شاعر ادیب فنکار ایسے لوگ نہیں ہوتے جو بیمار ہو جائیں تو ان کی خبریں شائع ہوں، ان کے علاج معالجے پر سرکاری توجہ دی جائے، یہ تو معاشرے کا کسی حدتک وہ پسماندہ طبقہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی ان کو اخبارات میں جگہ نہیں ملتی۔ سنگل کالم کی خبر ہی ان کا ”استحقاق “ سمجھا جاتا ہے۔ اور جہاں تک موجودہ حکومت کا تعلق ہے تو اسے تو ابھی اپنی ہوش نہیں۔ وزیراعظم کو بھی اب کچھ کچھ یقین ہونے لگا ہے کہ وہ وزیراعظم کی نشست پر براجمان ہیں۔ عمران خان بلاشبہ اس ملک اور قوم کے ہمدرد ہوں گے مگر انہیں ابھی حکمرانی کی ”اپرنٹس شپ “ مکمل کرنی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ابھی ان کے احکامات پر بس نوکر شاہی میں جوں تک ہی رینگتی ہے ۔ معیشت ہی انہیں سراٹھانے کا موقع نہیں دے …. ٹیکس پر ٹیکس لگا کر وہ کام چلانا چاہتے ہیں۔ بڑے بڑے مگرمچھ ٹیکس دینے کی بجائے اپنے علاقے کے ”انکم ٹیکس“ کو راضی رکھتے ہیں اور ٹیکس کا زیرہ قومی خزانے کے اونٹ کے منہ دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ سو مہنگائی نے مت مار رکھی ہے ایسے میں معاشرے کے شردماغوں، فنکاروں اور تخلیق کاروں کے لیے کون سوچے گا۔
عمران خان کیا اس کے ثقافتی وزیر کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ آج پاکستان کی ”شناخت“ بننے والا ”تخلیق کار“ چپکے سے اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا۔ جی ہاں محمد نثار ناسک ایک اہم تخلیق کارتھا ۔ وہ بائیس کروڑ لوگوں کے دلوں میں ” پاکستان “ کو چراغ کی طرح روشن کر گیا تھا۔ وہ ” دل دل پاکستان “ تخلیق کر گیا، اسے ہرپاکستانی کا دل اور جان پاکستان کی صورت دکھائی دیتا تھا۔ وہ ایک جینوین شاعر تھا۔ ریڈیوپاکستان میں بطور سکرپٹ رائٹر وابستہ تھا اور اپنے لہو سے شعر تخلیق کرتا تھا۔
نثار ناسک سے قبل نظم کا بڑا شاعر عبدالرشید اور ڈرامہ نگار ناول نویس اداکار ڈاکٹر انور سجاد ہم سے رخصت ہوئے۔ ان کے لیے ہمارے میڈیا نے کیا کیا۔ انورسجاد کو طویل علالت کے آخری ایام میں سوشل میڈیا کی وساطت سے ان کے بقایاجات اور اکادمی کی طرف سے علاج معالجہ کے لیے امداد مہیا کی گئی۔ لیکن اب کافی تاخیر ہوچکی تھی۔ انور سجاد چپ چاپ چل بسے ۔ نثارناسک ایک سچے اور کھرے پاکستانی شاعرتھے۔ وہ قوم کے گیت نگار تھے۔ ” دل دل پاکستان جاں جاں پاکستان “ جسے شہکار گیت کے خالق تھے جو آج بھی ہردل میں دھڑکتا ہے مگر اس گیت کے خالق کی طرف کبھی کسی کی توجہ نہیں گئی حکومتی چرنوں میں اس نے نہایت کسمپرسی کے عالم میں ہولی فیملی ہسپتال میں آخری سانسیں لیں۔ اور ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا۔ ہم سے کئی لکھنے والے اس سے زیادہ دور نہ تھے مگرکسی نے بھی ” دل دل پاکستان “ کے خالق کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔ البتہ اب نثار ناسک کی موت پر ہم کالم لکھ رہے ہیں۔ اس کی موت کو ایک محب وطن پاکستانی شاعر کی موت قرار دے رہے ہیں۔ مرنے کے بعد شاعروں ادیبوں کے لیے بہت کچھ لکھا جاتا ہے مگر زندگی میں کبھی ان کی قدر نہیں کی جاتی۔ بہت شکریہ کہ آج نصیر احمد ناصر جو خود ایک بڑے نظم گو شاعر نے انہیں یاد کیا اور اس کی مختصر نظم اپنی فیس بک پر پوسٹ کی :
اے پہاڑ کے لوگو!
آج رات مت سونا
آج مل کے روئیں گے
ساری عمر کا رونا
محبوب ظفر نے اسلام آباد سے اطلاع دی کہ دل دل پاکستان کے خالق نثار ناسک اب ہم میں نہیں رہے انہیں ڈھوک رتہ قبرستان میں دفنایا جائے گا۔ انا لِلہ وانا الیہ راجعون۔
جبار مرزا صاحب نے مختصر تعارف فیس بک پر لکھ دیا کہ آپ 15فروری 1943ءکو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور 76برس کی عمر پائی ۔نثار ناسک محلہ میلاد نگر رتہ امرال راولپنڈی میں رہائش پذیر تھے۔ وہ ریڈیوپر اختر امام رضوی کی تخلیقی ٹیم کا حصہ تھے۔ نثار ناسک کا اولین شعری مجموعہ ہمدم دیرینہ آصف بھلی کی کاوشوں سے ماوراپبلشرز کے روح رواں خالد شریف نے شائع کیا۔ ”میں چوتھی سمت آنکلا“ میں ان کی شہکار غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔ مجھے ذاتی طورپر اس لیے بھی عزیزتھے کہ ان کے نام کا آدھا حصہ میرے دوست اطہر ناسک نے بھی اپنے نام کے ساتھ لگارکھا تھا۔ اب دونوں اس جہانِ فانی سے جاچکے ہیں۔ نثار ناسک کے چند اشعار نذرقارئین ہیں۔
میں سازشوں میں گھرا اک یتیم شہزادہ
یہیں کہیں کوئی خنجرمری تلاش میں ہے
ہم کو آزادی ملی بھی تو کچھ ایسے ناسک
جیسے کمرے سے کوئی صحن میں پنجرہ رکھ دے
قتل طفلاں کی منادی ہورہی ہے شہر میں
ماں مجھے بھی مثلِ موسیٰ توبہادے نہر میں
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)