سجاد جہانیہ سے بالمشافہ ملاقات نہیں مگر اس سے مجھے اس روز سے محبت ہوگئی تھی جب اس نے میرے پہلے ادبی دوست اطہر ناسک کے لیے ایک پُرتاثیر کالم لکھ کر قارئین کو تڑپا دیا تھا۔ ”فیس بک“ کا یہ معجزہ ہے کہ اس نے دنیا ہتھیلی پہ سجادی ہے۔ دنیا بھر کے احباب کی سرگرمیاں ایک آن میں پتہ چل جاتی ہیں۔ جن دوستوں سے باقاعدہ یا بالمشافہ ملاقات نہ بھی ہو تو فیس بک انہیں بھی ”فیس ٹو فیس“ کردیتا ہے۔ سجاد جہانیہ رضی الدین رضی اور شاکر حسین شاکر کے بعد ملتان کا ایک متحرک اور فعال نوجوان ہے جس نے ملتان کی ادبی ثقافتی سرگرمیوں میں جان ڈال رکھی ہے۔ چند روز قبل مرزا یاسین بیگ نے مجھے ان کی ”ادھوری کہانیاں“ عنایت کی تو میں ایک بار پھر ملتان میں کھوگیا۔ سجاد جہانیہ ایک بہترین داستان گو ہیں یہی نہیں وہ لفظوں سے تصویریں بناکر لہو میں گھول دینے پر قادر ہیں۔ میں نے کسی حدتک سجاد کی ساری ادھوری کہانیاں پڑھ لی ہیں۔ بعض کہانیاں تو ایسی ہیں کہ جن میں کہیں میں خود اپنے آپ کو بھی ”سلیمانی ٹوپی“ پہنے دیکھتا ہوں۔ دکھائی نہیں دیتا مگر سجاد کی انگلی تھامے ملتان کی گلیوں ، سڑکوں، تقریبات اور شخصیات سے ملتا محسوس کرتا ہوں۔ اب تو ملتان جانا قدرے کم ہوگیا نجانے گول باغ، بابا ہوٹل، یونیورسٹی ریلوے سٹیشن کس حال میں ہیں مگر ان جگہوں کی یادیں میرے دھیان میں دہائیوں کی طرح ٹمٹماتی ہیں۔ اقبال ارشد کے ساتھ بابا ہوٹل، سمیجہ آباد، واپڈا آفس اور ادبی تقریبات میں اپنے احباب کے ساتھ گزری یادیں میرے لیے سرمایہ حیات ہیں۔ اب نہ اقبال ارشد ہیں ، نہ طفیل ابن گل نہ اطہر ناسک ۔رضی شاکر سے مل کر بھی ہمارے موضوعات انہی دوستوں کی باتیں اور کہانیاں ہوتی ہیں۔ سجاد جہانیہ نے بہت سے معروف اور بعض غیر معروف اور موثر افراد کو موضوع بنایا خاص طورپر فنکاروں میں غلام عباس، الطاف خان ،قیصر نقوی، فضل عاشق ، قسورحیدری قیصر ملک استاد بلے خان ، نثار بزمی ،سید قمر حسین، آئمہ خان، نعیم ببلو اور دیگر شامل ہیں۔ تخلیق کاروں میں ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر اسد ادیب، اقبال ارشد، خالد سعید ، اقبال ساغر صدیقی، ممتاز اطہر ،نوشی گیلانی ،شوکمار بٹالوی ، شاکر شجاع آبادی ،شاکر حسین شاکر اور بہت سے دوسرے اہل قلم صحافی اور دانشور شامل ہیں۔ مجھے تو سجاد جہانیہ کی درویشوں کے حوالے سے لکھی گئی کہانیاں بھی بہت پسند آئی ہیں۔ وہ عام لوگوں میں سے بھی اپنی مرضی اور پسند کے کردار تلاش کرکے ان سے مکالمے کرنے لگتا ہے۔
بہت اچھا لگا سجادمیری طرح ”بالوں“ کا بھی شیدائی ہے۔ ایک بابا جی کی گفتگو کس قدر فکر انگیز ہے:“
”اس جسم کی جو پانچ حِسیں ہیں انسان ان کا ایسا اسیر ہوا ہے کہ اپنے آپ کو بھول بیٹھا ہے۔ یہ جو ساڑھے پانچ فٹ کا جسم آپ کے سامنے چارپائی پر بیٹھا ہے، یہ میں تو نہیں ہوں۔ میں تو اس جسم کے کہیں بہت اندر ہوں، اتنا دور کہ خود کو پا ہی نہیں سکتا اور یہ ساٹھ ستر برس گزار کر نقل مکانی کر جاتا ہوں۔ یہ بدن تو میری اوڑھنی ہے اور عارضی قیام گاہ جو اس مٹی اور پانی کے جہان میں دن پورے کرنے کو مجھے ملی ہے مگر اس قیام گاہ کی اور پیرہن کی حِسیں ایسا سر چڑھ کر بول رہی ہیں کہ مجھے خود اپنے آپ سے بھی ملنے نہیں دیتیں۔ حالانکہ جس نے خود کو پہچان لیا اس نے رب کو پالیا۔ میں اپنے آپ کو تو کھوجتا ہی نہیں، کبھی اپنی تلاش میں نہیں نکلا۔ جب انسان خود میں کھوجاتا ہے نا صاحب ! تو پھر جہالت اس کا مقدر ہوتی ہے۔ خود کو پہچانیے صاحب خود کو “ …. بابا جی خاموش ہوگئے۔ “
سجاد جہانیہ نے فضل جٹ کی خوبصورت باتیں بھی لکھ دیں۔ سبحان اللہ !!
”فن کار کو لنگوٹ کا پکا ہونا چاہیے۔ آپ کو میرا کوئی سکینڈل نہیں ملے گا۔ جب آپ مصفیٰ اور پاک ہوکر کوئی کام کرتے ہیں تو اس میں برکت ہوتی ہے میں سمجھتا ہوں کہ جو لنگوٹ کا پکا نہیں وہ فنکار نہیں۔“
اقبال ساغر صدیقی امروز کے ایڈیٹر تھے میری پہلی غزل انہوں نے شائع کی تھی۔ ان سے مکالمہ نے مجھے ماضی میں پہنچا دیا ان کی اس بات نے اداس کردیا کہ : ”میرے پاس خاکوں کی کتاب مکمل پڑی ہے مگر چھاپنے کے لیے پیسے نہیں۔“
مقبول شاہ سجاد جہانیہ کے مکالموں کا ایسا کردار ہے جس نے فلم انڈسٹری کی خاک چھانی۔ منورظریف جیسے فنکار نے ان کی گود میں دم توڑا۔ مقبول شاہ بیان کرتے ہیں کہ دل کے دورے کے بعد منورظریف کو میوہسپتال لے جایا گیا۔ میں ان کے سرہانے بیٹھا تھا ان کا سر میری گود میں تھا ڈاکٹر مایوس تھے اور کہہ رہے تھے انہیں گھر لے جائیں۔ عزیز واقارب رونے لگے فضا سوگوار ہوگئی تو اچانک منور ظریف اٹھ بیٹھے۔ سبھی کی جان میں جان آگئی۔ منورظریف بولے :” میں تے چلا گیا ساں۔ اللہ کول کرائے دا کوئی مکان ای خالی نئیں سی۔ ایس لئی واپس آگیا ہوں۔“ سبھی ہنسنے لگے۔ پھر کہا۔ ہنسو مت سب کلمہ پڑھو، مجھ سمیت سب کلمہ پڑھنے لگے منور ظریف نے بھی پڑھا اور میری ران پر سر رکھ کر لیٹ گئے دوبارہ کبھی نہ اٹھنے کے لیے۔“
سجاد بھی کیسی کیسی شخصیات سے ملواتے ہیں۔ بندہ کبھی ہنسنے لگتا ہے اور کبھی اداس ہوجاتا ہے کبھی تفکر کے دریا میں غرق ہوکر اپنا آپ تلاشنے لگتا ہے۔ اس کے کرداروں میں عام سے مزدور لوگ بھی ہیں، دانشور، فنکار ،شاعر ، صحافی اور مجذوب درویش بھی جن کی باتیں سن کر انسان حیرت میں ڈوب جاتاہے۔
ہم تو اپنی روح گم کربیٹھے ہیں۔ اس دنیاوی تعیش اور چکا چوند کو زندگی سمجھ بیٹھے ہیں۔ اصل میں زندگی کچھ اور ہے۔ سجاد نے ”فقرپیشہ“ میں اویس قرنی کا قول تحریر کیا ہے:”موت کو سرہانے رکھ کر سویا کرو“۔کاش ہم روزانہ ایسا ہی کریں۔ ہرشب اپنا دن بھر کا احتساب کرکے سوئیں۔ پازیٹو ہوکر سوئیں اور اسی طرح جاگیں۔ دلوں کو حسد، بغض، کینہ، غصہ لالچ حرص جیسی بیماریوں سے پاک کرلیں تو ہرپل شانت رہ سکتے ہیں۔ اوریہی سکون ہرروح کی غذا ہے اور ہم سب صرف اور صرف سکون کے متلاشی ہیں اور یہ ساری بھاگ دوڑ صرف سکون قلب کے لیے کرتے ہیں مگر خواہشات کی غلامی نے ہمیں برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ “
کتنی ہی یادیں تازہ ہوگئیں ادھوری کہانیوں میں جھانکنے سے…. سجاد ملتانی مٹی سے بناہوا خوشبودار اور گہرا آدمی ہے مجھے اس سے مل کر ایسا لگا جیسے آج میں اپنے آپ سے مل رہا ہوں۔
تیری کھوج ہی تیرے درتک لے آئی
تو خوشبو اور میں ہوں ہوا دروازہ کھول
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ