کالج لاہور شعبہ اردو میں کمرہ نمبر 7میں بابو خان کی چائے کے لیے اساتذہ کلاسز کے بعد اکٹھے ہوا کرتے تھے۔ جن دنوں راقم جی سی میں شعبہ اردو سے وابستہ تھا ان دنوں ڈاکٹر معین الرحمن صدر شعبہ اردو ہوتے تھے۔ میں نے دیال سنگھ کالج سے تبادلے کے بعد یہاں جائن کیا تھا۔ دیگر اساتذہ میں یہاں مستقل اور پارٹ ٹائم اساتذہ میں اصغر ندیم سید، ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر احسان الحق، ڈاکٹر نیر صمدانی، ڈاکٹر سعادت سعید، حق نواز ، محمد فاروق بشیر قادری ، محمد اشرف منج ، ڈاکٹر خان محمد اشرف، شفیق عجمی، عارف ثاقب، نفیس، طارق زیدی ، ہارون قادر موجود تھے۔ بعد میں اسی شعبے کے طالب علموں میں سے خالد سنجرانی، محمد سعید، نسیم الرحمن بھی منسلک ہوگئے تھے۔ بابو خان کے کمرے میں ایک رونق سی رہتی تھی۔ جس کسی پروفیسر کا پیریڈ ختم ہوتا چائے کے لیے یہاں پہنچ جاتا۔ یہاں سبکدوش ہونے والے اساتذہ میں سے کبھی کبھی صابر لودھی ، جعفر بلوچ، اختر میرٹھی، مرتضیٰ زیدی اور چند دیگر حضرات بھی دکھائی دیتے۔ اشرف منج اور بشیر قادری کی آپس کی نوک جھونک بھی جاری رہتی۔ عارف ثاقب، ڈاکٹر احسان الحق کی گفتگواور اصغر ندیم سید کے چٹکلے بھی ان محفلوں میں سننے کوملتے۔ بابو خان خاموشی کے ساتھ ہر آنے والے کے لیے چائے لارکھتے، ان کے ہونٹوں پر ہروقت ایک مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی وہ پروفیسروں کے بحث ومباحثے کو چپ چاپ سنتے اور زیرلب مسکراتے رہتے۔ یہاں سب سے اونچی آواز اشرف منج کی ہوتی۔ خاص طورپر اس وقت جب بشیر قادری اپنے محلے دار اشرف منج کی کوئی بات سنارہے ہوتے تواشرف صاحب چیخ اٹھتے اور وضاحتوں سے کمرہ سرپر اٹھا لیتے۔
”اوہ نئیں قادری صاحب!!
آپ ادھوری بات کررہے ہیں۔ میں ڈاکٹروں کے خلاف نہیں ہوں۔ میں انہیں اگر قصائی کہتا ہوں تو ان کے سفاکانہ رویے کے سبب کہتا ہوں۔ یہ مریض کی جیب دیکھے بغیر اپنی فیس لیتے ہیں۔ میں حکیموں کی تعریف اس لیے کرتا ہوں کہ یہ لوگ مریض کی مالی حیثیت کے مطابق دوائی کے پیسے لیتے ہیں۔
بشیر قادری اِس وضاحت پر مسکرا کر پوچھتے:”چلو یہ تو مان لیا کہ آپ ڈاکٹروں پر حکیموں کے علاج کو ترجیح دیتے ہیں لیکن نرسوں اور استانیوں کے کیوں خلاف ہیں؟ یہ بھی تو مقدس پیشوں میں سے ہیں۔“
”میں مقدس پیشوں کے خلاف نہیں۔“ (اشرف صاحب ہاتھ نچا کرکہتے)
”میں تو ورکنگ لیڈیز سے شادی کے خلاف ہوں۔ یہ خواتین کبھی اچھی بیویاں ثابت نہیں ہوتیں۔
ہارون قادر آتے ہی ”ورکنگ لیڈیز اور اچھی بیوی“ کے الفاظ سنتے ہی کہتے۔
”دیکھو اشرف صاحب۔ ایہہ کوئی کلیہ نہیں۔ نرس داتے مینوں پتہ نئیں پر محکمہ تعلیم وچ ملازمت کرن والیاں ذمہ دار جیون ساتھی ہوندیاں نیں“۔
(دیکھو اشرف صاحب یہ کوئی کلیہ نہیں نرس کا مجھے علم نہیں مگر محکمہ تعلیم سے وابستہ خواتین ذمہ دار بیویاں ثابت ہوتی ہیں۔)
اتنے میں صدر شعبہ ڈاکٹر معین الرحمن صاحب تشریف لے آتے۔ اور دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ فرماتے:
”مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ، اشرف صاحب اور قادری صاحب کا پیریڈ ختم ہوچکا ہے اور وہ کمرہ نمبر 7میں آچکے ہیں۔“
چائے پر، لطیفے، چٹکلے، ادب، ثقافت سیاست سے لے کر معاشرے کے کئی پہلوﺅں پر باتیں ہوا کرتی تھیں۔
ایک روز اشرف منج صاحب بڑی سنجیدگی سے بتارہے تھے کہ ان کے بچے کا بازو گلی میں بندھے کسی گھوڑے نے منہ میں لے کر چبا ڈالا ہے۔ سبھی ہمہ تن گوش تھے کہ اچانک بڑی فکرمندی سے اصغر ندیم سید نے پوچھا : تے فیر ہن گھوڑے دا کیہ حال اے ؟(تو اب گھوڑے کا کیا حال ہے؟)
میرا مطلب اے بچے دا کیا حال ہے“
ان کی جملے کی درستگی سے قبل ہی کمرہ قہقہوں سے گونج ا±ٹھا۔ دلچسپ بات یہ ہے منج صاحب نے اس کے باوجود بچے کی طبیعت کے بارے میں تفصیل سے بیان جاری رکھا۔“
یہ ساری باتیں اس لیے یاد آگئیں کہ اگلے روز گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں سالانہ مشاعرہ تھا۔ اور ہماری ملاقات اساتذہ سے بھی ہوئی۔ اب وہ ساری ہستیاں تو موجود نہیں۔ البتہ محمد فاروق، بشیر قادری اب بھی وزٹنگ پروفیسر کے طورپر موجود ہیں۔ ان دنوں ڈاکٹر خالد سنجرانی صدر شعبہ ہیں۔ ان کے ہمراہ ڈاکٹر صائمہ ارم، ڈاکٹر محمد سعید ، فرزانہ ریاض، سفیر حیدر، رضیہ مجید کے علاوہ ڈاکٹر سعادت سعید اور لطیف ساحل بھی شعبے کا حصہ ہیں۔
ڈین ہمارے ڈاکٹر اقبال شاہد ہیں جو فارسی کے شعبے کے قابل اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ مشاعرہ مجلس اقبال کے زیراہتمام تھا۔ صدارت جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر امیر حسن شاہ نے کی۔ مہمان خصوصی ایچ ای سی پنجاب کے سربراہ ڈاکٹر محمد نظام الدین تھے۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر صائم ارم، ڈاکٹر فرزانہ ریاض اور ارسلان ظہور نے ادا کیے۔ وائس چانسلر صاحب مشاعرے کے آخر تک نہایت انہماک سے شعرا ءکو سنتے رہے۔
مشاعرے میں ڈاکٹر خورشید رضوی، امجد اسلام امجد، ڈاکٹر سعادت سعید، منصور آفاق، ڈاکٹر فخرالحق نوری، ندیم بھابھہ ، سعود عثمانی، حمیدہ شاہین، صائمہ کامران ، شاہدہ دلاور شاہ، ڈاکٹر محمد طاہر شہیر ، عنبرین صلاح الدین ، راول حسین، اکرام عارفی، اعجاز ثاقب، عدنان محسن، وقاص عزیز شامل تھے۔ عباس تابش پڑھے بغیر چلے گئے۔
یہ ایک کامیاب مشاعرہ تھا۔ آخر میں پ±رتکلف کھانے سے مہمانوں کی تواضع کی گئی۔
ان دنوں مشاعروں کا بھی موسم ہے۔ ہم لیڈیز یونیورسٹی کے مشاعرے میں بھی مدعوتھے مگر اچانک نہر کنارے جوہر ٹاﺅن کے انڈر پاس پر گاڑی خراب ہونے کے سبب نہ پہنچ سکے۔ اس مشاعرے کے روح رواں صدر شعبہ اردو ڈاکٹر طارق عزیز تھے۔ پتہ چلا تیس سے زائد شعرائے کرام مدعوتھے۔ مشاعرے ہماری تہذیبی اقدار کا حصہ ہوا کرتے تھے مگر اب حفظ مراتب کا خیال بھی کم ہی رکھا جاتا ہے۔ بعض سینئر شعرا اپنا کلام پڑھ کر نکل جاتے ہیں۔ اب تو اکثر شعرا جلدی جانے کے عادی ہوگئے ہیں وہ اکثر کوئی بہانہ بناکر اپنا کلام پیش کرتے ہی گھر کی راہ لیتے ہیں۔ عموماً صدر اور مہمان خصوصی کی باری آتی ہے تو پنڈال میں بھی چند افراد اونگھ رہے ہوتے ہیں۔ ان دنوں شعر کہنے والوں کی اگر مانگ ہے تو صرف مزاح گو شعراءکی ہے۔ یہ معقول ”لفافے“ کے بغیر کسی مشاعرے میں جاتے ہی نہیں اور مشاعرے کا اعزازیہ بھی پہلے باقاعدہ طے کرکے جاتے ہیں۔ سامعین بھی ”ہنسی مخول“ زیادہ پسند کرتے ہیں۔ سنجیدہ مشاعروں کو ہمارے میڈیا نے بھی پروجیکٹ نہیں کیا۔ ”مذاق سخن“ بھی اب سخن کا مذاق بن کررہ گیا ہے۔ نہ وہ پہلی سی محافل ہیں نہ قدریں نہ وہ شخصیات۔
زمانہ روٹ بدل رہا ہے۔ حیدردہلوی کے شعر کے ساتھ اجازت :
حیدر یہ ج±ھریاں نہیں چہرے سے آشکار
کروٹ بدل رہا ہے زمانہ شباب کا
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ