کہتے ہیں جس گھر میں کتابیں نہ ہوں وہ گھر قبرستان قرار دیا جاسکتا ہے ۔ کتابیں گھروں کی زینت ہی نہیں گھر والوں اور پڑھنے والوں کی ” خاموش اتالیق “ بھی ہوا کرتی ہیں۔ جوں جوں ترقی ہو رہی ہے ہمارے یہاں کتاب کلچر دم توڑ رہا ہے ۔ سوشل میڈیا انٹرنیٹ اور موبائیل نے ہمیں کتاب دوستی سے کسی حد تک محروم کر دیا ہے ۔ اب کتاب بھی موبائیل سکرین پر پڑھنے کی روایت جنم لے رہی ہے ۔ مگر جو مزا کتاب کو ہاتھ میں لے کر پڑھنے میں ہے وہ سکرین پر کہاں۔؟ رات دن موبائیل سے چپکے نوجوان ذہنی مریض بن رہے ہیں۔ اب تو موبائیل ایسا کھلونا بن چکا ہے جو رات دن ہمیں مصروف رکھتا ہے ۔ رات دن اگر آنکھیں موبائیل سکرین سے چپکی رہیں تو نہ صرف یہ کہ ہمارے اعصاب شل ہو جاتے ہیں بلکہ آنکھوں کی بینائی بھی ماند پڑتی جاتی ہے ۔
بات کتاب کی ہو رہی تھی۔ کتابوں کی عادت پر مسائل کرنے کے لیے ہمارے چو بیس گھنٹے چلنے والے ٹی وی چینلز کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ کتاب میلے، اور کتب کی اشاعت و فروغ کے لیے مختلف پروگرام نہایت ضروری ہیں۔ کتاب کی رونمائی کے لیے منعقدہ تقریبات بھی فروغ کتب میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ سو کتابوں کی تقریبات جس قدر بھی منعقد ہوں کم ہیں۔ ایسی تقریبات کتاب کے تعارف اور اس کے مندرجات سے آگاہی کے کام آتی ہیں۔ ہر مصنف کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی کتاب قارئین تک پہنچے اس کے لیے کتاب کی رونمائی کے پروگرام بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں مختلف تنظیمیں بھی کام کرتی ہیں۔ رائیٹرز کونسل پاکستان ادب اور خاص طور کتاب کلچر کی ترویج کے لیے کام کرنے والے نوجوانوں کی تنظیم ہے ۔ اس کے روح رواں نوجوان تخلیق کار اور کالم نگار مرزا محمد یٰسین بیگ ہیں۔ جو ہر دو ماہ بعد شاندار ادبی تقریبات کراتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ نوجوانوں دوست کتاب کی تقریب کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت مل جل کر پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ یہ کسی گرانٹ یا مصنف کی طرف سے مال امداد کا سہارا لیے بغیر کتاب کلچر کے فروغ کے لیے مل جل کر کام کرتے ہیں۔
اگلے روز اِس تنظیم نے خاکسار کی دو کتابوں ” جی بسم اللہ “ اور عاجزانہ ( شعری مجموعہ ) کی تقریب کا اہتمام کیا۔ میں نے کبھی اپنی کتاب کا پروگرام منعقد نہیں کرایا۔ ستائیس برس قبل اے ۔ جی جوش صاحب نے ادب دوست تنظیم کے تحت میری ایک کتاب کی تقریب رونمائی منعقد کرائی تھی جس میں منیر نیازی، خواجہ محمد زکریا، بشریٰ رحمن، دلدار پرویز بھٹی اور دیگر شخصیات نے اظہار خیال کیا تھا۔ اس کے بعد میری متعدد کتب شائع ہوئیں مگر اس طرف دھیان نہ دے سکا۔ اب کے مرزا محمد یٰسین بیگ نے از راہِ محبت پیشکش کی تو انکار نہ کر سکا۔
نجانے کیوں مجھے اسٹیج پر بیٹھ کر اپنے بارے میں تو صیفی کلمات سننے میں حجاب سا آتا ہے ۔ سبھی لوگ ایک شخص کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں پھر اُس کے فن و شخصیت کو بھی موضوع بناتے ہیں۔ ہر کسی کو یہ سب کچھ پسند ہوتا ہے کہ اس کے فن کی پذیرائی کی جائے مجھے بھی پسند ہے مگر اس کے لیے مزاجاً زیادہ سنجیدہ کبھی نہیں ہوتا۔ رائٹرز کونسل کی ٹیم کا ممنون ہوں کہ انہوں نے نامور اہل قلم کو مدعو کیا اور میری کتابوں کو موضوع بنایا۔
میں ذاتی طور پر جناب اصغر ندیم سید، ڈاکٹر اجمل نیازی، ڈاکٹر شاہد سرویا، منصور آفاق ، غلام حسین ساجد، علی اصغر عباس، سجاد جہانیہ ، افضل عاجز، زاہد حسن اور مرزا یٰسین بیگ کا ممنون ہوں کہ انہوں نے میری کتابوں کے علاوہ میری ادبی خدمات پر بھی اظہار خیال کیا۔ سجاد جہانیہ تو باقاعدہ اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر ملتان سے لاہور تشریف لائے۔ بہت سے احباب گفتگو کر سکتے تھے۔ مگر وقت آڑے آیا۔ ڈاکٹر جواز جعفری، ڈاکٹر اشفاق ورک، ڈاکٹر غفور شاہ قاسم، جمیل احمد عدیل میرے بارے میں لکھ بھی چکے ہیں۔ انہیں بھی سٹیج پر بلایا جاسکتا تھا مگر 6 بجے تک ہال کا وقت تھا۔ میں ان دوستوں کا شکر گزار ہوں کہ یہ وقت نکال کر اتوار کی چھٹی داؤ پر لگا کر گرمی میں میری تقریب کے لیے تشریف لائے۔ گرمی تو سب کے لیے تھی۔ اتوار کو گھر سے نکلنا بھی سب کے لیے آسان نہیں ہوتا۔ مگر آپ سب آئے بلکہ ہال میں بار بار کرسیاں لگوانی پڑیں۔ ہال فل ہوگیا بعض دوستوں نے تقریب میں کھڑے ہو کر کارروائی ملاحظہ کی۔ کراچی سے ہمارے سینئر شاعر صابر ظفر بھی تشریف لائے۔ صدر شعبہ انگریزی ضمیر نقوی، ڈاکٹر علی محمد خان، سجاد بلوچ ، عنبرین صلاح الدین، ندیم نظر ( میگزین ایڈیٹر روزنامہ اوصاف) شہزاد فراموش ( روزنامہ خبریں) سروسز اکیڈمی کے روح رواں شبیر چودھری اور کریسنٹ کالج گروپ کے پروفیسر زاہد قمر، ہمارے شعبہ اردو کے ڈاکٹر عتیق انور، ڈاکٹر نورین کھوکھر ، ڈاکٹر انیل ، پروفیسر خلیل احمد، پروفیسر حفیظ الرحمن، ارشاد ( ایم فل پروگرام) ممتاز شاعرہ ناز بٹ، ممتاز کالم نگار شاعرہ ثوبیہ نیازی، علامہ عبدالستار عاصم، راؤمحمد عمر ارسلان احمد، محمد جمیل اکادمی ادبیات لاہور ، قد آور شاعرہ نوید مرزا، پروفیسر جنید رضا اسلم، سعدیہ توصیف، ملتان سے حال ہی میں لاہور شفٹ ہونے والی نامور افسانہ نگار شاعرہ شہناز نقوی، ادبی جریدہ ادب و ثقافت کے مدیر اعلیٰ سلیم اختر، سعدیہ یاسین ، غلام محی الدین ( کالم نگار ) ناصرہ بشیر، وجیہہ جمیل ، رائے نصر اللہ خاں، رانا مدثر، منیب اختر، ظفر اقبال ظفر، رائے عقیل بھٹی ، صدر انجمن راجپوتان لاہور، عارف نوناری، تیمور وقار امجد فاروق میرانی احتشام ان کے احباب عبدالکریم کرمانی اور دیگر بہت سے دوستوں نے شرکت کی۔ جو نام اِس وقت ذہن میں نہیں آرہے ان کا بھی بہت شکریہ۔ تقریب میں میرے بارے میں بہت کچھ کہا گیا میں یقینااس قدر تحسین کے لائق نہیں۔ تاہم تمام محبت کرنے والوں کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ممنون ہوں۔ اپنے بارے میں کیا کہوں عرض یہی ہے ۔
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے
(بشکریہ:روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ