خاوند گھر میں داخل ہوا تو بیوی بولی !
ہاہائے شکر ہے آپ خیریت سے ہیں۔
خاوند نے پوچھا!”کیوں خیر تو ہے آج میری فکر کہاں سے ہوگئی تمہیں؟
نئیں اصل میں وہ اعلان ہورہا تھا کوئی ”رن مرید“ گٹر میں گر گیا ہے۔
”فٹے منہ تیرا“ خاوند نے بیوی کا جواب سن کر کہا : ”کان کھول کر سناتھا وہ اعلان تھا ”رانا مرید گٹر میں گر گیا ہے۔“
رن مرید کا یہ لطیفہ ہمیں ایک خبر کے کلپ کے ساتھ ملتان سے ظفر منج راجپوت نے بھیجا ہے۔ خبر روہی ٹی وی پر چلی کہ ملتان میں ایک ہوٹل ” رن مرید“ کے نام سے کھل گیا ہے۔ ہوٹل کے نوجوان مالکان کا کہنا ہے کہ ہمارے گھر میں ابو ہماری ماں کی کوئی بات نہیں ٹالتے۔ کھانا تک خود بنالیتے ہیں۔ ناشتہ بھی تیارکردیتے ہیں ہماری ماں کو سوئے ہوئے کبھی جگانے کی کوشش نہیں کرتے۔نہ ہماری ماں کو کہیں آنے جانے سے منع کرتے ہیں۔ بس یہی دیکھ کر ہم نے اپنے ہوٹل کا نام ”رن مریدہوٹل“ رکھا ہے ۔ تاکہ زن مریدوں کی حوصلہ افزائی ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ گھر میں بیشتر افراد (خاوند) بیگمات سے ڈرتے ہیں مگر اس کا اعتراف کبھی نہیں کرتے۔ خبر میں بعض رن مرید قسم کے گاہکوں کے تاثرات بھی شامل تھے۔ جن کا کہنا تھا کہ لوگ ہمیں زن مرید کہتے ہیں سو یہ ہوٹل دیکھ کر ہمیں خوشی ہوتی ہے سو ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم یہاں آکر کھانا کھائیں۔“
یہ ساری باتیں اس لیے بھی یاد آتی ہیں کہ ان دنوں ”آئی ایم ایف“ نے وطن عزیز میں قدم رنجہ فرمایا ہوا ہے اور عمرانی حکومت کومجبوراً نہ چاہتے ہوئے بھی آئی ایم ایف کی کڑی شرائط مان کر قرض لینا پڑ رہا ہے۔ اور یہ قرض پچھلی حکومتوں نے حاصل کیا اب اس کا سود اس قدر بڑھ گیا ہے کہ عوام کو سخت مہنگائی کے تنور میں ڈال کر قرض لینا پڑرہا ہے۔ پٹرول گیس اور دیگر ٹیکس بڑھانے سے مہنگائی نے غریبوں کا سانس لینا بھی دشوار کردینا ہے۔ ارشد شریف کے پروگرام میں ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق کا تجزیہ بھی بجا تھا کہ اگر پچھلی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے سبب ہم اتنے مقروض ہوگئے ہیں تو پھر اسی دور کے وزیر خزانہ کو دوبارہ قوم پر کیوں مسلط کیا گیا ہے۔ کیا اب وہ کئی ایسے اقدامات کرلیں گے کہ قرض کی رقوم لے کر عوام خوشحال ہو جائیں گے اور یہ جو کہتے ہیں کہ بجلی مہنگی ہونے سے غریب پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ پٹرول گیس قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی کے شعلے آسمان سے باتیں کریں گے۔ 300یونٹ بجلی کا خرچ کرنے والے لوگ کتنے ہیں؟ ۔ عام آدمی کی چیخیں تو ابھی سے سنائی دینے لگی ہیں۔ رمضان المبارک میں بعض حضرات اچھی طرح سحروافطار سے قاصر ہیں۔ فروٹ سبزی گھی دالیں تک عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوگئی ہیں۔ میڈیا عمران خان صاحب کی پرانی تقاریر دکھا کر لطف لے رہا ہے۔ ان تقریروں میں آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر قرضہ لینے پر نواز شریف حکومت پر سخت تنقید کی جاتی رہی ہے۔ لیکن عمران کی قسمت خراب ہے۔ مسلم لیگی حکومت نے جان بوجھ کر ملکی خزانے کا وہ حال کردیا تاکہ عمران اگر حکومت سنبھال بھی لے تو اسے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ اور بالکل ایسے ہی ہورہا ہے۔ عمران وزیراعظم تو بن گئے ہیں مگر انہیں خزانہ خالی ملنے کے علاوہ ورثے میں اربوں کا قرض اور اس کا سود بھی ملا۔ اور ماشاءاللہ ٹیم بھی ایسی میسر آئی کہ روایتی انداز میں سیاست کرنے والے سیاست پر اس لیے خرچ کرکے آتے ہیں کہ اپنی خرچ شدہ رقم دوگنا واپس حاصل کرسکیں۔ کون مخلص ہے عمران کی ٹیم میں۔ ممکن ہے جہانگیر ترین عمران کے نظریے سے مخلص ہو لیکن لگتا نہیں کوئی وڈیرہ جاگیردار، صنعت کار اپنے مفادات کو داﺅ پر لگاکر عوام کا دردمند نہیں ہوسکتا۔ اور انتخابی سیاست میں عمران نے وہی ”سوداگر“ اپنے ساتھ رکھے تاکہ وہ منتخب ہوکر اسے وزیراعظم بناسکیں۔ اب وہ مال بنانے کے لیے آئے ہیں وہ عمران کے خلوص کو دیکھیں یا اپنے خرچ کیے گئے مال کو۔ انہیں اپنی ”ٹور“ بنانی ہے اللے تللے کرنا ہیں اور ہوٹروالی گاڑیوں میں پھرنا ہے۔ مراعات لینی ہیں۔ وہ فلاحی ریاست کے قیام اور مساوات کے لیے کیوں اپنا سب کچھ داﺅپر لگائیں ؟۔ سو عمران خان کہتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرکے قرضہ لے رہے ہیں۔ بس صرف دوسال اور انتظار کریں ملک کو پٹڑی پر لے آئیں گے قرض اتر جائے گا اور پھر غریبوں کے لیے بہت کچھ کریں گے اور غریب بے چارے دوسال کے لیے ”فریز“ تو ہو نہیں سکتے۔ سو سکتے کے عالم میں ہیں۔ پی ٹی آئی کے نعرے لگانے والے بھی کئی خودانگشت بدنداں ہیں۔ بعض کہتے ہیں قرضہ لے رہے ہیں مگر اس سے عیاشی کوئی نہیں کرسکے گا کہ اوپر کپتان (وزیراعظم) دیانتدار ہے وہ حریص لالچی نہیں۔ عمران بھی کہتا ہے کہ آئی ایم فیئر ….سوآئی ایم ایف کو برداشت کرو کہ اوپر بندہ Fairہے۔
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ