زیادہ دن نہیں گزرتے ” تکیہ درویش“ پر آنے والوں کے خدمت گار امین سے گپ شپ ہو رہی تھی۔ بابا صادق ، ملک لیاقت علی اور بلال بھی موجود تھے۔ تکیہ کے آباد کیے جانے کے دنوں کی باتیں حیران کن تھیں۔ امین نے بتایا یہاں آج تو گل وگلزار ہے مگر میرے فقیر نے جب اِس ویرانے کو آباد کیا تھا، ہر طرف ٹیلے اور جھاڑیاں ہوا کرتی تھیں۔ انہی دنوں کا ذکر ہے۔ قریبی آبادی کا ایک ٹرک ڈرائیور بانی اور اس کا دوست یہاں تشریف لائے۔ پہلے بھی ہر جمعرات وہ آیا کرتے تھے۔ اس بار بانی کے دوست کے کاندھوں پر سوار ایک گول مٹول خوبصورت اور معصوم بچہ بھی تھا۔ اس کی آنکھوں میں عجیب کشش تھی میں نے کہا آج یہ کس کو اٹھا لائے ہو؟ بانی نے بتایا کہ سڑک پر ملا تھا۔ اِس نے پوچھا ” درگاہ تکیہ “ پر جا رہے ہو تو مجھے بھی ساتھ لے لو۔ نجانے کیوں اور کیسے ہم اس کی ہر بات مان رہے تھے۔ پہلے بولا: اگربتی کا پیکٹ اور پھول بھی خریدو اور مٹھائی بھی۔ فقیروں کے ڈیروں پر ” نیاز “ کے بغیر حاضری نہیں دیتے۔ ہمیں کچھ دیر لگی مگر ہم اگلے سٹاپ سے یہ ساری چیزیں لے آئے۔ جب دوبارہ اس کے پاس آئے تو بولا: ” یار ! مجھ سے چلا نہیں جا رہا لمبے سفر سے آیا ہوں مجھے کاندھوں پر بٹھا لو“۔ میرے دوست نے اسے اٹھا لیا۔ ” اب یہ آپ کے سامنے ہے۔ “ امین نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا : ” بعد میں اسے میں نے پانی پلایا۔ پاس بٹھایا اور اس کا نام پوچھا: وہ بولا : میرا نام غلام شبیر ہے اور داتا کی نگری سے آیا ہوں یہاں مجھے سلام کرنے کی تلقین کی گئی میں نے غور سے دیکھا تو اس کا ہاتھ کا انگوٹھا نہیں تھا۔ وہ کوئی اور مخلوق تھی۔ میں نے دریافت کیا غلام شبیر داتا کی نگری میں کب سے ہو؟ بولا : ڈیڑھ سو برس سے ۔
بانی اور اس کا دوست تو کچھ دیر بعد روانہ ہوگئے۔ غلام شبیر بولا ۔ بابا جی کب تشریف لائیں گے؟
میں نے بتایا وہ دوسری بستی میں گئے ہوئے ہیں صبح تشریف لائیں گے۔ بولا : چلو صبح تک میں انتظار کر لوں گا۔ مجھے کوئی حکم ؟ میں نے کہا: بس تم آرام سے بیٹھ جاؤ۔
مگر وہ بضد رہا کہ اسے کوئی ” سیوا “ کرنے کا موقع دیا جائے۔ میں جو کام کہتا وہ پل بھر میں سر انجام دے دیتا۔ مت پوچھیئے وہ رات کیسے گزری۔ صبح پھر وہ کہنے لگا میرے لیے کیا حکم ہے؟ میں آگ جلا رہا تھا وہ آگ بجھا ڈالتا ۔ تین بار یہی کیا میں نے اُ سے کہا تمہیں اُچھلنا آتا ہے؟ ” بولا : ہاں کیوں نہیں؟ وہ پٹوسیاں لگاتا کھیت کے دوسری طرف جاتا پھر وہاں سے واپس آتا۔ مسلسل وہ یہ کام کر رہا تھا۔ اتنے میں آگ جلا کر میں نے لنگر تیار کر لیا۔ بابا جی تشریف لائے تو ” دھول سے اٹے “ غلام شبیر کی دیکھ کر فرمایا:
امین : ” اس بے چارے کا کیا حال کر دیا ہے۔ دیکھو مٹی مٹی ہوگیا ہے“۔ وہ دوڑا ہوا آیا بابا جی کی قدم بوسی کی: پھر میں نے اُ سے منہ ہاتھ دُھلایا۔
بابا جی نے فرمایا: آپ کی حاضری ہوگئی ہے آپ اب جائیں۔ “ اور پھر وہ چھوٹے چھوٹے قدموں سے جاتا دکھائی دیا۔ “
امین نے کہا ڈاکٹر صاحب : داتا نگری واپس جائیں تو غلام شبیر کو ملنا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ میں داتا دربار جاؤں گا اور اسے تلاش کروں گا۔
بات آئی گئی ہوگئی۔ میں داتا دربار اب تک حاضری نہ دے سکا۔ میں نے غلام شبیر کا قصہ کچھ طلبا کو بھی بتایا۔
چند روز قبل میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بزرگ تشریف لائے۔ میں نے حسبِ روایت انہیں تشریف رکھنے کو کہا بعد میں اپنی بوتل سے گلاس میں پانی ڈال کر رکھا۔ انہوں نے پانی پیا۔
میں نے دریافت کیا: ” جی میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ “؟
بزرگ بولے: میں یہاں ایک دوست سے ملنے آیا تھا۔ آپ کا دروازہ کھلا دیکھ کر آگیا۔ کیا میں یہاں چند ساعتیں بیٹھ سکتا ہوں۔؟ میں نے قدرے شرمندگی سے کہا: جی جی بسم اللہ کیوں نہیں؟ چائے پینی ہے تو اس کمرے سے ذرا فاصلے پر ہمارے کیفے میں جانا پڑے گا۔ ؟
بزرگ بولے: ” نہیں نہیں۔ بس ٹھیک ہے۔ آپ زحمت نہ کریں۔“
میں نے کہا: آپ کا شَغل کیا ہے؟
بولے! شغل …. پھر دھیرے سے مسکرا کر کہا: ہاں ” شغل میلہ“۔
یہ سب شغل میلہ ہے میرا شغل کیا ہونا ہے؟ ہم سب شغل دیکھ تو رہے ہیں۔
میں نے کہا : آپ نے تو بڑی گہری بات کر دی۔ “
بولے : ” آپ کا جی بسم اللہ ہمیں بڑا پسند آیا ہے۔ کیا بات ہے ” جی بسم اللہ کی “ ۔
میں نے آہستہ سے کہا : جی بسم اللہ ۔ آپ کے دوست یہاں کس شعبے سے وابستہ ہیں۔؟
وہ تو جی شعبے کا تو مجھے پتہ نہیں۔ وہ شاید مالی ہیں۔ ادھر قریب ہی ان کی رہائش بھی ہے۔ میں کبھی کبھی انہیں سلام کرنے آتا ہوں۔ وہ میرے محسن ہیں جی ۔ مجھے یاد کریں تب بھی حاضر ہو جاتا ہوں۔ پھر بولے ! آپ کب سے ہیں میں نے بتا دیا۔ کہا! یاد سے آباد ہے سب کچھ۔
میں نے کہا جی بسم اللہ آپ نے دوسری گہری بات کر دی ہے۔ ” واقعتاً “ دل یاد سے آباد ہونا چاہئے۔ “
بولے ! تو پھر بندہ غفلت کیوں کرے؟ اپنے محسن کو ہر پل یاد رکھنا چاہئے؟
میرا موبائل بجا تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے! آپ فون سنیئے۔ پھر کبھی اِدھر آیا تو ملاقات ہوگی۔ میں نے فون اٹھایا تکیہ درویش سے کال تھی۔
ہری پور کے بلال کی آواز تھی۔ یہ امین بھائی آپ سے بات کریں گے۔
میں نے جی بسم اللہ کہا: دوسری طرف سے امین کی آواز آئی ڈاکٹر صاحب! غلام شبیر سے ملا لیا ہے۔ میرے ذہن میں ساری کہانی گونجنے لگی۔ میں نے صرف اتنا کہا: یہ بھی جو شخص اٹھ کر گیا ہے یہ تو بابا تھا کیا یہ غلام شبیر تھا۔ لیکن امین بھائی یہ ملاقات تو نہ ہوئی۔ فون بند ہوگیا۔
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ