مقبولیت نعمت ہوتی ہے۔ مقبول لوگ ہیرو ہوتے ہیں، عوام ان سے محبت کرتے ہیں مگر ضروری نہیں ان میں ”دانائی“ برداشت اور قوم کی قیادت کی خداداد صلاحیتیں بھی ہوں۔ عمران خان ہی نہیں بہت سے دیگر مقبول افراد اپنی مقبولیت اور عوام کی محبت سے یہ اندازہ لگابیٹھے کہ اب شاید سیاست میں بھی وہ اسی مقبولیت کی سیڑھی پر پاؤں رکھ کر ”قبولیت“ کا درجہ حاصل کرلیں گے۔ مگر کئی اداکار فنکار کرکٹرز پارلیمنٹ تک پہنچ کر بھی قومی سطح کی رہنمائی کا درجہ حاصل نہیں کرسکے۔ عمران خان کسی حد تک واحد مثال ہیں کہ انہیں وزارت عظمیٰ تک کا موقع نصیب ہوا۔ ان کی جدوجہد بھی بے مثال رہی۔ مگر لیڈرز والی وہ خوبیاں جو قیادت کے لیے نہایت ضروری خیال کی جاتی ہیں وہ کرکٹ کی حدتک رہیں ۔ کرکٹ میں چند کھلاڑیوں کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے مگر لیڈر ساری قوم کا رہنما ہوتا ہے۔ بلاشبہ عمران ہمدرد مخلص انتھک اور نہایت پُراعتماد شخصیت ہیں وہ عام لوگوں کے لیے کچھ کرکے ملک کو بہت اونچا لے جانے کے خواب رکھتے ہیں مگر اقتدار کی کرسی ایسی جگہ ہوتی ہے کہ اس تک کوئی صحیح بات پہنچانا نہایت دشوار ہوتا ہے تاوقتیکہ بندہ لیڈر نہ ہو اس کا ہاتھ عوام الناس کی نبض پر ہو اس کی کئی آنکھیں ہوں۔ اس کا جاسوسی کا نظام بہت اعلیٰ سطح کا ہو۔ اب دنیا بدل چکی ہے بادشاہوں کی طرح جاسوس رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی جو ”حقیقت حال“ اپنے بادشاہ تک پہنچایا کرتے تھے، آج تو تھوڑا سا وقت نکال لیا جائے تو سوشل میڈیا ”زبان خلق“ اور نقارہ بنا ہوا ہے۔ عمران خان کو ناکام کرنے والے باہر سے نہیں آئیں گے بلکہ اس کے اردگرد کے لوگ ہیں جو ”جیلسی “ میں اسے کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اس تک حالات کی حقیقی تصویر پہنچنے نہیں دیتے۔ وہ تو پہلے ہی کانوں کے کچے ہیں۔
لیڈر تو وہ ہوتا ہے کہ وہ جب اسٹیج پر کھڑا ہوتو اس کے پیچھے کھڑے ہونے کی کسی کی جرات نہ ہو۔ اس کا رعب اور دبدبہ سب سے پہلے اپنی ٹیم پر ہوتا ہے۔ یہاں تو کیمرے کی بھوک ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ پی ٹی آئی کے آپس کے لوگ لڑ رہے ہیں اور عمران صاحب کسی کو روکنے اور چھوڑنے کا رسک نہیں لیتے ۔
حضور والا !آپ سمجھتے تھے کہ ملک کا خزانہ خالی ہے اور حکومت بنانا کانٹوں کا تاج ہے تو نہ لیتے یہ چانس بیٹھتے اپوزیشن میں۔ مگر آپ تو ہرصورت اس کرسی تک پہنچنا چاہتے تھے۔ اب ان کانٹوں بھرے راستے پر سفر دشوار تو ہے۔ کس کس کو آپ راضی کریں گے۔ میڈیا کے وہ لوگ جو آپ کے لیے نیک تمنائیں رکھتے تھے اب تو وہ بھی مایوس ہوگئے ہیں۔ اصل میں تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہے آپ نے آج تک نہ توکوئی سرکاری ملازمت کی نہ چھوٹی موٹی وزارت کی کٹھالی سے گزرے۔ سو پہلے دن سے اب تک ہرروز ابھی سیکھنے کے مراحل میں ہیں۔ اس زبوں حالی میں قوم آپ کے سیکھنے کے مرحلے تک انتظار نہیں کرسکتی۔ آپ کو ”ہوم ورک“ کرنا چاہیے تھا۔ حالات تو آپ کے سامنے تھے آپ اپنے ساتھ ایسی ماہرین کی ٹیم تیار رکھتے جو ان مسائل سے آپ کو نکالنے کی کوشش کرتی۔ اب تو ہرجگہ آپ انہی لوگوں کو لگارہے ہیں جو پہلے بھی اسی نظام کا حصہ رہے ہیں وہ بھلا آپ کو کامیاب کیوں ہونے دیں گے۔ آپ کے اپنے اردگرد جو لوگ ہیں ان میں زیادہ تر روایتی سیاستدان ہیں جو الیکشن میں پیسہ لگاتے ہی دوگنا کرنے کے لیے ہیں۔ انہیں قوم سے ہمدردی کیا ہوسکتی ہے ؟ سو اب قوم مہنگائی کے سیلاب سے چیخ رہی ہے ابھی مزید چیخے گی آپ کے وزیر خزانہ نے کانوں میں انگلیاں دے لی ہیں آپ ایسا نہیں کرسکتے ۔ سو حالات آپ کے خلاف جارہے ہیں۔ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں۔ پنجاب میں بھی اگر کسی باصلاحیت شخصیت کو لگاتے تو آپ کا بوجھ تقسیم ہوجاتا ہے۔ بڈاوے مٹی کے مادھو قسم کے لوگ قیادت نہیں کرسکتے۔
مجھے افسوس ہے کہ بہار کے دن ہیں شہر میں ہرطرف شادابی اور پھول ہیں میلہ چراغاں کی رونقیں لگی ہوئی ہیں اور مجھے سیاست جیسے خشک موضوع پر لکھنا پڑ رہا ہے۔ چلیں ادھر سے منہ پھیر کر دوسری طرف دیکھتے ہیں۔
جشن بہاراں منایا جارہا ہے۔ اس کے باوجود کہ حکومتی خزانہ خالی ہے مگر ضلعی سطح پر بھی کچھ نہ کچھ ”جشن“ توہورہا ہے لاہور جسے پنجاب کا دل کہتے ہیں اور لاہور کا دل الحمرا آرٹس کونسل قرار دی جاتی ہے مگر اس بار الحمرا یا پنجاب آرٹس کونسل نے جشن بہاراں روایتی انداز میں نہیں منایا۔ بس ”گونگلوؤں سے مٹی جھاڑی ہے“ ہم تو داد دیں گے کہ ڈاکٹر صغرا صدف کو کہ بجٹ نہ ہونے کے باوجود بھی اس نے لاہور کی ثقافت کا چراغ بجھنے نہیں دیا۔ باقی آرٹس کونسلوں کی آمدنی بھی خوب ہے مگر فنکاروں کے لیے کوئی سامانِ دلبستگی نہیں۔ پلاک بظاہر نیا اور چھوٹا ادارہ ہے اس کا بجٹ کم ہوتا ہے اب تو بہت سے اداروں کی گرانٹیں بھی پہلے جیسی نہیں مگر اپنی ہردلعزیزی کے باعث صغراصدف نے کسی نہ کسی طرح فنکاروں ، شاعروں ،ادیبوں اور ثقافت کے انمول رتنوں کو اکٹھا کرکے لاہور کی لاج رکھی ہوئی ہے لاہور جو میلوں ٹھیلوں اور فنکاروں کا شہر ہے یہاں رنگ بہار اور رونق میلہ کہیں ہے تو پنجاب ”انسٹی ٹیوٹ آف لینگویج “ کلچر میں ہے۔ اس قناعت شعاری کا سبق حکومتی سطح پر بھی لیا جاسکتا ہے مسئلہ تو انسانوں کو راضی اور خوش کرنا ہے۔ بندہ تو دوجملے ہنس کے بول سن کر بھی راضی کیا جاسکتا ہے۔ ہم نے میلہ چراغاں میں دوروز مختصر وقت کے لیے ایک جھلک دیکھی ۔ سیشن ہورہے تھے شاہ حسین کے افکار پر لوگوں کو توجہ سے سنتے دیکھا ۔چرخاکی علامت میں مسلسل عملی جدوجہد اور کردار سازی کی بات شاہ حسین جیسے صوفی کرتے رہے ہیں ۔ یہاں لوک فنکاروں نے موسیقی کے وہ جادو جگائے کہ یوں لگ رہا تھا ساری کائنات دھمال میں ہے۔
یہاں گورنر پنجاب چودھری سرور ، وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود، سعدیہ سہیل ، آمنہ الفت اور کئی دیگر سیاسی افراد بھی دیکھے جو اس ملک کے ٹیلنٹ کو آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ کاش وہ ان فنکاروں کے لیے بھی کچھ کرگزریں ۔ یہاں علمی ادبی ثقافتی اداروں کی سالانہ گرانٹیں بھی نہایت کم کردی گئی ہیں۔ کیا اس طرح خزانہ بھرا جاسکتا ہے ؟۔ یہاں بڑے نامور فنکار موجود تھے۔ جنہوں نے اپنی پرفارمنس سے لاہوریوں کے دل جیت لیے، صغراصدف کی ٹیم کو سبھی مبارک باد دے رہے تھے خاقان حیدر غازی ،ممتاز ملک اور ان کے دیگر ساتھی تمام پروگراموں کو سلیقے سے آراستہ کیے ہوئے تھے۔ مشاعرہ بھی خوب رہا۔ بابا نجمی کی صدارت میں سعداللہ شاہ ، باقی احمد پوری ، محمد سلیم طاہر، عائشہ اسلم، ارشد منظور، طاہرہ سرا، راجا نیر، ہارون عدیم، احسان رانا، سرفراز صفی ، صابر علی، زبیدہ حیدر زیبی، بینا گوئندی، روبینہ راجپوت اور کئی دیگر شعراءشریک تھے۔ ویرسپاہی نے نظامت کی۔ یوں میلہ چراغاں چار دن تک جاری رہا۔ مگر یہ میلہ پلاک تک محدود رہا۔ ہرعوامی تہوار پلاک تک دکھائی دیتا ہے کاش الحمرا اور پنجاب آرٹس کو بھی کوئی صغرا صدف نصیب ہوجائے۔ جوسب کو ساتھ لے کر چلے محبت خلوص اور جی بسم اللہ کرتے ہوئے۔ کاش !!
(بشکریہ:روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ